صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: مساقات کے بیان میں
The Book of Watering
17. بَابُ الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ مَمَرٌّ، أَوْ شِرْبٌ فِي حَائِطٍ أَوْ فِي نَخْلٍ
17. باب: باغ میں سے گزرنے کا حق یا کھجور کے درختوں میں پانی پلانے کا حصہ۔
(17) Chapter. One may have the right to pass through a garden or to have a share in date-palms.
حدیث نمبر: Q2379
Save to word اعراب English
قال النبي صلى الله عليه وسلم: من باع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع، فللبائع الممر والسقي حتى يرفع، وكذلك رب العرية.قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ بَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، فَلِلْبَائِعِ الْمَمَرُّ وَالسَّقْيُ حَتَّى يَرْفَعَ، وَكَذَلِكَ رَبُّ الْعَرِيَّةِ.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے پیوندی کرنے کے بعد کھجور کا کوئی درخت بیچا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہوتا ہے۔ اور اس باغ میں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا حق بھی اسے حاصل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا پھل توڑ لیا جائے۔ صاحب عریہ کو بھی یہ حقوق حاصل ہوں گے۔

حدیث نمبر: 2379
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) 5 اخبرنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه رضي الله عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من ابتاع نخلا بعد ان تؤبر فثمرتها للبائع، إلا ان يشترط المبتاع، ومن ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه، إلا ان يشترط المبتاع". وعن مالك، عن نافع، عن ابن عمر، عن عمر في العبد".(مرفوع) 5 أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ". وَعَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ فِي الْعَبْدِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پیوندکاری کے بعد اگر کسی شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچا تو (اس سال کی فصل کا) پھل بیچنے والے ہی کا رہتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے (کہ پھل بھی خریدار ہی کا ہو گا) تو یہ صورت الگ ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی مال والا غلام بیچا تو وہ مال بیچنے والے کا ہوتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے تو یہ صورت الگ ہے۔ یہ حدیث امام مالک سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اس میں صرف غلام کا ذکر ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated 'Abdullah (ra) said, I heard the Messenger of Allah (saws) say "If somebody buys date-palms after they have been pollinated, the fruits will belong to the seller unless the buyer stipulates the contrary. If somebody buys a slave having some property, the property will belong to the seller unless the buyer stipulate that it should belong to him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 566


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري2379عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح البخاري2204عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح البخاري2206عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترطه المبتاع
   صحيح البخاري2716عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3905عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3902عبد الله بن عمرأيما نخل اشتري أصولها وقد أبرت فإن ثمرها للذي أبرها إلا أن يشترط الذي اشتراها
   صحيح مسلم3901عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   صحيح مسلم3903عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع
   جامع الترمذي1244عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   سنن أبي داود3433عبد الله بن عمرمن باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترطه المبتاع من باع نخلا مؤبرا فالثمرة للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   سنن النسائى الصغرى4639عبد الله بن عمرأيما امرئ أبر نخلا ثم باع أصلها فللذي أبر ثمر النخل إلا أن يشترط المبتاع
   سنن النسائى الصغرى4640عبد الله بن عمرمن ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع من باع عبدا وله مال فماله للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   سنن ابن ماجه2211عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد أبرت فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع من ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع
   سنن ابن ماجه2212عبد الله بن عمرمن باع نخلا وباع عبدا جمعهما جميعا
   سنن ابن ماجه2210عبد الله بن عمرمن اشترى نخلا قد أبرت فثمرتها للبائع إلا أن يشترط المبتاع
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم483عبد الله بن عمرمن باع نخلا قد ابرت فثمرها للبائع إلا ان يشترطه المبتاع
   بلوغ المرام718عبد الله بن عمر من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للذي باعها إلا أن يشترط المبتاع
   مسندالحميدي625عبد الله بن عمرمن باع عبدا وله مال، فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع، ومن باع نخلا بعد أن تؤبر، فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2379 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2379  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق اگر پیوند کی ہوئی کھجوروں کو فروخت کیا گیا تو ان کا پھل بیچنے والے کا ہو گا۔
جب پھل کا مالک یہ ہے تو اسے باغ میں جانے کے لیے راستہ اور انہیں سیراب کرنے کے لیے پانی کا حصہ بھی دیا جائے گا۔
(2)
غلام کے متعلق حضرت عمر ؓ سے مروی حدیث کو موطا امام مالک میں متصل سند سے بیان کیا گیا ہے کہ غلام کا مال فروخت کرنے والے کا ہے لیکن جب خریدار شرط لگا لے تو اس صورت میں غلام کا مال خریدار کو مل جائے گا۔
بہرحال پیوند کیے ہوئے باغات کے متعلق عام قاعدہ یہی ہو گا کہ جس شخص نے پیوندکاری کی، اس کے بعد باغ فروخت کر دیا تو پھل کا حق دار وہی ہو گا، خریدار کو اگلے سال پھل ملے گا لیکن اگر خریدنے والے نے شرط لگا دی تو معاملہ شرط کی بنیاد پر ہو گا۔
(فتح الباري: 64/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2379   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 483  
´جانوروں سے حسن سلوک کی فضیلت`
«. . . 234- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من باع نخلا قد أبرت فثمرها للبائع إلا أن يشترطه المبتاع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھجور کے وہ درخت بیچے جن کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کے پھل کا حقدار بیچنے والا ہے الا یہ کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ پھل میرا ہو گا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 483]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2204، ومسلم 77/1543، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ عام دلیل اپنے عموم پر جاری رہتی ہے الا یہ کہ کوئی خاص دلیل اس کی تخصیص کر دے۔
➋ لین دین اور دیگر امور میں مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا اعتبار ہوگا الا یہ کہ یہ شرائط واضح طور پر کتاب و سنت کے خلاف ہوں تو رد کردی جائیں گی۔
➌ درختوں کی پیوند کاری جائز ہے۔
➍ عبادات ہوں یا معاملات اسلام ہر سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
➎ معاملات میں جھگڑے سے بچنے کے لئے وضاحت اور صراحت مستحب ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 234   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4639  
´کھجور کے درخت بیچے جائیں اور خریدار اس کے پھل کی شرط لگا دے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی کوئی کھجور کے درخت کی پیوند کاری کرے پھر اس درخت کو بیچے تو درخت کا پھل پیوند کاری کرنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا پھل کی شرط لگا لے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4639]
اردو حاشہ:
(1) مقصد یہ ہے کہ اگر کھجوروں کے درخت ایسی حالت میں بیچے جائیں کہ ان پر پھل لگ چکا ہو اور موجود بھی ہو تو وہ پھل بائع کا ہوگا، تا ہم اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ درختوں پر لگا ہوا پھل بھی میرا ہو گا اور بیچنے والا یہ شرط مان لے تو اس صورت میں پھل مشترَی کا ہوگا۔ اور یہ بیع بالکل درست ہو گی۔ اگر خریدار پھلوں کی شرط نہیں لگائے گا تو وہ پھل بیچنے والے کے ہوں گے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھجوروں اور درختوں کی پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔ یہ درست عمل ہے۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت اور خرابی نہیں ہے۔
(3) ایسی شرط جو معاہدے کے منافی نہ ہو، اس کے متعین کر لینے سے بیع فاسد نہیں ہو گی اور نہ یہ چیز اس حدیث مبارکہ کے حکم میں داخل ہوگی جس میں بیع اور شرط سے منع کیا گیا ہے، معلوم ہوا کہ درختوں کی بیع پھل کے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4639   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4640  
´غلام بیچا جائے اور خریدار اس کے مال کی شرط لگا دے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تابیر (پیوند کاری) ہو جانے کے بعد (کھجور کا) درخت خریدے تو اس کا پھل بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے، اور جو غلام بیچے اور اس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بائع کا ہو گا سوائے اس کے کہ خریدار شرط لگا دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4640]
اردو حاشہ:
اس کا مال بیچنے والے کو ملے گا کیونکہ مالک نے غلام بیچا ہے نہ کہ مال۔ غلام کا مال درصل مالک کا ہوتا ہے۔ غلام خود مالک نہیں ہوتا، خواہ مالک نے غلام کو کاروبار کی اجازت بھی دے رکھی ہو۔ باب میں لفظ استثنا استعمال کیا گیا ہے، مراد شرط لگانا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4640   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3433  
´بیچے جانے والے غلام کے پاس مال ہو تو وہ کس کا ہو گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام کو بیچا اور اس کے پاس مال ہو، تو اس کا مال بائع لے گا، الا یہ کہتے ہیں کہ خریدار پہلے سے اس مال کی شرط لگا لے ۱؎، (ایسے ہی) جس نے تابیر (اصلاح) کئے ہوئے (گابھا دئیے ہوئے کھجور کا درخت بیچا تو پھل بائع کا ہو گا الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت شرط لگا لے (کہ پھل میں لوں گا)۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3433]
فوائد ومسائل:
توضیح۔
کھجوروں پر پھل آنے سے پہلے ان کی خاص انداز سے اصلاح کی جاتی ہے۔
اور مادہ کھجوروں میں نر کا بور وغیرہ ڈالا جاتا ہے۔
اسے تابیر (بورڈالنا۔
یا پیوندکاری)
کہتے ہیں۔
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے۔
کہ اگر غیر تابیرشدہ کھجور بیچی گئی ہو اور اس پر پھل ہو تو وہ خریدار کیا ہوگا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3433   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2210  
´قلم کئے ہوئے کھجور کے درخت کو بیچنے یا مالدار غلام کو بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدے، تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، الا یہ کہ خریدار خود پھل لینے کی شرط طے کر لے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2210]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
درختوں کا پھل اس وقت بننا شروع ہوتا ہے جب پھول کے نر حصے کا زردانہ مادہ حصے کی ڈنڈی کے سرے تک پہنچ جائے۔
عام درختوں میں ایک ہی پھول میں نر اور مادہ حصے ہوتے ہیں، اس طرح مادہ پھول آسانی سے بارآور ہو جاتا ہے جو بعد میں پھل بن جاتا ہے۔
بعض پودوں میں نر پھول الگ ہوتے ہیں اور مادہ پھول الگ۔
ان میں حشرات اور ہوا کے ذریعے سے نر پھول کا زردانہ مادہ پھول تک پہنچ جاتا ہے اور پھل بننا شروع ہو جاتا ہے۔
کھجور کے درخت میں نر پھول ایک درخت پر لگتے ہیں اور مادہ پھول دوسرے درخت پر۔
ان میں اگر ہوااور حشرات کے ذریعے سے بار آوری پر اعتماد کیا جائے تو پھل بہت کم لگتا ہے، اس لیے نر درخت کے پھول لے کر مادہ درخت پر چڑھ کر اس کے پھولوں پر چھڑکے جاتے ہیں۔
اس طرح پھل زیادہ لگتا ہے۔
عربی میں اسے تأبیر کہتے ہیں۔

(2)
تأبیر ایک مشقت طلب کام ہے اور اس پر پیداور کی مقدار کا انحصار ہے، اس لیے اگر تأبیر کے بعد درخت بیچا جائے تو بیچنے والے کی محنت ضائع جاتی ہے، چنانچہ سودا کرتے وقت یہ وضاحت ہونی چاہیے کہ صرف درخت بیچا جارہا ہے یا اس کا پھل بھی۔
اگر وضاحت نہ کی گئی ہو تو صرف درخت فروخت ہوگا، اس کا پھل بدستور بیچنے والے کی ملکیت رہے گا، البتہ آئندہ سالوں میں جب خریدار تأبیر کرے گا تو پھل کا مستحق بھی وہی ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2210   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2211  
´قلم کئے ہوئے کھجور کے درخت کو بیچنے یا مالدار غلام کو بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تابیر (قلم) کئے ہوئے کھجور کا درخت بیچے تو اس میں لگنے والا پھل بیچنے والے کا ہو گا، سوائے اس کے کہ خریدنے والا خود لینے کی شرط طے کر لے، اور جو شخص کوئی غلام بیچے اور اس غلام کے پاس مال ہو تو وہ مال اس کا ہو گا، جس نے اس کو بیچا ہے سوائے اس کے کہ خریدنے والا شرط طے کر لے کہ اسے میں لوں گا،، ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2211]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
غلام کو اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے بعض اوقات مال کی ضرورت ہوتی ہے اور مالک مناسب مقدار میں رقم اس کے تصرف میں دے دیتا ہے۔
یا مالک اپنا دل خوش کرنے کے لیے یا غلام کی خدمت پر خوش ہو کر اس کی حوصلہ افزائی کے لیے کوئی زیور پہنا دیتا ہے تو یہ مال مالک ہی کا رہتا ہے، جب غلام بیچا جائے گا تو یہ مال ساتھ نہیں جائے گا۔

(2)
اگر خریدار وضاحت کرے کہ میں مال سمیت غلام خرید رہا ہوں یا پھل سمیت درخت خرید رہا ہوں تو ظاہر ہے قیمت میں اس لحاظ سے اضافہ ہو جائے گا۔
اس صورت میں شرط کے مطابق مال یا پھل خریدار کا ہوگا۔

(3)
خرید و فروخت کے دوران میں ان معاملات کی وضاحت ہو جانی ضروری ہے جن کی وجہ سے بعد میں اختلافات اور جھگڑے پیدا ہو سکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2211   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2212  
´قلم کئے ہوئے کھجور کے درخت کو بیچنے یا مالدار غلام کو بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی کھجور کا درخت بیچے، اور کوئی غلام بیچے تو وہ ان دونوں کو اکٹھا بیچ سکتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2212]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
یہ حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ (بن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما)
نے بھی روایت کی ہے، اور حضرت نافع رحمۃ اللہ علیہ نے بھی۔
سالم نے حدیث الگ الگ دو جملوں کی صورت میں بیان کی ہے۔

جس نے کھجور کے» ‏‏‏‏رخت بیچے۔
۔
۔
۔
الخ 2۔
جس نے کوئی غلام بیچا۔
۔
۔
الخ، جب کہ حضرت نافع نے ایک جملے کی صورت میں حدیث بیان کی، یعنی یوں فرمایا:
جس نے کھجور کے درخت بیچے اور غلام بیچا (تو ان کا پھل اور اس کا مال بیچنے والے کا ہے۔
)

دیکھیے: (انجاح الحاجه حاشيه، سنن ابن ماجه، از عبد الغني دهلوي رحمة الله عليه)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2212   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1244  
´پیوند کاری کے بعد کھجور کے درخت کو بیچنے کا اور ایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے «تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تأبیر:
پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں،
اس کی صورت یہ ہے کہ نرکھجورکا گابھا لے کرمادہ کھجورکے خوشے میں رکھ دیتے ہیں،
جب وہ گابھا کھلتااورپھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتاہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کا ری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہوگا اور وہ خریدارکا ہوگا،
جمہورکی یہی رائے ہے،
جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے،
اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدارکا حق ہے،
مگریہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:625  
625-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ جو شخص کسی غلام کو فروخت کرے اور اس غلام کے پاس مال موجود ہو، تواس غلام کا مال اس شخص کی ملکیت ہوگا۔ جس نے اسے فروخت کیا ہے۔البتہ اگر خریداراس کی شرط عائد کر دیتا ہے، تو حکم مختلف ہوگا۔اور جو شخص پیوندکاری ہوجانے کے بعد کھجور کا باغ فروخت کرے تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کی ملکیت ہوگا۔ البتہ اگر خریدار نے اس کی شرط عائد کی ہو (تو حکم مختلف ہوگا) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:625]
فائدہ:
اس حدیث میں بیع کا ایک اہم اصول بیان ہوا ہے کہ مالک نے غلام فروخت کیا اور غلام کے پاس اپنی کچھ رقم تھی، یہ رقم اصل مالک کے پاس رہے گی، یا خریدنے والا اس رقم کا مالک ہوگا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس کا مالک خریدنے والا ہے الا یہ کہ بیچنے والا غلام بیچتے وقت شرط لگا لیتا ہے کہ میں صرف غلام فروخت کر رہا ہوں اور جو اس کے پاس رقم ہے، وہ میری ہی ہوگی، اگر وہ شرط لگا لیتا ہے تب وہ رقم اصل مالک کے پاس رہے گی۔
اسی طرح اگر کوئی انسان اپنا باغ (کھجوروں کا ہو یا کسی اور پھل کا) فروخت کرنے لگے، اور اس باغ کا پھل پکنے کے قریب ہو، تو یہ پھل باغ خریدنے والے کا ہوگا، الا یہ کہ بیچنے والا پہلے یہ شرط لگائے کہ یہ پھل میرا ہو گا، اگر شرط لگا لے تو یہ درست ہے۔ اسلام نے انسانوں کولڑائی جھگڑے سے بچانے کی خاطر کس قدر انصاف پر مبنی قوانین بنائے ہیں، افسوس کہ پھر بھی مسلمان ان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 625   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3901  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پیوند کردہ کھجور کا درخت فروخت کیا، تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے اِلا یہ کہ خریدار پھل لینے کی شرط لگا لے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3901]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
تابير:
درخت یا کھیتی کو درست اور بار آور کرنا۔
تابیر کا معنی عام طور پر پیوندکاری کیا جاتا ہے جس سے ذہن عام پودوں کی پیوندکاری کی طرف منتقل ہو جاتا ہے،
جب کہ تابیر قلم یا شگوفہ لگانے کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کھجور کے نر اور مادہ درخت الگ الگ بنائے ہیں۔
نر کا بور مادہ کے بور سے ہوا یا کیڑوں مکوڑوں کے ذریعے ملتا ہے تو وہ حاملہ ہو جاتا ہے اور پھل بن جاتا ہے،
اگر یہ عمل بالکل نہ ہو تو مادہ کے پھول بار آور نہیں ہوتے،
اگر کم بور پہنچے تو کم پھل لگتا ہے،
اس لیے عرب کے لوگ نر اور مادہ درختوں پر پھل کا گابھہ نکلنے کے ساتھ نر کے گابھے کا بور لے کر مادہ کے گابھے کا غلاف چاک کر کے اس میں چھڑک دیتے تھے جس سے عمل تلقیح مکمل ہو کر پھل زیادہ اور موٹا لگتا تھا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے:
اگر تابیر کےبعد پھل دار درخت فروخت کیا جائے تو اس کا پھل مالک کا ہے الا یہ کہ خریدار خریدتے وقت پھل لینے کی شرط لگالے۔
اس پر تقریباً تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔
اگر تابیر نہیں کی،
تو جمہور کے نزدیک وہ پھل خریدار کا ہو گا۔
الا یہ کہ بائع خود رکھنے کی شرط لگالے۔
لیکن امام ابو حنیفہ اور امام اوزاعی کے نزدیک پھل ہر صورت میں بائع کا ہوگا۔
الا یہ کہ مشتری شرط لگا لے۔
اگر بعض درخت تابیر شدہ ہوں اور بعض کو تابیر نہ کیا گیا ہو،
تو شوافع کے نزدیک سارا پھل بائع کا ہوگا اور احمد کے نزدیک تابیر شدہ درخت کا پھل بائع کا اورغیر تابیر شدہ درخت کا پھل مشتری کا ہوگا۔
اور امام مالک کے نزدیک اغلب اور اکثر کے مطابق فیصلہ ہو گا۔
اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا جو شرط،
عقد کے منافی نہیں ہے۔
وہ شرط لگائی جا سکتی ہےوہ نهي عن بيع و شرط کے منافی نہیں ہے۔
علامہ تقی عثمانی نے تسلیم کیا ہے۔
إن الشرط إذا لم يكن مخالفا لمقتضي العقد لا يفسد به البيع اگر شرط،
عقد کے تقاضاکے منافی نہیں ہے تو وہ بیع پر اثر انداز نہیں ہو گی۔
(تکملة،
ج:
ا،
ص: 425)

اس لیے اگر سواری کے جانور پر فوری سواری کی ضرورت نہیں ہے تو سواری کا مالک،
اس پر کچھ مسافت سوار رہنے کی شرط لگا سکتا ہے۔
اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سوار رہنے کی شرط لگانے کی اجازت دی تھی تو اس کی تاویل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
کیونکہ حضورکے پاس سواری موجود تھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جابر کے اونٹ پر سوار ہونے کی ضرورت نہ تھی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2204  
2204. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ اگر کوئی پیوند کیا ہوا درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بائع ہی کو ملے گا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2204]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں لفظ غلام بھی آیا ہے۔
جس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی شخص اپنا غلام بیچے تو اس وقت جتنا مال غلام کے پاس ہے وہ اصل مالک ہی کا سمجھا جائے گا اورخریدنے والے کو صرف خالی غلام ملے گا۔
ہاں اگر خریدار یہ شرط کر لے کہ میں غلام کو اس کے جملہ املاک سمیت خریدتا ہوں تو پھر جملہ املاک خریدار کے ہوں گے۔
یہی حال پیوندی باغ کا ہے۔
یہ آپس کی معاملہ داری پر موقوف ہے۔
ارض مزروعہ کی بیع کے لیے بھی یہی اصول ہے۔
حافظ فرماتے ہیں:
و هذا کله عند إطلاق بیع النخل من غیر تعرض للثمرة فإن شرطھا المشتري بأن قال اشتریت النخل بثمرتها کانت للمشتري و إن شرطها البائع لنفسه قبل التأبیر کانت له۔
یعنی یہ معاملہ خریدار پر موقف ہے اگر اس نے پھلوں سمیت کی شرط پر سودا کیا ہے تو پھل اسے ملیں گے اور اگر بائع نے اپنے لیے ان پھلوں کی شرط لگا دی ہے تو بائع کا حق ہوگا۔
اس حدیث سے پھلوں کا پیوندی بنانا بھی جائز ثابت ہوا جس میں ماہرین فن نر درختوں کی شاخ کاٹ کر مادہ درخت کی شاخ کے ساتھ باندھ دیتے ہیں اور قدرت خداوندی سے وہ ہر دو شاخیں مل جاتی ہیں۔
پھر وہ پیوندی درخت بکثرت پھل دینے لگ جاتا ہے۔
آج کل اس فن نے بہت کافی ترقی کی ہے اور اب تجربات جدیدہ نے نہ صرف درختوں بلکہ غلہ جات تک کے پودوں میں اس عمل سے کامیابی حاصل کی ہے حتی کہ اعضائے حیوانات پر یہ تجربات کئے جارہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2204   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2206  
2206. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کھجور کو پیوند کرے، پھر اسے فروخت کردے تو اس کا پھل اسی کاہوگا جس نے اسے پیوند کیا مگر یہ کہ خریدار اس پھل کی شرط کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2206]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ یہاں بھی معاملہ خریدار پر موقوف ہے۔
اگر اس نے کوئی شرط لگا کر وہ بیع کی ہے تو وہ شرط نافذ ہوگی اور اگر بغیر شرط سودا ہوا ہے تو اس موسم کا پھل پہلے مالک ہی کا ہوگا۔
جس نے ان درختوں کو پیوندی کیا ہے۔
حدیث سے درخت کا اصل جڑ سمیت بیجنا ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2206   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2716  
2716. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص کھجور کا پیوند شدہ درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے۔ ہاں اگر خریدار پھل کی شرط لگادے تو پھل سمیت درخت اس کا ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2716]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ بیع و شراءمیں ایسی مناسب شرطوں کا لگانا جائز ہے۔
پھر معاملہ شرطوں کے ساتھ ہی طے سمجھا جائے گا۔
پیوند کاری کے بعد اگر خریدنے والا اسی سال کے پھل کی شرط لگالے، تو پھل اس کا ہوگا، ورنہ مالک ہی کا رہے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2716   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2204  
2204. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ اگر کوئی پیوند کیا ہوا درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بائع ہی کو ملے گا الا یہ کہ خریدار اس کی شرط کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2204]
حدیث حاشیہ:
(1)
شریعت کا منشا یہ ہے کہ لین دین کے معاملات میں فریقین کا آپس میں تفصیلات طے کرنا اور دونوں طرف سے ان کا برضا ورغبت قبول کرنا ضروری ہے تاکہ آئندہ چل کر کوئی جھگڑا اور فساد نہ ہو۔
اگر خریدار نے شرط لگادی تو جھگڑا ہی ختم ہوگیا،اگر شرط نہیں لگائی تو پھل وغیرہ بائع کا ہوگا۔
الغرض معاملہ معروف دستور کے مطابق ہوگا اور جس جگہ جو طریقہ رائج ہوگا اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔
امام ابو حنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ پیوند لگائے یا نہ لگائے دونوں صورتوں میں پھل بیچنے والے کا ہے۔
والله أعلم. (2)
پیوند کاری یہ ہے کہ مادہ کھجور کے خوشے میں نر کھجور کا خوشہ رکھ دیا جاتا ہے۔
اس پیوند کاری سے پھل زیادہ آتا ہے۔
بعض اوقات ہوا کے ذریعے سے بار آوری خود بخود عمل میں آجاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2204   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2206  
2206. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کھجور کو پیوند کرے، پھر اسے فروخت کردے تو اس کا پھل اسی کاہوگا جس نے اسے پیوند کیا مگر یہ کہ خریدار اس پھل کی شرط کرلے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2206]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تنے کو پھل سمیت فروخت کرنا جائز ہے۔
اس صورت میں معاملہ خریدار پر موقوف ہوگا۔
اگر اس نے درخت خریدتے وقت شرط لگادی کہ پھل سمیت لے رہا ہوں تو وہ شرط نافذ ہوگی اور اگر شرط کے بغیر سودا ہوا ہے تو موجودہ پھل پہلے مالک کا ہوگا، لیکن ہمارے ہاں رواج ہے کہ اگر آم کا باغ فروخت ہوا ہے تو جو کچھ بھی ہوگا وہ خریدار کا ہوگا، یعنی معاشرتی طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ فروخت ہوا ہے وہ خریدار کا ہے۔
(2)
بہرحال جھگڑے کی صورت میں حدیث کے مطابق فیصلہ ہوگا کہ اگر درخت فروخت ہوئے اور کسی قسم کی شرط نہیں لگائی گئی تو درختوں کا پھل فروخت کرنے والے کا ہے ہاں، اگر خریدار نے شرط لگادی تو پھر وہی پھل کا حق دار ہوگا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2206   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2716  
2716. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص کھجور کا پیوند شدہ درخت فروخت کرے تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے۔ ہاں اگر خریدار پھل کی شرط لگادے تو پھل سمیت درخت اس کا ہو گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2716]
حدیث حاشیہ:
(1)
خرید و فروخت کرتے وقت درخت کے پھل کا ذکر نہ ہو تو اگر درخت پیوند شدہ ہے تو پھل بیچنے والے کا ہو گا۔
اگر سودا کرتے وقت خریدار پھل کی شرط کر لے تو پھر پھل وہی کاٹے گا۔
مطلب یہ ہے کہ خریدوفروخت میں ایسی مناسب شرائط لگانا جائز ہیں، پھر آئندہ اس قسم کی شرائط کا ہی اعتبار ہو گا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی نے خرید و فروخت کرتے وقت ایسی شرط لگائی جو حقیقی عقد کے منافی ہو تو وہ شرع کے بھی خلاف ہو گی۔
ایسی صورت میں حقیقی عقد کے مطابق ہی عمل کیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں جواب شرط ذکر نہیں کیا کیونکہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے صرف شرط ذکر کرنے کو کافی سمجھا گیا ہے۔
یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2203)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2716   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.