● صحيح البخاري | 4333 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لاخترت شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 2376 | أنس بن مالك | أراد النبي أن يقطع من البحرين فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني |
● صحيح البخاري | 3146 | أنس بن مالك | أعطي قريشا أتألفهم لأنهم حديث عهد بجاهلية |
● صحيح البخاري | 3778 | أنس بن مالك | أولا ترضون أن يرجع الناس بالغنائم إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● صحيح البخاري | 4334 | أنس بن مالك | قريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 4337 | أنس بن مالك | ألا ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
● صحيح البخاري | 3147 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعوا إلى رحالكم برسول الله فوالله ما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله على الحوض |
● صحيح البخاري | 4332 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● صحيح البخاري | 4331 | أنس بن مالك | أعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وتذهبون بالنبي إلى رحالكم فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا |
● صحيح مسلم | 2440 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار |
● صحيح مسلم | 2436 | أنس بن مالك | أفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله إني على الحوض |
● صحيح مسلم | 2441 | أنس بن مالك | أما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى يا رسول الله رضينا لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار |
● جامع الترمذي | 3901 | أنس بن مالك | قريشا حديث عهدهم بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم |
● مسندالحميدي | 1229 | أنس بن مالك | إنكم سترون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني |
● مسندالحميدي | 1235 | أنس بن مالك | لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار، الأنصار كرشي، وعيبتي، فأحسنوا إلى محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم |
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1229
1229- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ انصاریوں کو بلایا، تاکہ انہیں بحرین میں کچھ قطعۂ اراضی عطا کریں، تو انہوں نے عرض کی: ہم یہ اس وقت تک نہیں لیں گے، جب تک ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اس کی مانند قطعۂ اراضی عطا نہیں کریں گے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے بعد تم لوگ ترجیحی سلوک دیکھو گے، تو تم صبر سے کام لینا یہاں تک تم مجھ سے آملو۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1229]
فائدہ:
اس حدیث میں ﴿يُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾ ”اور وہ اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت بھی ہو“ (الحشر: 9) کی عملی تفسیر ہے، سبحان اللہ۔
نیز اس حدیث مبارکہ میں یہ بھی ہے کہ حق والے پر دوسرے کو ترجیح دینا غلط ہے، تاریخ بھری پڑی ہے کہ لوگ کس قدر نا انصافیوں سے کام لیتے ہیں، موجودہ دور بھی فتنوں سے لبریز ہے، اور ہر کوئی نااہل کو اہل پر ترجیح دیتا ہے (الا مـن رحـــم ربـی) کیونکہ قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے نہیں کیے جاتے، بلکہ اپنے مفاد کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہر صورت حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی اصلاح فرمائے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1227
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1235
1235- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اگر لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار ایک گھاٹی میں چلیں، تو میں انصار کی گھاٹی میں چلوں گا اگر ہجرت نہ ہوتی، تو میں انصار کا ایک فرد ہوتا، انصار میرے دست و بازو ہیں، تو ان میں سے جو شخص اچھا ہو، اس کے ساتھ تم اچھائی کرو اور جو شخص برا ہوا س سے تم درگزر کرو۔“ ابن جدعان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے۔ حسن نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔ ”البتہ حد کا حکم مختلف ہے ”(وہ برے شخص پر جاری کی جائے گی)“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1235]
فائدہ:
اس حدیث میں انصار کی فضیلت کا بیان ہے، اور محسن کے احسان کو یاد رکھنا چاہیے، انصار صحابہ رضی اللہ عنہم کی قربانیاں اسلام کی خاطر کس قدر زیادہ ہیں، اگر ان کا احاطہ کیا جائے تو ایک مستقل تاریخ مرتب ہوسکتی ہے، نیز اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے سے روکا گیا ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1233
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:
حضرت انس ؓ کا اشارہ غالباً سردار انصار حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی طرف ہے، جنہوں نے وفات نبوی کے بعد منا أمیر ومنکم أمیر کی آواز اٹھائی تھی مگر جمہور انصار نے اس سے موافقت نہیں کی اور خلفائے قریش کو تسلیم کر لیا۔
رضي اللہ عنهم ورضو اعنه۔
سند میں حضرت ہشام بن عروہ کا نام آیا ہے۔
یہ مدینہ کے مشہور تابعین میں سے ہیں جن کا شمار اکابر علماء میں ہوتا ہے۔
سنہ61ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ146ھ میں بمقام بغداد انتقال ہوا۔
امام زہری بھی مدینہ کے مشہور جلیل القدر تابعی ہیں۔
زہری بن کلاب کی طرف منسوب ہیں کنیت ابو بکر نام محمد بن عبد اللہ بن شہاب ہے، وقت کے بہت بڑے عالم باللہ تھے۔
ماہ رمضان سنہ124ھ میں وفات پائی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4331
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
حضرت سلیمان بن حرب بصری مکہ کے قاضی ہیں۔
تقریباً دس ہزار احا دیث ان سے مروی ہیں۔
بغداد میں ان کی مجلس درس میں شرکاء درس کی تعداد چالیس ہزار ہوتی تھی۔
سنہ140ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ158ھ تک طلب حدیث میں سر گرداں رہے۔
انیس سال حماد بن زید نامی استاد کی خد مت میں گذارے۔
سنہ224ھ میں ان کا انتقال ہوا۔
حضرت امام بخاری ؒ کے بزرگ ترین استاذ ہیں، رحمهم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4332
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: ”اے انصار کی جماعت!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ”تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟“ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت ﷺ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4333
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی رویت میں ہے کہ آپ نے حضرت عباس ؓ سے فرمایا شجرہ رضوان والوں کو آواز دو۔
ان کی آ واز بلند تھی۔
انہوں نے پکارا اے شجرہ رضوان والو! تم کہاں چلے گئے ہو، ان کی پکار سنتے ہی یہ لوگ ایسے لپکے جیسے گائیں شفقت سے اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4337
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ ﷺ نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔
ان لوگوں کے نام یہ تھے۔
ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم ﷺ نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔
اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔
ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ (حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص: 445)
یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3147
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے معذرت کی کہ کچھ نوجوان کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں، آپ کا ارشاد سن کر انصار نے بالاتفاق کہا کہ ہم سب اس فضیلت پر خوش ہیں، نالہ یا گھاٹی کا مطلب یہ کہ سفر اور حضر موت اور زندگی میں ہرحال میں تمہارے ساتھ ہوں، کیا یہ شرف انصار کو کافی نہیں ہے؟
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3778
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3146
3146. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”میں قریش کو ان کی تالیف قلبی کے لیے دیتا ہوں کیونکہ ان کی جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3146]
حدیث حاشیہ:
اہل مکہ یعنی قریش فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے۔
ان کی تالیف قلب کے لیے آپ نے انھیں عطیات دیے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مال غنیمت اور خمس امام وقت کی صوابدید پر موقوف ہے وہ جہاں مناسب خیال کرے تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کوعطیات دیتے وقت اپنے اختیارات استعمال کیے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3146
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3147
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: ”یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
1۔
جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺنے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔
ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔
ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔
2۔
رسول اللہ ﷺ کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3147
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3778
3778. ابو تیاح سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت انس ؓ سے سنا، وہ فرما رہے تھے: فتح مکہ کے دن رسول اللہ نے قریش کو غنیمت کا سارا مال دے دیا تو انصار نے کہا: اللہ کی قسم! یقینا یہ عجیب بات ہے کہ ابھی ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے کہ ہمارا مال غنیمت انہی کو دیا جا رہا ہے۔ جب یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا: ”اس خبر کی کیا حقیقت ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟“ وہ (انصار) جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ انہوں نے کہا: آپ کو صحیح اطلاع ملی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ لوگ تو اپنے گھروں کو مالِ غنیمت لے کر جائیں اور تم لوگ رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لیے اپنے گھروں کو جاؤ؟ اگر انصار کسی میدان یا نشیبی علاقے میں چلیں تو میں بھی انصار کے ساتھ اس میدان یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3778]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ انصار میں سے سمجھ دار لوگوں نے رسول اللہ ﷺسے بایں الفاظ میں معذرت کی کہ ہمارے سرداروں نے تو یہ بات نہیں کی البتہ کچھ نوجوان اور کم عقل لوگوں نے ایسی باتیں ضرور کی ہیں پھر انھوں نے بالا تفاق اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ہم اس اعزاز اور فضیلت پر دل کی گہرائیوں سے خوش ہیں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4331)
2۔
میدان یا گھاٹی میں چلنے کا مطلب یہ ہے کہ میں سفر و حضر اور موت و حیات میں تمھارے ساتھ رہوں گا۔
کیا یہ اعزاز انصار کے لیے کافی نہیں؟ چنانچہ انھوں نے اس پر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔
اس سے ان کی پیروی کرنا مقصود نہیں کیونکہ آپ ہی واجب اطاعت ہیں ہر مرد و عورت پر آپ کی پیروی فرض ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3778
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4331
4331. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے اموال بطور انعام عطا فرمائے تو انصار کے کچھ لوگوں کو رنج ہوا کیونکہ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو سو، سو اونٹ دینا شروع کر دیے۔ انصار نے کہا: اللہ تعالٰی رسول اللہ ﷺ کو معاف فرمائے، آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے، حالانکہ ابھی ہماری تلواروں سے ان کا خون ٹپک رہا ہے؟ حضرت انس نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کو ان کی گفتگو بیان کی گئی تو آپ نے انصار کی طرف پیغام بھیج کر چمڑے کے ایک خیمے میں انہیں جمع کیا۔ آپ نے ان کے ہمراہ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہاری جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے کیا وہ صحیح ہے؟“ انصار کے جو سمجھدار لوگ تھے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو لوگ ہمارے معزز اور سردار ہیں، انہوں نے تو کوئی ایسی بات نہیں کی، البتہ ہمارے کچھ نو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4331]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہوازن کے مال میں سے ابوسفیان بن حرب کو سواونٹ دیے، اسی طرح صفوان بن امیہ، عیینہ بن حصن، مالک بن عوف، اقرع بن حابس، علقمہ بن علاثہ اور عباس بن مرداس کو سو، سواونٹ دیے، اس پر انصار کے کچھ لوگ غمزدہ ہوئے اور انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق قریش نوازی کی باتیں کیں۔
حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے یہ باتیں رسول اللہ ﷺ کوپہنچائیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ان کے متعلق تیرے جذبات کیاہیں؟“ عرض کی:
میں بھی تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہوں۔
پھر رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا:
”تمام انصار کو اس چمڑے کے خیمے میں جمع کرو۔
“ آپ نے انھیں وعظ فرمایا اور کہا:
”تم میرے لیے اس کپڑے کی طرح ہوجو ہروقت جسم سے لگارہتا ہے۔
“ واقعی یہ شرف قیامت تک کے لیے انصار کو حاصل ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کےشہر میں آرام فرما رہے ہیں۔
(فتح الباري: 69/8)
2۔
حدیث کے آخر میں حضرت انس ؓ نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کی تلقین کے باوجود انصار نے صبر نہیں کیا۔
شاید ان کا اشارہ کچھ انصار کے اس موقف کی طرف ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت کہا گیا تھا کہ ایک امیر تمہارا اور ایک امیر ہماراہوگا۔
مگر جمہور نے انصار نے اس موقف کو مسترد کردیا اور اس کی موافقت کےبجائے قریش کو تسلیم کرلیا۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4331
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4332
4332. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز مکہ فتح ہوا رسول اللہ ﷺ نے قریش میں اموالِ غنیمت تقسیم کیے تو انصار غضبناک ہو گئے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر جاؤ؟۔“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ہم اس پر راضی ہیں۔ آپ ﷺ نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں چلیں تو میں انصار کی وادی یا گھاٹی میں چلوں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4332]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس غنیمت سے مراد ہوازن کے مال ہیں کیونکہ فتح مکہ میں کوئی غنیمت نہیں تھی جسے تقسیم کیا جاتا۔
2۔
واقدی نے لکھاہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو بلاکرکہا:
”آؤ میں تمھیں بحرین کا علاقہ لکھ دیتا ہوں جو تمہارے لیے خاص ہوگا، اس میں اور کسی کا عمل دخل نہیں ہوگا۔
“ اور یہ علاقہ بھی بہترین، زرخیز اور شاداب تھا لیکن انصار نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عرض کی:
اللہ کے رسول ﷺ! ہمیں آپ ہی کافی ہیں، دنیا کے مال ومتاع کی ہمیں ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 64/8)
اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺ نے بھی انصار کے جوار (پڑوس)
کوپسند فرمایا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4332
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4333
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: ”اے انصار کی جماعت!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: ”تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟“ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ”اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
1۔
طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔
2۔
انصار کو رسول اللہ ﷺ نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4333
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4334
4334. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے فرمایا: ”قریش ابھی نو مسلم اور تازہ مصیبت اٹھائے ہوئے ہیں، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ مال غنیمت سے ان کی دل جوئی کروں۔ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ دوسرے لوگ تو دنیا لے کر جائیں اور تم رسول اللہ ﷺ کو ساتھ لے کر اپنے گھروں کی طرف لوٹو؟“ انہوں نے عرض کی: ہم تو اس پر راضی ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اگر دوسرے لوگ وادی کے اندر چلیں اور انصار پہاڑی راستہ منتخب کریں تو میں بھی انصار کی وادی یا گھاٹی ہی کو اختیار کروں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4334]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"انصار میرے لیے استر ہیں اور دوسرے لوگ ابرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
" پھر آپ نے انصار کے لیے دعا فرمائی:
"اے اللہ!انصار، ان کے بیٹوں اور پوتوں پر رحمت نازل فرما۔
" اس پر انصاربہت خوش ہوئے۔
یہ خطاب سن کو وہ خوشی سے اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں ترہوگئیں اور کہنے لگے:
ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ ﷺ ہوں۔
(مسند أحمد: 77/3، وفتح الباري: 65/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4334
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4337
4337. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب حنین کی لڑائی ہوئی تو ہوازن، غطفان اور ان کے علاوہ دیگر قبائل اپنے جانوروں اور اہل و عیال سمیت آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور کچھ طلقاء تھے۔ وہ آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے حتی کہ آپ اکیلے رہ گئے۔ اس دن آپ ﷺ نے دو آوازیں دیں جن میں کوئی خلط ملط نہیں تھا۔ آپ نے دائیں جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ بائیں جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”اے گروہ انصار!“ انصار نے کہا: اللہ کے رسول! آپ فکر نہ کریں، ہم حاضر ہیں۔ آپ اس وقت سفید خچر پر سوار تھے آپ نے نے نیچے اتر کر فرمایا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ بالآخر مشرکین شکست کھا گئے۔ اس دن آپ نے بہت سا مالِ غنیمت پایا اور وہ مہاجرین اور طلقاء میں تقسیم کر دیا اور انصار کو کچھ نہ دیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4337]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے عباس ؓ!اصحاب شجرہ کو آواز دو۔
" آپ بہت بلند آواز تھے۔
انھوں نے اونچی آواز سے کہا:
اصحاب ِشجرہ کہاں ہیں؟ ان کی آواز سنتے ہی بیعت کرنے والے ایسے لپکے جیسے گائیں اپنے بچوں کی طرف دوڑتی ہیں۔
سب کہنے لگے:
ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔
پھر گھمسان کا رن پڑا تو رسول اللہ ﷺ نے کنکریاں مٹھی میں لے کر کافروں کے منہ پر دے ماریں اور فرمایا:
”مجھے محمدﷺ کے رب کی قسم! کافرشکست کھا گئے ہیں۔
“ اس کے بعد کفار کو شکست سے دوچارہونا پڑا۔
(صحیح مسلم، الجھاد، حدیث: 4612(1775)
2۔
اس غزوے میں رسول اللہ ﷺ اکیلے نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آدمی تھے۔
آپ کا ارادہ ہوا کہ دشمن پرٹوٹ پڑیں، اس لیے آپ اکیلے بڑھے مگر ابوسفیان بن حارث آپ کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھے۔
انھوں نے آپ کو آگے نہ جانے دیا، حضرت عباس ؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4337