(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن ايوب، وكثير بن كثير يزيد احدهما على الآخر، عن سعيد بن جبير، قال: قال ابن عباس رضي الله عنهما، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يرحم الله ام إسماعيل لو تركت زمزم، او قال لو لم تغرف من الماء لكانت عينا معينا واقبل جرهم، فقالوا: اتاذنين ان ننزل عندك؟ قالت: نعم، ولا حق لكم في الماء، قالوا: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَكَثِيرِ بْنِ كَثِيرٍ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ أُمَّ إِسْمَاعِيلَ لَوْ تَرَكَتْ زَمْزَمَ، أَوْ قَالَ لَوْ لَمْ تَغْرِفْ مِنَ الْمَاءِ لَكَانَتْ عَيْنًا مَعِينًا وَأَقْبَلَ جُرْهُمُ، فَقَالُوا: أَتَأْذَنِينَ أَنْ نَنْزِلَ عِنْدَكِ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، وَلَا حَقَّ لَكُمْ فِي الْمَاءِ، قَالُوا: نَعَمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ایوب اور کثیر بن کثیر نے، دونوں کی روایتوں میں ایک دوسرے کی بہ نسبت کمی اور زیادتی ہے، اور ان سے سعید بن جبیر نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اسماعیل علیہ السلام کی والدہ (ہاجرہ علیہا السلام) پر اللہ رحم فرمائے کہ اگر انہوں نے زمزم کو چھوڑ دیا ہوتا، یا یوں فرمایا کہ اگر وہ زمزم سے چلو بھر بھر کر نہ لیتیں تو وہ ایک بہتا چشمہ ہوتا۔ پھر جب قبیلہ جرہم کے لوگ آئے اور (ہاجرہ علیہا السلام سے) کہا کہ آپ ہمیں اپنے پڑوس میں قیام کی اجازت دیں تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اس شرط پر کہ پانی پر ان کا کوئی حق نہ ہو گا۔ قبیلہ والوں نے یہ شرط مان لی تھی۔
Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said, "May Allah be merciful to the mother of Ishmael! If she had left the water of Zamzam (fountain) as it was, (without constructing a basin for keeping the water), (or said, "If she had not taken handfuls of its water"), it would have been a flowing stream. Jurhum (an Arab tribe) came and asked her, 'May we settle at your dwelling?' She said, 'Yes, but you have no right to possess the water.' They agreed."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2368
حدیث حاشیہ: حدیث ہذا میں حضرت ہاجرہ ؑ کے ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جب کہ وہ ابتدائی دور میں مکہ شریف میں سکونت پذیر ہوئی تھیں۔ جب کہ حضرت ابراہیم ؑ ان کو حوالہ بخدا کرکے واپس ہو چکے تھے اور وہ پانی کی تلاش میں کوہ صفا اور مروہ کا چکر کاٹ رہی تھیں۔ کہ اچانک ان کو زمزم کا چشمہ نظر آیا۔ اور وہ دوڑ کر اس کے پاس آئیں اور اس کے پانی کے ارد گرد منڈیر لگانا شروع کر دیا۔ اسی کیفیت کا یہاں بیان کیا جارہا ہے۔ مجتہد مطلق اس حدیث کو یہاں یہ مسئلہ بیان فرمانے کے لیے لائے ہیں کہ کنویں یا تالاب کا اصل مالک اگر موجود ہے تو بہرحال اس کی ملکیت کا حق اس کے لیے ثابت ہے۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ہاجرہ ؑ کے اس قول پر کہ پانی پر تمہارا (قبیلہ بنوجرہم کا) کوئی حق نہ ہوگا، اس پر آنحضرت ﷺ نے انکار نہیں فرمایا۔ خطابی نے کہا اس سے یہ نکلا کہ جنگل میں جو کوئی پانی نکالے وہ اس کا مالک بن جاتا ہے۔ اور دوسرا کوئی اس میں اس کی رضا مندی کے بغیر شریک نہیں ہوسکتا۔ ہاجرہ ؑ ایک فرعون مصر کی بیٹی تھی۔ جسے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کی بیوی حضرت سارہ ؑ کی کرامات دیکھ کر اس نے اس مبارک خاندان میں شرکت کا فخر حاصل کرنے کی غرض سے ان کے حوالہ کر دیا تھا۔ اس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2368
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2368
حدیث حاشیہ: (1) اگرچہ آب زمزم حضرت جبرئیل ؑ کی ٹھوکر سے جاری ہوا تھا، تاہم وہ ام اسماعیل ہی کا تھا۔ جرہم قبیلے کے لوگوں سے ام اسماعیل نے کہا: تم یہاں پڑاؤ کر سکتے ہو لیکن پانی پر تمہارا کوئی دعویٰ نہیں ہو گا۔ چونکہ وہ لوگ معاملے کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے ام اسماعیل کے حق کو تسلیم کر لیا۔ (2) علامہ خطابی ؒ نے کہا ہے کہ اگر کوئی جنگل میں پانی کا کنواں کھودے اور پانی نکالے تو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے، پھر دوسرا کوئی اس کی رضا مندی کے بغیر اس کنویں میں شریک نہیں ہو سکتا۔ (فتح الباري: 55/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2368