(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس، حدثنا شعبة، قال: سمعت ثابتا البناني، قال: سئل انس بن مالك رضي الله عنه،" اكنتم تكرهون الحجامة للصائم؟ قال: لا، إلا من اجل الضعف"، وزاد شبابة، حدثنا شعبة، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَكُنْتُمْ تَكْرَهُونَ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا مِنْ أَجْلِ الضَّعْفِ"، وَزَادَ شَبَابَةُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے سنا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ کیا آپ لوگ روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ نہیں البتہ کمزوری کے خیال سے (روزہ میں نہیں لگواتے تھے) شبابہ نے یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ (ایسا ہم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں (کرتے تھے)۔
Narrated Thabit Al-Bunani: Anas bin Malik was asked whether they disliked the cupping for a fasting person. He replied in the negative and said, "Only if it causes weakness."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 31, Number 161
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1940
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے ان احادیث سے پہلے حضرت رافع بن خدیج کی حدیث حضرت حسن بصری کے حوالے سے بیان کی تھی کہ پچھنے لگوانے والے اور لگانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا۔ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 774) اس کے بعد حضرت ابن عباس اور حضرت انس ؓ کی روایات بیان کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگانے میں کوئی حرج نہیں۔ ان دونوں روایات میں بظاہر تعارض ہے۔ امام بخاری ؒ کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ سینگی سے روزہ ٹوٹنے کی روایات منسوخ ہیں کیونکہ فتح مکہ کے وقت ایک شخص روزے کی حالت میں سینگی لگوا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ان دونوں کا روزہ جاتا رہا۔ “ اور ابن عباس ؓ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمائی اور یہ دس ہجری کا واقعہ ہے جبکہ مکہ آٹھ ہجری میں فتح ہوا۔ یہ ایک اصول ہے کہ بعد والی حدیث پہلے والی کے لیے ناسخ ہوتی ہے، نیز ابن عباس کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حالت احرام میں سینگی لگوائی، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ (فتح الباري: 226/4)(2) بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ سینگی لگانے اور لگوانے والے خود کو افطار کے لیے پیش کرتے ہیں، اس لیے کہ سینگی لگوانے والا جب خون چوستا ہے تو اس کے پیٹ میں خون جانے کا اندیشہ بدستور رہتا ہے اور سینگی لگوانے والا کمزوری کی وجہ سے روزہ توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حضرت انس ؓ کی حدیث میں اشارہ ملتا ہے کہ سینگی لگوانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا بلکہ اس سے کمزوری آ جاتی ہے۔ (فتح الباري: 227/4) بہرحال سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اس کی مزید تائید حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سینگی لگوانے کی اجازت دی تھی۔ (مصنف ابن أبي شیبة: 53/3) ہمیشہ رخصت، عزیمت کے بعد ہوتی ہے۔ حافظ ابن حزم ؒ نے یہی موقف اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري: 227/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1940