قال ابو عبد الله: قال إسحاق: وإن كان ناقصا فهو تمام، وقال محمد: لا يجتمعان كلاهما ناقص.قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَإِنْ كَانَ نَاقِصًا فَهُوَ تَمَامٌ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: لَا يَجْتَمِعَانِ كِلَاهُمَا نَاقِصٌ.
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اسحاق بن راہویہ نے (اس کی تشریح میں) کہا کہ اگر یہ کم بھی ہوں پھر بھی (اجر کے اعتبار سے) تیس دن کا ثواب ملتا ہے محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا (مطلب یہ ہے) کہ دونوں ایک سال میں ناقص (انتیس انتیس دن کے) نہیں ہو سکتے۔
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسحاق سے سنا، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھے مسدد نے خبر دی، ان سے معتمر نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے بیان کیا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں مہینے ناقص نہیں رہتے۔ مراد رمضان اور ذی الحجہ کے دونوں مہینے ہیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1912
حدیث حاشیہ: مراد رمضان اور ذی الحجہ کے دونوں مہینے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1912
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1912
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو دو سندوں سے بیان کیا ہے: ایک اسحاق بن سوید اور دوسری خالد حذاء کی ہے لیکن متن صرف خالد حذاء کی روایت کا بیان کیا ہے۔ اسحاق بن سوید کی روایت کو ابو نعیم نے مستخرج میں بیان کیا ہے کہ رمضان اور ذوالحجہ کا مہینہ کم نہیں ہوتا۔ چونکہ اس روایت کے مختلف الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے متن کے لیے خالد حذاء کی روایت کا انتخاب کیا ہے کیونکہ اس کے الفاظ میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگرچہ ماہ شوال عید کا مہینہ ہے لیکن اسے ماہ رمضان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ (2) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تعداد ایام کے اعتبار سے کم ہو سکتے ہیں لیکن کمال عبادت میں دونوں کا حکم ایک ہے۔ اگر کسی نے انتیس روزے رکھے تو اسے ثواب تیس روزوں ہی کا ملتا ہے۔ اس کے ثواب کے متعلق کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح وقوف عرفہ میں غلطی ہو جائے تو اس کا حج پورا ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ (فتح الباري: 161/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1912
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2323
´مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: ”عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2323]
فوائد ومسائل: اس حدیث کی شرح میں کئی اقوال ہیں۔ افادات حافظ ابن قیم رحمة اللہ علیہ کا حاصل درج ذیل ہے۔
(1) یہ دونوں مہینے ایک ہی سال میں انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے۔ امام احمد کی رائے بھی یہی ہے۔
(2) یہ بات تغلیبی ہے یعنی بالعموم نقص میں جمع نہیں ہوتے۔ اگر کبھی ہو بھی جائیں تو وہ شاذ ہے۔
(3) علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اسی سال کے لیےتھا۔
(4) یہ دونوں مہینے اجروثواب میں کم نہیں ہوتے خواہ گنتی میں انتیس دن ہی کے ہوں۔ اللہ کے ہاں اجروثواب پورا ہوتا ہے۔
(5) اس قول سے مراد عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کا بیان ہے کہ ان دنوں کے اعمال کا ثواب رمضان کے برابر ہوتا ہے۔ البتہ ان دونوں میں تقابلی طور پر یوں کہا جاتا ہے کہ آخری عشرہ رمضان اور اول عشرہ ذی الحجہ میں عشرہ رمضان کی راتوں کو فضیلت ہے، کیونکہ ان میں لیلة القدر ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان راتوں میں عبادت کا جو اہتمام فرماتے تھے، دیگر زمانے میں ایسے نہ ہوتا تھا۔ اور دنوں کے اعتبار سے عشرہ ذی الحجہ کے دن افضل ہیں کیونکہ حدیث میں قربانی والے دن کو اعظم الایام فرمایا گیا ہے۔ اور یوم عرفہ کی فضیلت بھی معلوم و معروف ہے۔
(6) چونکہ یہ مہینے اور دن اللہ کے محبوب ترین ایام ہیں اور ان میں کیے جانے والے اعمال بہت مبارک ہوتے ہیں۔ لہذا بطور ترغیب فرمایا گیا ہے کہ ان کی کمی بیشی کا خیال مت کرو بلکہ اعمال خیر میں سبقت کی کوشش کرو۔ اجر و ثواب میں ان دونوں مہینوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2323
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1659
´عید کے دونوں مہینوں کا بیان۔` ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دونوں مہینے رمضان اور ذی الحجہ کم نہیں ہوتے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1659]
اردو حاشہ: فائده: اس فرمان نبوی ﷺ کی وضاحت مختلف انداز سے کی گئی ہے۔ ایک قول کے مطابق حدیث کامطلب یہ ہے کہ مہینے انتیس کے بھی ہوں تو عظمت وثواب کے لحاظ سے بڑے ہی ہیں۔ انھیں چھوٹا نہ سمجھو۔ دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے۔ کہ ایک سال میں دونوں انتیس کے نہیں ہوتے۔ اگر ان میں سے ایک مہینہ انتیس دن کا ہوگا تو دوسرا ضرور تیس کا ہوگا۔ یہ مطلب بھی ایک حد تک صحیح ہے۔ کیونکہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلا مطلب زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ر مضان میں روزوں کی عبادت کی جاتی ہے۔ اور ذوالحجہ میں حج کی عبادت ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں اسلام کے ارکان میں سے ہیں۔ جب کہ اسلام کے دوسرے ارکان کسی خاص مہینے سے تعلق نہیں رکھتے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1659
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 692
´عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے۔` ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دونوں مہینے رمضان ۱؎ اور ذوالحجہ کم نہیں ہوتے (یعنی دونوں ۲۹ دن کے نہیں ہوتے)۔“[سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 692]
اردو حاشہ: 1؎: یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ عید تو شوال میں ہوتی ہے پھر رمضان کو شہرعید کیسے کہا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قرب کی وجہ سے کہا گیا ہے چونکہ عید رمضان ہی کی وجہ سے متحقق ہوتی ہے لہذا اس کی طرف نسبت کر دی گئی ہے۔
2؎: اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بعض اوقات دونوں انتیس (29) کے ہوتے ہیں، تو اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ عام طور سے دونوں کم نہیں ہوتے ہیں۔
3؎: اور ایسا ہوتا بھی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 692
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2532
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عید کے دو ماہ کم نہیں ہوتے“ خالد کی حدیث میں ہے۔ ”عید کے دو ماہ رمضان اور ذوالحجہ ہیں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2532]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث کا معنی بقول بعض یہ ہے کہ رمضان اور ذوالحجہ ہمیشہ تیس، تیس کے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ مفہوم واقعہ اور مشاہدہ کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے یہ معنی مراد نہیں ہو سکتا۔ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک معنی یہ ہے بیک وقت دونوں کم نہیں ہوتے اگر ایک انتیس کا ہے تو دوسرا لازماً تیس (30) کا ہو گا لیکن یہ بھی مشاہدہ اور واقعہ کے خلاف ہے دونوں مہینے ایک ہی سال انتیس انتیس کے ہو جاتے ہیں۔ صحیح بات امام اسحاق بن راہویہ کی ہے کہ مہینہ انتیس کا ہو یا تیس کا اجر وثواب کم نہیں ہوتا۔ یا یہ معنی کیا جائے ان کے احکام دونوں صورتوں میں یکساں ہیں۔ یا یہ مقصود یہ کہ عام طور پر دونوں انتیس انتیس کے نہیں ہوتے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ اور لحاظ عموم واکثر کا ہوتا ہے۔