● سنن النسائى الصغرى | 714 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● صحيح البخاري | 1612 | عبد الله بن عباس | طاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه |
● صحيح البخاري | 1613 | عبد الله بن عباس | طاف النبي بالبيت على بعير كلما أتى الركن أشار إليه بشيء كان عنده وكبر |
● صحيح البخاري | 1607 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● صحيح البخاري | 1632 | عبد الله بن عباس | طاف بالبيت وهو على بعير كلما أتى على الركن أشار إليه بشيء في يده وكبر |
● صحيح مسلم | 3073 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● جامع الترمذي | 865 | عبد الله بن عباس | طاف النبي راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه |
● سنن أبي داود | 1877 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● سنن أبي داود | 1881 | عبد الله بن عباس | طاف على راحلته كلما أتى على الركن استلم الركن بمحجن لما فرغ من طوافه أناخ صلى ركعتين |
● سنن ابن ماجه | 2948 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● سنن النسائى الصغرى | 2957 | عبد الله بن عباس | طاف في حجة الوداع على بعير يستلم الركن بمحجن |
● سنن النسائى الصغرى | 2958 | عبد الله بن عباس | يطوف بالبيت على راحلته إذا انتهى إلى الركن أشار إليه |
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1607
حدیث حاشیہ:
جمہور علماء کا یہ قول ہے کہ حجر اسود کو منہ لگا کر چومنا چاہیے۔
اگر یہ نہ ہوسکے تو ہاتھ لگاکر ہاتھ کو چوم لے، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو لکڑی لگا کر اس کو چوم لے۔
اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو جب حجر اسود کے سامنے پہنچے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرکے اس کو چوم لے۔
جب ہاتھ یا لکڑی سے دور سے اشارہ کیا جائے جو حجر اسود کو لگ نہ سکے تو اسے چومنا نہیں چاہیے۔
(رشید)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1607
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1607
حدیث حاشیہ:
(1)
حجراسود کے استلام کے متعلق سنت یہ ہے کہ اسے بوسہ دیا جائے۔
اگر بھیڑ کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو تو اسے ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لیا جائے جیسا کہ عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابو سعید خدری، ابن عمر اور جابر ؓ کو دیکھا، وہ حجراسود کو چھو کر ہاتھ چومتے تھے۔
اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حجراسود کو چھڑی وغیرہ سے چھو کر اسے چوم لیا جائے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھڑی سے حجراسود کا استلام کرتے پھر اسے چوم لیتے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3077(1275)
اگر چھڑی وغیرہ سے استلام نہ ہو سکے تو دور سے اشارہ کر دے۔
اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ وغیرہ کو چومنے کی ضرورت نہیں۔
(فتح الباري: 597/3) (2)
یہ روایت جب لیث، اسامہ بن زید اور زمعہ بن صالح نے زہری سے بیان کی تو زہری اور ابن عباس ؓ کے درمیان واسطہ حذف کر دیا۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت کی تقویت کے لیے دراوردی کی متابعت ذکر کی ہے جسے علامہ اسماعیلی نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔
اگرچہ اس متابعت میں حجۃ الوداع اور اونٹ پر سوار ہونے کے الفاظ نہیں ہیں، تاہم اصل روایت کی تائید ہو سکتی ہے۔
(فتح الباري: 596/3)
رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر اس لیے طواف کیا تاکہ لوگ آپ کے طریقہ حج کو بچشم خود دیکھ لیں اور مسائل معلوم نہ ہونے کی صورت میں آپ سے دریافت کر سکیں۔
حجۃ الوداع کے موقع پر اگر آپ سوار نہ ہوتے تو ہجوم کی وجہ سے حج کے بہت سے مسائل مخفی رہنے کا اندیشہ تھا۔
اس مقصد کے پیش نظر طواف کے لیے سواری استعمال کی۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1607
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 714
´اونٹ کو مسجد میں داخل کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر بیٹھ کر طواف کیا، آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 714]
714 ۔ اردو حاشیہ: اونٹ پر طواف کا بڑا مقصد لوگوں کو مناسک حج کی تعلیم دینا تھا تاکہ لوگ آنکھوں سے دیکھ کر حج کے طریقے جان لیں۔ آپ نے سارا حج ہی اونٹ پر کیا تھا۔ یہ طواف زیارت (10 ذوالحجہ) کی بات ہے۔ ایک ذیلی مقصد دشمنوں سے آپ کی حفاظت بھی تھا۔ بعض نے اسے آپ کی خصوصیت قرار دیا ہے لیکن اس خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں بلکہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو بھی اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرنے کی اجازت دی تھی۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الحج، باب من صلی رکعتي الطواف، حدیث: 1626]
لہٰذا اس سے خصوصیت کا دعویٰ مجروح ہو جاتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر طواف کسی مرض یا بھیڑ کی وجہ سے کیا تھا، لیکن یہ بھی ایک توجیہ ہی ہے، اس کی بھی کوئی بنیاد نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ضرورت کو دیکھا جائے۔ اگر کسی دور میں اس کی ضرورت محسوس ہو تو شرعاً اس کی اجازت ہے اگرچہ اس دور میں اونٹ یا کسی دوسرے حلال جانور پر طواف عقلاً محال لگتا ہے لیکن بات ضابطے اور اصول کی ہے کیونکہ اگر آج یہ نوبت نہیں آئی تو آئندہ کسی بھی وقت اس قسم کے حالات پیش آسکتے ہیں۔ جو لوگ اونٹ وغیرہ حلال جانوروں پر طواف کے قائل نہیں ہیں، دراصل اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان کے پیشاب اور گوبر کو نجس اور پلید سمجھتے ہیں، حالانکہ ایسی بات قطعاً نہیں۔ احادیث کی روشنی میں حق بات یہی ہے کہ ان کا پیشاب اور گوبر ناپاک اور پلید نہیں، ہاں! یہ الگ بات ہے کہ انسان اپنی طبعی نفاست کی وجہ سے اس سے کراہت محسوس کرتا ہے، وگرنہ اس طرح تو وہ تھوک اور بلغم وغیرہ سے بھی گھن کھاتا ہے۔ کیا ان کے لگنے سے کپڑے پلید ہو جاتے ہیں یا نیچے گرنے سے زمین نجس ہو جاتی ہے؟ ترجمۃ الباب میں امام نسائی رحمہ اللہ کا رجحان بھی یہی لگتا ہے کہ ضرورت کے پیش نظر اونٹ وغیرہ کو مسجد میں داخل کیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 714
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2957
´خم دار ڈنڈے سے حجر اسود کو چھونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ ایک خمدار چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2957]
اردو حاشہ:
پیچھے یہی حدیث حضرت عائشہؓ سے بیان ہوئی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (حدیث: 2931)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2957
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2958
´حجر اسود کی طرف اشارہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خانہ کعبہ کا طواف کر رہے تھے جب آپ کے سامنے پہنچے تو آپ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2958]
اردو حاشہ:
سابقہ حدیث میں چھڑی سے چھونے کا ذکر ہے اور اس روایت میں اشارہ فرمانے کا۔ گویا کبھی چھڑی بھی نہ پہنچ سکتی تو حجر اسود کی طرف اس کے برابر آکر اشارہ فرماتے۔ ہاتھ سے اشارہ کرے اور ساتھ تکبیر بھی کہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ آغازِ تکبیر میں بسم اللہ بھی کہتے تھے، یعنی بسم اللہ واللہ اکبر کہتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2958
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1877
´طواف واجب کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا، آپ چھڑی سے حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1877]
1877. اردو حاشیہ:
➊ اس سے مرُاد طواف قدوم ہے۔ امام صاحب ؒ کی تبویب سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آپ اسے واجب سمجھتے ہیں۔جیسے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور بعض احناف کا قول ہے (عون المعبود)
➋ صحیح حدیث میں نبی کریمﷺ سے ثابت ہے۔کہ آپ اپنے عصا سے حجراسود کو مس کر کے اس عصا کوبوسہ بھی دیتے تھے۔(صحیح مسلم۔الحج۔حدیث 1275)
➌ آپ ﷺکے سوار ہوکر طواف کرنے کی حکمت یہ تھی کے لوگ آپ کے عمل کا بخوبی مشاہدہ کرلیں۔روایات میں یہ صراحت نہیں ہے کہ کونسا طواف تھا تاہم غالبا ً یہ طواف افاضہ تھا۔(بذل المجہود)کیونکہ طواف قدوم میں آپ ﷺنے رمل کیا تھا۔جو پیدل کے سوا ممکن نہیں ہوتا اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ پالکی یا پیے والی کرسی میں بیٹھے ہوئے کو طواف کرایا جائے تو اس کا طواف صحیح ہے۔
➍ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ان کے پیشاب کے چھینٹوں سے کپڑے ناپاک نہیں ہوتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1877
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 865
´سواری پر طواف کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 865]
اردو حاشہ:
1؎:
سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔
2؎:
یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 865
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1613
1613. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو آپ کے پاس جو چیز ہوتی اس سے اشارہ کرتے۔ اور اللہ أکبر کہتے۔ ابراہیم بن طہمان نے خالد الخداء سے روایت کرنے میں خالد بن عبد اللہ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1613]
حدیث حاشیہ:
یعنی چھڑی سے اشارہ کرتے۔
امام شافعی ؒ اور ہمارے امام احمد بن حنبل ؒ نے یہی کہا کہ طواف شروع کرتے وقت جب حجر اسود چومے تو یہ کہے:
بِسمِ اللَّهِ، واللَّهُ أكْبَرُ، اللَّهُمَّ إيمَاناً بِكَ وَتَصدِيقاً بِكِتابِكَ، وَوَفاءً بِعَهْدِكَ وَاتِّباعاً لِسُنَّةِ نَبِيِّكَ صلى اللّه عليه وسلم۔
امام شافعی ؒ نے ابو نجیح سے نکالا کہ صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے پوچھا حجر اسود کو چومتے وقت ہم کیا کہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہو:
بِسمِ اللَّهِ، واللَّهُ أكْبَرُ، اللَّهُمَّ إيمَاناً بِكَ وَتَصدِيقاً لإِجابة محمد صلی اللہ علیه وسلم۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1613
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1632
1632. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1632]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں گویہ ذکر نہیں ہے کہ آپ ﷺ بیمار تھے اور بظاہر ترجمہ باب سے مطابق نہیں ہے مگر امام بخاری ؒ نے ابوداؤد کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس میں صاف یہ ہے کہ آپ بیمار تھے۔
بعضوں نے کہا جب بغیر بیماری یا عذر کے سواری پر طواف درست ہوا تو بیماری میں بطریق اولیٰ درست ہوگا۔
اس طرح باب کا مطلب نکل آیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1632
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1612
1612. حضرت عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ جب آپ ﷺ حجر اسود کے سامنے آتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1612]
حدیث حاشیہ:
(1)
حجراسود کو چھونے کے متعلق چار طریقے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں:
٭ حجراسود کو بوسہ دیا جائے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔
٭ ہاتھ سے حجراسود کو چھونا پھر ہاتھ چوم لینا۔
٭ اگر دور ہو تو چھڑی کے ذریعے سے اسے چھونا پھر چھڑی چوم لینا۔
٭ دور سے ہاتھ یا چھڑی کے ذریعے سے اشارہ کرنا۔
اس صورت میں ہاتھ یا چھڑی کو نہیں چومنا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی سوار ہو کر طواف کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ دور ہی سے اشارہ کر دے، مبادا قریب آنے پر کسی کو تکلیف پہنچے۔
ہاں، اگر کسی کی تکلیف کا اندیشہ نہ ہو تو قریب آ کر حجراسود کا استلام کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 601/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1612
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1613
1613. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس آتے تو آپ کے پاس جو چیز ہوتی اس سے اشارہ کرتے۔ اور اللہ أکبر کہتے۔ ابراہیم بن طہمان نے خالد الخداء سے روایت کرنے میں خالد بن عبد اللہ کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1613]
حدیث حاشیہ:
(1)
دوسری روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چھڑی تھی، اس کے ساتھ حجراسود کو چھوتے یا اشارہ کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1607)
مذکورہ حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ رسول الله ﷺ حجراسود کے پاس آ کر اللہ أكبر کہتے تھے جبکہ دیگر روایات میں یہ اضافہ نہیں ہے۔
(2)
ابراہیم بن طہمان کی روایت میں بھی اللہ أكبر کہنے کا ذکر ہے جسے امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5293) (3)
طواف کا آغاز کرتے وقت "اللہ أکبر" کہنا مسنون ہے اور یہ ذکر ہر چکر کے آغاز میں مسنون ہے۔
(فتح الباري: 601/3) (4)
واضح رہے کہ بیت اللہ کا طواف کرتے وقت سواری کا استعمال مسنون نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے بیماری یا لوگوں کو مناسک حج دکھانے کے لیے اسے استعمال کیا تھا۔
اس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1613
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1632
1632. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔ آپ جب بھی حجر اسود کے پاس سے گزرتے، اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی کسی چیز سے اس کی طرف اشارہ کرتے اور اللہ أکبر کہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1632]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔
آپ طواف کرتے وقت جب حجراسود کے پاس سے گزرتے تو چھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرتے۔
بعض روایات میں اس کی صراحت ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوار ہو کر طواف کرنے میں کوئی ممانعت نہیں بشرطیکہ کوئی عذر ہو۔
(3)
امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام ابوداود نے بیان کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ کی طبیعت ناساز تھی۔
اس بنا پر آپ نے اونٹ پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1881)
اس سے معلوم ہوا بیت اللہ کا بحالت سواری طواف کرنا مسنون عمل نہیں بلکہ ایک مجبوری کے پیش نظر ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔
واضح رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مسجد حرام کی چار دیواری نہیں تھی۔
آج کل کسی سواری کو داخل کرنا ممکن نہیں۔
ہاں آدمی کو کندھوں پر اٹھا کر طواف کرایا جا سکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس لیے بھی سواری استعمال کی تھی کہ لوگ آپ سے مناسک حج سیکھ لیں جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا تاکہ آپ کو لوگ دیکھیں اور طواف سے متعلقہ مسائل سیکھ سکیں۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3074(1273)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1632