صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
54. بَابُ خَرْصِ التَّمْرِ:
54. باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کر لینا درست ہے۔
(54) Chapter. (The lawfulness of) estimating the amount of the date-fruit while they are still on the palms for the sake of taking the Zakat.
حدیث نمبر: 1481
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سهل بن بكار، حدثنا وهيب، عن عمرو بن يحيى، عن عباس الساعدي، عن ابي حميد الساعدي، قال:" غزونا مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة تبوك، فلما جاء وادي القرى إذا امراة في حديقة لها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لاصحابه: اخرصوا، وخرص رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة اوسق، فقال لها: احصي ما يخرج منها، فلما اتينا تبوك، قال: اما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد، ومن كان معه بعير فليعقله، فعقلناها، وهبت ريح شديدة، فقام رجل فالقته بجبل طيء واهدى ملك ايلة للنبي صلى الله عليه وسلم بغلة بيضاء وكساه بردا وكتب له ببحرهم، فلما اتى وادي القرى، قال للمراة: كم جاء حديقتك؟ , قالت: عشرة اوسق خرص رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إني متعجل إلى المدينة، فمن اراد منكم ان يتعجل معي فليتعجل، فلما قال ابن بكار كلمة معناها اشرف على المدينة، قال: هذه طابة، فلما راى احدا , قال: هذا جبيل يحبنا ونحبه، الا اخبركم بخير دور الانصار؟، قالوا: بلى، قال: دور بني النجار، ثم دور بني عبد الاشهل، ثم دور بني ساعدة او دور بني الحارث بن الخزرج، وفي كل دور الانصار , يعني خيرا"، قال ابو عبد الله: كل بستان عليه حائط فهو حديقة، وما لم يكن عليه حائط لم يقل حديقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ، فَلَمَّا جَاءَ وَادِيَ الْقُرَى إِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: اخْرُصُوا، وَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ، فَقَالَ لَهَا: أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا، فَلَمَّا أَتَيْنَا تَبُوكَ، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ، فَعَقَلْنَاهَا، وَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ، فَقَامَ رَجُلٌ فَأَلْقَتْهُ بِجَبَلِ طَيِّءٍ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ وَكَسَاهُ بُرْدًا وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ، فَلَمَّا أَتَى وَادِيَ الْقُرَى، قَالَ لِلْمَرْأَةِ: كَمْ جَاءَ حَدِيقَتُكِ؟ , قَالَتْ: عَشَرَةَ أَوْسُقٍ خَرْصَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ، فَلَمَّا قَالَ ابْنُ بَكَّارٍ كَلِمَةً مَعْنَاهَا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ، فَلَمَّا رَأَى أُحُدًا , قَالَ: هَذَا جُبَيْلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ؟، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: دُورُ بَنِي النَّجَّارِ، ثُمَّ دُورُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ثُمَّ دُورُ بَنِي سَاعِدَةَ أَوْ دُورُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ , يَعْنِي خَيْرًا"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: كُلُّ بُسْتَانٍ عَلَيْهِ حَائِطٌ فَهُوَ حَدِيقَةٌ، وَمَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ حَائِطٌ لَمْ يُقَلْ حَدِيقَةٌ.
ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمرو بن یحییٰ نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم غزوہ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وادی قریٰ (مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ (کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم (یوحنا بن روبہ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری طور پر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا پھر جب وادی قریٰ (واپسی میں) پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میں کتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب (ابن بکار امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کا یا (یہ فرمایا کہ) بنی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابوعبداللہ (قاسم بن سلام) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہو اسے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Humaid As-Sa`idi: We took part in the holy battle of Tabuk in the company of the Prophet and when we arrived at the Wadi-al-Qura, there was a woman in her garden. The Prophet asked his companions to estimate the amount of the fruits in the garden, and Allah's Apostle estimated it at ten Awsuq (One Wasaq = 60 Sa's) and 1 Sa'= 3 kg. approximately). The Prophet said to that lady, "Check what your garden will yield." When we reached Tabuk, the Prophet said, "There will be a strong wind tonight and so no one should stand and whoever has a camel, should fasten it." So we fastened our camels. A strong wind blew at night and a man stood up and he was blown away to a mountain called Taiy, The King of Aila sent a white mule and a sheet for wearing to the Prophet as a present, and wrote to the Prophet that his people would stay in their place (and will pay Jizya taxation.) (1) When the Prophet reached Wadi-al- Qura he asked that woman how much her garden had yielded. She said, "Ten Awsuq," and that was what Allah's Apostle had estimated. Then the Prophet said, "I want to reach Medina quickly, and whoever among you wants to accompany me, should hurry up." The sub-narrator Ibn Bakkar said something which meant: When the Prophet (p.b.u.h) saw Medina he said, "This is Taba." And when he saw the mountain of Uhud, he said, "This mountain loves us and we love it. Shall I tell you of the best amongst the Ansar?" They replied in the affirmative. He said, "The family of Bani-n-Najjar, and then the family of Bani Sa`ida or Bani Al-Harith bin Al-Khazraj. (The above-mentioned are the best) but there is goodness in all the families of Ansar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 559


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4422منذر بن سعدهذه طابة وهذا أحد جبل يحبنا ونحبه
   صحيح البخاري1872منذر بن سعدأقبلنا مع النبي من تبوك حتى أشرفنا على المدينة فقال هذه طابة
   صحيح مسلم3371منذر بن سعدهذه طابة وهذا أحد وهو جبل يحبنا ونحبه
   صحيح مسلم5948منذر بن سعدستهب عليكم الليلة ريح شديدة فلا يقم فيها أحد منكم فمن كان له بعير فليشد عقاله فهبت ريح شديدة فقام رجل فحملته الريح حتى ألقته بجبلي طيئ وجاء رسول ابن العلماء صاحب أيلة إلى رسول الله بكتاب وأهدى له بغلة بيضاء فكتب إليه رسول الله وأهدى له بردا ثم أقبلنا حتى
   سنن أبي داود3079منذر بن سعداخرصوا فخرص رسول الله عشرة أوسق فقال للمرأة أحصي ما يخرج منها فأتينا تبوك فأهدى ملك أيلة إلى رسول الله بغلة بيضاء وكساه بردة وكتب له يعني ببحره قال فلما أتينا وادي القرى قال للمرأة كم كان في حديقتك قالت عشرة أوسق خرص رسول الله فقال رسول الله إني متعجل إلى
   صحيح البخاري1481منذر بن سعداما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1481 کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1481  
فقہ الحدیث:
غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا:
«اما إنها ستهب الليلة ريح شديدة فلا يقومن احد، ومن كان معه بعير فليعقله»
آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔
↰ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جا بجا اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ علم غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے، اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا!
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 71، حدیث/صفحہ نمبر: 5   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3079  
´بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بیان۔`
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تبوک (جہاد کے لیے) چلا، جب آپ وادی قری میں پہنچے تو وہاں ایک عورت کو اس کے باغ میں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: تخمینہ لگاؤ (کہ باغ میں کتنے پھل ہوں گے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق ۱؎ کا تخمینہ لگایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت سے کہا: آپ اس سے جو پھل نکلے اس کو ناپ لینا، پھر ہم تبوک آئے تو ایلہ ۲؎ کے بادشاہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سفید رنگ کا ایک خچر تحفہ میں بھیجا آپ نے اسے ایک چادر تحفہ میں دی اور اسے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3079]
فوائد ومسائل:

اس خاتون کا یہ باغ غالباً کسی بنجر زمین کو آباد کرکے ہی لگایا گیا تھا۔
جو اس کی ملکیت سمجھا گیا۔
اور یہ ایک قابل قدر کام ہے۔
حاکم ایلہ نے اطاعت قبول کرلی تھی۔
اس لئے آپ نے حاکم ایلہ کو اس کا علاقہ لکھ دیا اور یہ بھی کہ وہ جزیہ ادا کریں گے۔


پھل اترنے سے پہلے اس کا اندازہ لگانا جائز ہے۔
تا کہ اس کے مطابق عشر وغیرہ ادا کیا جا سکے۔


رسول اللہ ﷺ کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا۔
جو کہ معجزہ ہے۔
دیگر عام اندازہ لگانے والوں کا اندازہ یقینا کم یا زیادہ ہوتا ہے۔


غیر مسلم کا ہدیہ قبول کرلینا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔


سفر میں اپنا مقصد پورا کرلینے کے بعد گھر آنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3079   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5948  
حضرت ابوحمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو ہم وادی القریٰ میں ایک عورت کے باغیچے پر پہنچے، سورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باغ کے پھل کا اندازہ لگاؤ۔ ہم نے اس کا اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اندازہ دس وسق لگایا اور آپ نے فرمایا: اے عورت! اس کے پھل کویاد رکھنا، حتیٰ کہ ان شاء اللہ ہم تیرے پاس لوٹ آئیں۔ ہم چل پڑے حتیٰ کہ تبوک پہنچ گئے تو رسول اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5948]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وادي القُري:
یہ ایک پرانا شہر ہے جو مدینہ اور شام کے درمیان واقع ہے۔
(2)
اُخرصوها:
(اس باغ کے)
پھل کا اندازہ لگاؤ،
کتنا ہو گا۔
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر تبوک میں جن چیزوں کو نشاندہی فرمائی تھی،
ان کا ظہور اسی طرح ہوا،
چشمہ تبوک کا واقعہ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے،
اس حدیث میں،
باغ کی کھجوروں کی مقدار کا تذکرہ ہے اور اس بات کا کہ آپ نے ساتھیوں کی ہمدردی اور خیرخواہی کے پیش نظر،
ان پر شفقت کا اظہار کرتے ہوئے،
ان کو ایک احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا حکم دیا کہ رات کو سخت آندھی چلے گی،
اس لیے اس میں کوئی اکیلا آدمی نہ اٹھے اور اپنے اونٹوں کے زانو بند مضبوط طریقے سے باندھ لینا،
لیکن دو آدمی مجبوری کی بنا پر اس کی پابندی نہ کر سکے،
ایک قضائے حاجت کے لیے اٹھا تو اس کا اس اثنا میں گلہ گھونٹ دیا گیا،
دوسرا آدمی اپنے اونٹ کی تلاش میں نکلا تو آندھی نے اس کو بنوطی کے دو مشہور پہاڑوں میں پھینک دیا،
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپﷺ نے فرمایا:
کیا میں نے تمہیں اکیلے نکلنے سے منع نہیں کیا تھا؟ پھر آپﷺ کی دعا سے گلا گھٹنے والے کو تندرستی حاصل ہو گئی اور دوسرا جب آپ مدینہ واپس آ گئے تو آپ سے آ ملا اور آپ نے انصاری گھرانوں کی فضیلت ان کی اسلام لانے میں سبقت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ان کی محنت و کوشش کی بنیاد پر بیان کی،
جو پہلے مسلمان ہوئے اور اسلامی خدمات میں پیش پیش رہے،
ان کو اول نمبر دیا،
اس بنیاد پر بعد والے مراتب بیان کیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5948   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1872  
1872. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تبوک سے واپس مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا:یہ طابہ، یعنی پاک مقام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1872]
حدیث حاشیہ:
طاب اور طیب دونوں مدینۃ المنورہ کے نام ہیں جو لفظ طیب سے مشتق ہیں جس کے معنی پاکیزگی کے ہیں یعنی یہ شہر ہر لحاظ سے پاکیزہ ہے۔
یہ اسلام کا مرکز ہے، یہاں پیغمبر اسلام ہادی اعظم ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
حکومت سعودیہ عربیہ أیدها اللہ تعالیٰ نے اس شہر کی صفائی و ستھرائی پاکیزگی آبادکاری میں وہ خدمت انجام دی ہیں جو رہتی دنیا تک یادگار عالم رہیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1872   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1872  
1872. حضرت ابو حمید ساعدی ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تبوک سے واپس مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا:یہ طابہ، یعنی پاک مقام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1872]
حدیث حاشیہ:
(1)
مدینہ طیبہ کے کئی ایک نام ہیں جو اس کے شرف و منزلت پر دلالت کرتے ہیں:
طابہ اور طیبہ، ان کا اشتقاق ایک ہی ہے کیونکہ اسے شرک و بدعت سے پاک قرار دیا گیا اور اس کی فضا اور آب و ہوا کو خوشگوار بنا دیا گیا ہے۔
اس کے چند ایک نام حسب ذیل ہیں:
٭المدينه٭المطيبه٭المسكينه٭الدار٭مجبورة٭منيرة٭مجبة٭محبوبة ٭قاصمه٭الإيمان۔
(فتح الباري: 115/4)
دیگر کتب تاریخ میں ان کے علاوہ بہت سے نام بیان کیے گئے ہیں۔
(2)
بعض علماء نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ مدینہ طیبہ میں رہنے والا اس کی مٹی اور دیواروں سے پاکیزہ خوشبو پاتا ہے۔
ہمارے نزدیک اس کی پاکیزگی یہ ہے کہ مسجد نبوی میں رسول اللہ ﷺ کے گھر اور منبر کے درمیانی خطے کو جنت کی کیاری قرار دیا گیا ہے، اس سے بڑھ کر اور خوشگواری کیا ہو سکتی ہے؟ (عمدةالقاري: 578/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1872   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4422  
4422. حضرت ابوحمید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ غزوہ تبوک سے نبی ﷺ کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔ جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا: یہ طابہ ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4422]
حدیث حاشیہ:
طابہ، مدینہ طیبہ کا نام ہے اور اُحد پہاڑ کا محبت کرنا مبنی برحقیقت ہے۔
اللہ تعالیٰ کائنات کی ہرچیز میں قوتِ ادراک اور احساس پیدا کرنے پر قادر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
(بنی إسرائیل: 44: 17)
چونکہ اس حدیث میں غزوہ تبوک کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4422   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.