(مرفوع) حدثنا محمد بن غرير الزهري، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، عن ابيه، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عامر بن سعد، عن ابيه، قال:" اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم رهطا وانا جالس فيهم، قال: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم منهم رجلا لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقمت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساررته، فقلت: ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا , قال او مسلما؟ , قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم فيه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا , قال او مسلما؟ , قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم فيه، فقلت: يا رسول الله ما لك عن فلان، والله إني لاراه مؤمنا قال او مسلما يعني؟، فقال: إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه خشية ان يكب في النار على وجهه"، وعن ابيه، عن صالح، عن إسماعيل بن محمد، انه قال: سمعت ابي يحدث بهذا، فقال في حديثه: فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده فجمع بين عنقي وكتفي، ثم قال: اقبل اي سعد إني لاعطي الرجل، قال ابو عبد الله: فكبكبوا قلبوا فكبوا مكبا، اكب الرجل إذا كان فعله غير واقع على احد، فإذا وقع الفعل، قلت: كبه الله لوجهه وكببته انا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا يَعْنِي؟، فَقَالَ: إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ"، وَعَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ بِهَذَا، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَجَمَعَ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: أَقْبِلْ أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: فَكُبْكِبُوا قُلِبُوا فَكُبُّوا مُكِبًّا، أَكَبَّ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِعْلُهُ غَيْرَ وَاقِعٍ عَلَى أَحَدٍ، فَإِذَا وَقَعَ الْفِعْلُ، قُلْتَ: كَبَّهُ اللَّهُ لِوَجْهِهِ وَكَبَبْتُهُ أَنَا.
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں (اور دوسرے کو نظر انداز کر جاتا ہوں) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ (جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور (یعقوب بن ابراہیم) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «كبكبوا» اوندھے لٹا دینے کے معنی میں ہے۔ اور سورۃ الملک میں جو «مكبا» کا لفظ ہے وہ «أكب» سے نکلا ہے۔ «أكب» لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی «كب» ہے۔ کہتے ہیں کہ «كبه الله لوجهه» یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرا دیا۔ اور «كببته» یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے ہیں۔
Narrated Sa`d (bin Abi Waqqas): Allah's Apostle distributed something (from the resources of Zakat) amongst a group of people while I was sitting amongst them, but he left a man whom I considered the best of the lot. So, I went up to Allah's Apostle and asked him secretly, "Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer." The Prophet said, "Or merely a Muslim (Who surrender to Allah)." I remained quiet for a while but could not help repeating my question because of what I knew about him. I said, "O Allah's Apostle! Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer. " The Prophet said, "Or merely a Muslim." I remained quiet for a while but could not help repeating my question because of what I knew about him. I said, "O Allah's Apostle! Why have you left that person? By Allah! I consider him a believer." The Prophet said, "Or merely a Muslim." Then Allah's Apostle (p.b.u.h) said, "I give to a person while another is dearer to me, for fear that he may be thrown in the Hell-fire on his face (by reneging from Islam)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1478
حدیث حاشیہ: یہ حدیث کتاب الایمان میں گزرچکی ہے۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا‘ آنحضرت ﷺ سے عرض کیا گیا کہ آپ نے عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو سو سو روپے دے دیے۔ اور جعیل سراقہ کو کچھ نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا‘ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ عیینہ اور اقرع ایسے ساری زمین بھرلوگوں سے بہتر ہے۔ لیکن میں عیینہ اور اقرع کا روپیہ دے کر دل ملاتا ہوں اور جعیل کے ایمان پر تو مجھ کو بھروسہ ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1478
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1478
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جس شخص کو کچھ نہ دیا تھا، اس نے حضرت سعد ؓ کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود مال کے متعلق سوال نہیں کیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تکثیرِ مال کے لیے سوال کرنا اچھی بات نہیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں تاکہ سوال حرام کا ارتکاب کر کے اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دیے جائیں، اس انداز سے بھی مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق ہو جاتی ہے۔ (عمدةالقاري: 511/3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے بار بار اصرار کرنے سے جسے رسول اللہ ﷺ نے پسند نہیں فرمایا عنوان ثابت ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 432/3) لیکن آپ کا بار بار سوال کرنا تکثیر مال کے متعلق نہ تھا بلکہ ایک بظاہر حقدار کی سفارش کرنا مقصود تھا۔ واللہ أعلم۔ (3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں بعض الفاظ کی مناسبت سے قرآن کریم میں آمدہ غریب الفاظ کی تشریح کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ عام قاعدے کے مطابق مجرد لازم اور مزید فیہ متعدی فعل کے لیے ہوتا ہے لیکن أكب اور كب اس قاعدے کے برعکس مزید فیہ، فعل لازم اور مجرد، فعل متعدی کے لیے ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1478
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت` «. . . قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ . . .» ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]
� لغوی توضیح: «رَهْطًا» گروہ۔ «خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ» اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے آگ میں نہ ڈال دے (اس وجہ سے کہ وہ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے)۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 91
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27
´ایمان دل کا فعل ہے` «. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .» ”. . . یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]
� تشریح: آیت کریمہ میں بنو اسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آ کر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کر رہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 27
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 27
27. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں کو کچھ مال دیا اور (وہ) سعد ؓ وہاں بیٹھے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو چھوڑ دیا، یعنی اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ تمام لوگوں میں سے مجھے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں شخص کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان!“ میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کے متعلق میں جو جانتا تھا اس نے مجھے بولنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: آپ نے فلاں شخص کو کیوں نظر انداز کر دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان!“ میں پھر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر اس کے متعلق جو میں جانتا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا تو میں نے تیسری مرتبہ وہی عرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی وہی فرمایا۔ اس کے بعد آپ گویا ہوئے: ”اے سعد! میں ایک شخص کو کچھ دیتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:27]
حدیث حاشیہ: آیت کریمہ میں بنواسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آکر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کررہے تھے، اللہ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعدؓ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ ﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کرامام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کررہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 27
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4995
´ «اعراب»”(دیہاتیوں) نے کہا ہم ایمان لائے اے رسول! آپ کہہ دیجئیے تم لوگ ایمان نہیں لائے لیکن تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں“ کی تفسیر۔` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو عطیہ دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں فلاں کو دیا اور فلاں کو کچھ نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے؟ تو نبی آپ نے فرمایا: ”بلکہ وہ مسلم ہے“۱؎، سعد رضی اللہ عنہ نے تین بار دہرایا (یعنی وہ مومن ہے) اور نبی اکرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 4995]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اوراسلام کی حقیقت الگ الگ ہے، یعنی اسلام ظاہری انقیاد واعمال کا نام ہے جبکہ ایمان یقین قلب اور تصدیق لسان کے ساتھ ساتھ کما حقہ ان کے تقاضے پورے کرنے کا نام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایمان،اسلام سے اعلیٰ وارفع درجہ ہوتا ہے اور اس کا تعلق ظاہری انقیاد کے مقابلے میں ایقان قلب سے زیادہ ہوتا ہے۔ (2) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے کہ حتمی طور پر کسی شخص کے کامل مومن ہونے کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرنی چاہیے جب تک اس پر شارع علیہ السلام کی طرف سے واضح نص نہ ہو۔ (3) اس حدیث سے مرجئہ گمراہ فرقے کا بھی صریح طور پر رد ہوتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف زبان سے ایمان کا اقرار کرنے سے انسان جنت میں چلا جائے گا،عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ (4) شرعی حاکم کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ سرکاری مال میں اپنی صوابدید کے مطابق تصرف کرے، کسی کو دے کسی نہ دے اور کسی کو کم دے کسی کو زیادہ دے، نیز ظاہرا اہم آدمی کو چھوڑ دے، اس کی نسبت غیر اہم کو دے دے۔ شرعی مصلحت کی بنیاد پر یہ سب کچھ کیا جا سکتا ہے، خواہ رعایا اورعوام الناس پر یہ معاملہ مخفی ہی ہو۔ (5) حاکم کے ہاں سفارش کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ سفارش جائز ہو۔ اسی طرح مقام ومرتبے کے لحاظ سے کم تر شخص،اپنے سے برتر شخص کو مشورہ دے سکتا ہے، تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو، نیز کسی کے روبرو کہنے کے بجائے تنہائی میں ہو، زیادہ مؤثر ہوتی ہے الا یہ کہ حالات کا تقاضا علانیہ بات کرت کا ہو۔ (6)”(بلکہ وہ) مسلمان ہے“ یعنی تم کسی شخص کی ظاہری حالت ہی کو دیکھتے ہو، لہذا تم ظاہر کی گواہی دو۔ باطن کی اللہ جانے۔بعض نےمعنی کیے ہیں ”بلکہ مسلمان کہو“ یہ معنیٰ بھی کیے گئے ہیں کہ صرف مومن نہ کہو بلکہ یوں کہو”وہ مومن یامسلمان ہے۔“ اس صورت میں او عاطفہ ہوگا اور اسے عطف تلقینی کہتے ہیں کہ تم یہ بھی کہو۔ تینوں معانی ٹھیک ہیں۔ (7)”خوف سے“ اس کا تعلق شروع جملہ کے ساتھ ہے، یعنی میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کا ایمان ابھی کمزور ہے۔ خطرہ ہے کہ مرتد نہ جائیں اور مرتد اوندھے منہ آگ میں گرنے کے مترادف ہے جبکہ پختہ ایمان والے شخص کے بارےمیں کوئی خطرہ نہیں ہوتا،لہذا کبھی اس کو نہیں بھی دیتا تووہ محسوس نہیں کرتا ہے۔ مومن کو مال کی طمع نہیں ہوتی۔مل گیا خیر،نہ ملا تب بھی خیر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4995
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4683
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔` سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلم ہے“ سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: ”یا مسلم ہے“ پھر آپ نے فرمایا: ”میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4683]
فوائد ومسائل: 1: ایمان اور اسلام اگرچہ آپس میں لازم وملزوم ہیں، مگر ایمان اعضائے باطن وظاہر کے اعمال (تصدیق عمل قلب ہے اور نماز، حج، زکوۃ وغیرہ تمام اعمال صالحہ اعضائے ظاہر کے عمل ہیں) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری افعال سے۔ اس لیے ہم ظاہری اعمال کی روشنی میں کسی کو صاحب اسلام تو کہہ سکتے ہیں، لیکن صاحب ایمان ہونے کا دعوی درست نہیں۔ یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اعضائے ظاہری کے ان اعمال کے ساتھ تصدیق بالقلب کی حالت ہے۔
2: اسلام قبول کرنے والے نو مسلم لوگوں کو اسلام میں راسخ اور مطئمن کرنے کے لئے ماوی تعاون دینا ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کے شرعی اعمال کی روح میں اتر جائیں۔ ایسے لوگوں کو اصطلاحًا (مولفةالقلوب) كہا جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4683
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:68
68- عامر بن سعد اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ تقسیم کیا، تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! فلاں صاحب کو بھی کچھ دے دیجئے وہ مؤمن ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں کو بھی کچھ عطا کیجئے، کیونکہ وہ مؤمن ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: (وہ مؤمن ہے) یا مسلمان ہے؟ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بعض اوقات میں کسی شخص کو کچھ دیتا ہوں حالانکہ دوسرا شخص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:68]
فائدہ: نئے مسلمان کی تالیف قلب انتہائی اہم ہے، اور اس کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض نئے مسلمانوں کو عطیات وغیرہ دیتے تھے۔ نبی کریم ﷺ کا ہر فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ اس کا ماننا فرض ہوتا ہے۔ ہاں اشکال کو حل کرنے کے لیے اعتراض کرنا درست ہے۔ ایمان اور اسلام آپس میں لازم وملزوم ہیں لیکن ایمان باطنی اعمال (مثلاً تصدیق قلب) اور ظاہری اعمال (مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکاۃ) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے۔ کسی کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر اس کو مسلمان تو کہہ سکتے ہیں، مگر مومن نہیں کہہ سکتے، کیونکہ ہم تصدیق قلب کی صحیح حقیقت کو نہیں جانتے، نیز دیکھیں حدیث (69)۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 68
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:69
69- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: زہری کہتے ہیں: (اس روایت سے ہم) یہ بات جان گئے ہیں کہ اسلام سے مراد زبانی اقرار ہے اور ایمان سے مراد عمل ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:69]
فائدہ: امام زہری کے قول کا مطلب یہ ہے کہ باطنی اور ظاہری اعمال کا نام ایمان ہے لیکن اگر صرف زبان سے اقرار کیا ہے تو ہم اسے اسلام کہہ سکتے ہیں، ایمان نہیں، نیز دیکھیں: شرح حدیث: 68۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 69
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 379
عامر بن سعد بن ابی وقاصؒ اپنے باپ سعد ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک گروہ کو کچھ مال دیا اور سعدؓ بھی ان میں بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اس کو کچھ نہ دیا حالانکہ وہ مجھے اُن سب سے اچھا لگتا تھا، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! فلاں سے اعراض کی وجہ کیا ہے؟۔ (آپؐ نے اس کو کیوں نہیں دیا) میں تو اللہ کی قسم اس کو مومن سمجھتا ہوں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان۔“ تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:379]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : يَكُبَّهُ اللهُ: اللہ اس کو منہ کے بل گرا دے، اوندھے منہ ڈال دے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 379
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:27
27. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں کو کچھ مال دیا اور (وہ) سعد ؓ وہاں بیٹھے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو چھوڑ دیا، یعنی اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ تمام لوگوں میں سے مجھے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں شخص کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان!“ میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کے متعلق میں جو جانتا تھا اس نے مجھے بولنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: آپ نے فلاں شخص کو کیوں نظر انداز کر دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان!“ میں پھر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر اس کے متعلق جو میں جانتا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا تو میں نے تیسری مرتبہ وہی عرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی وہی فرمایا۔ اس کے بعد آپ گویا ہوئے: ”اے سعد! میں ایک شخص کو کچھ دیتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:27]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کے اندرونی حالات کا علم نہ ہو اسے مسلم تو کہہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے لیکن اسے مومن نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ باطن کا معاملہ ہے، اس پر اللہ کے سوا اور کون مطلع ہو سکتا ہے؟ یا پھر یہ پیغمبر کا منصب ہے کہ وہ بذریعہ وحی باطنی احوال سے واقف ہو سکتا ہے۔ دوسرے اس کی تعبیریوں بھی ہو سکتی ہے کہ ہر مسلمان کے دو احوال ہیں ایک کا تعلق باطن سے ہے اور دوسرے کا ظاہر سے۔ ایمان یہ باطنی امر ہے جس کا واقعی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہو سکتا وہی کسی کو بتادے تو دوسری بات ہے۔ البتہ کسی کے ظاہری احوال کو دیکھ کر کہ وہ متشرع ہے نماز روزے کا پابند ہے، کہا جا سکتا ہے کہ یہ پکا مسلمان ہے۔ 2۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ چھوٹوں کو بڑوں کی خدمت میں سفارش کرنے کا حق ہے بڑوں کو اختیار ہے کہ وہ قبول کریں یا رد کردیں۔ نیز اگر سفارش کا طریق قابل اصلاح ہو تو اس مجلس میں مناسب طریقے سے بتا دینا چاہیے اور سفارش کنندہ کی تسلی اور اطمینان خاطر کے لیے وجہ بھی بیان کر دینی چاہیے۔ 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے ہاں نجات دہندہ اور غیر نجات دہندہ اسلام کی تفریق کرنا چاہتے ہیں کہ باعث نجات وہ اسلام ہے جو دل کی گہرائی اور سچی نیت سے ہو اور ایمان کے مترادف ہو جو اسلام محض نمائشی ہوگا۔ وہ دنیا وی مفادات کے تحفظ کے لیے تو کام آسکتا ہے مگر آخرت میں نجات کا باعث نہیں ہو سکتا۔ حاصل یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے دو معنی بتا کر اسلام اور ایمان کے متعلق جو مغایرت معلوم ہوتی تھی اس کی وضاحت کردی ہے کہ اسلام شرعی اور ایمان حقیقی میں کوئی مغایرت نہیں البتہ وہ اسلام جو محض نمائشی ہو اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 27