اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ (سہل) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1482
حدیث حاشیہ: اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاء ملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ ﷺ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ ﷺ نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضي اللہ عنهم ورضوا عنه۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1482
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1482
حدیث حاشیہ: (1) درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا کسی تجربہ کار سے اندازہ لگوانا خرص کہلاتا ہے، کھجور یا انگور جب پک جائیں تو حاکم وقت کسی تجربہ کار اندازہ لگانے والے کو بھیجتا ہے کہ وہ باغ کو دیکھ کر اندازہ کرے کہ اس سے کتنا خشک پھل اترے گا، پھر اس اندازے کے مطابق اس پر عشر واجب ہوتا ہے، اندازہ کردہ مقدار سے اخراجات کو منہا کر دیا جاتا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک کھجوروں اور انگوروں کا اندازہ لگانا صحیح ہے اور اس قاعدے کے مطابق عشر وصول کرنا جائز ہے لیکن احناف اسے نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک مالک کے قبضے میں جو مقدار ہو گی وہ اس سے عشر ادا کرے، خواہ وہ اندازے سے کم ہو یا زیادہ، لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق زکاۃ وصول کرنے والوں کو درختوں پر موجود انگور اور تر کھجور کے تخمینے کے لیے بھیجنا مشروع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو اہل خیبر کی کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث: 1820) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح ابن حبان کے حوالے سے ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم درختوں پر پھل کا اندازہ کرو تو اس سے ایک تہائی منہا کرو، اگر ایک تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم ایک چوتھائی ضرور چھوڑ دو۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1605، وسنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2491) حضرت عتاب بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کی زکاۃ اس طرح انداز لگا کر ادا کرنے کا حکم دیا جس طرح کھجوروں کی زکاۃ اندازہ لگا کر ادا کی جاتی ہے، نیز انگور کی زکاۃ منقے سے دی جائے جس طرح تازہ کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں سے دی جاتی ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 644) اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ کی مقدار کا تعیین اندازے سے ہو گا لیکن زکاۃ کی ادائیگی خشک پھل سے ہو گی، ان کے علاوہ دیگر غلوں کا اندازہ لگانا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1482