صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
8. بَابُ حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِيمَانِ:
8. باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے۔
(8) Chapter. To love the Messenger (Muhammad ﷺ) is a part of faith.
حدیث نمبر: 14
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، قال: حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فوالذي نفسي بيده، لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من والده وولده".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ".
ہم سے ابوالیمان نے حدیث بیان کی، ان کو شعیب نے، ان کو ابولزناد نے اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔


Hum se Abul Yamaan ne Hadees bayan ki, un ko Sho’aib ne, un ko Abuz Zinaad ne A’raj se, unhon ne Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se naql ki ke be-shak Rasoolulllah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya, qasam hai us zaat ki jis ke haath mein meri jaan hai. Tum mein se koi bhi imaandaar na hoga jab tak main us ke waalid aur aulaad se bhi ziyada us ka mehboob na ban jaaon.

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: "Allah's Apostle said, "By Him in Whose Hands my life is, none of you will have faith till he loves me more than his father and his children."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 14


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري14عبد الرحمن بن صخرلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده
   سنن النسائى الصغرى5019عبد الرحمن بن صخرلا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من ولده ووالده

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 14 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 14  
تشریح:
پچھلے ابواب میں «من الايمان» کا جملہ مقدم تھا اور یہاں ایمان پر «حب الرسول» کو مقدم کیا گیا ہے۔ جس میں ادب مقصود ہے اور یہ بتلانا کہ محبت رسول ہی سے ایمان کی اول و آخر تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ہے تو ایمان ہے، یہ نہیں تو کچھ نہیں۔ اس سے بھی ایمان کی کمی و بیشی پر روشنی پڑتی ہے اور یہ کہ اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ و خصائل حمیدہ سب ایمان میں داخل ہیں۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے ایمان کی حلفیہ نفی فرمائی ہے جس کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر اس کے والد یا اولاد کی محبت غالب ہو۔ روایت میں لفظ «والد» کو اس لیے مقدم کیا گیا کہ اولاد سے زیادہ والدین کا حق ہے اور لفظ «والد» میں ماں بھی داخل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 14   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:14  
حدیث حاشیہ:

دیگر عناوین کے برعکس اس عنوان میں ادباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مقدم فرمایا ہے، نیز ایمانیات کے معاملے میں آپ کی محبت اصل الاصول کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ جس مسلمان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہوگی وہی دیگر احکام کی تعمیل کرسکے گا، اور اسی محبت رسول ہی سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔
اگر یہ محبت موجود ہے تو ایمان ہے بصورت دیگر ایمان سے وہ محروم ہے۔
اس سے ایمان کی کمی بیشی پر بھی روشنی پڑتی ہے کیونکہ محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

محبت کی دوقسمیں ہیں:
ایک طبعی جو غیر اختیاری ہوتی ہے۔
اس قسم کی محبت معیار ایمان نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا خواجہ ابوطالب کو آپ سے طبعی محبت تھی لیکن اس کے باوجود انھیں مسلمان شمار نہیں کیاجاتا۔
دوسری محبت شرعی اور عقلی ہے جس میں انسان اپنے ارادے اور اختیار کو استعمال کرتا ہے ایمان کا مدار اسی شرعی محبت پر ہے۔
اوریہ حقیقت ہے کہ جب کسی سے شرعی محبت ہوتی ہے تو محبت طبعی بھی آجاتی ہے، البتہ محبت شرعی کا تقاضا ہے کہ ٹکراؤ کی صورت میں شرعی محبت غالب آنی چاہیے۔

اس حدیث میں اپنے نفس کی محبت کا ذکر نہیں کیونکہ یہاں ذکر باعتبار ظہور کے ہے اور اپنے نفس سے محبت کا ظہور نہیں ہوتا، پھر دوسری روایت میں تمام لوگوں کی محبت کا ذکر ہے، اس کے عموم میں اپنا نفس بھی شامل ہے، نیز حدیث میں نفس کی محبت کا تذکرہ موجود ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ عرض کیا:
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)
! آپ کی محبت میرے دل میں ہر چیز سے زیادہ ہے مگر میں اپنے نفس کی محبت اور بھی زیادہ پارہا ہوں؟ آپ نے فرمایا:
عمر! ابھی کمی باقی ہے۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غور کیا، پھر عرض کرنے لگے کہ اب آپ کی محبت میرے دل میں میرے نفس سے بھی زیادہ ہے۔
یہ سن کر آپ نے فرمایا:
(الْآنَ يَا عُمَرُ)
یعنی اب ایمان کی تکمیل ہوئی ہے۔
(صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث: 6632)

اس روایت میں والد کو ولد پر اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ وہ اصل ہونے کی بنا پر قابل تعظیم ہے اور تعظیم کا تقاضا ہے کہ اسے ذکر میں مقدم کیا جائے۔
پھر ہر شخص کے لیے والد کا ہونا توضروری ہے لیکن اس کے لیے اولاد کا ہونا ضروری نہیں، پھر باپ کی محبت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مناسبت بھی زیادہ ہے کیونکہ آپ بمنزلہ والد کے ہیں۔
بعض روایات میں ولد کو والد پر مقدم رکھا گیا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 169(44)
۔
یہ رحمت والفت کے اعتبارسے ہے کہ انسان کو شفقت ورحمت اولاد پر زیادہ ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی سنت کی تائید ونصرت، اس کا دفاع اور منکرین سنت کا مقابلہ کیا جائے۔
آپ کے لائے ہوئے طریقے پر عمل کیا جائے۔
اس کے لیے وقت، صلاحیت اور مال وغیرہ خرچ کیا جائے، حقیقی ایمان انھی باتوں سے مکمل ہوگا۔
اس سلسلے میں جو چیز بھی رکاوٹ بنے، اسے قربان کردیا جائے۔
اگرمومن اپنے اندر اس معیار کو محسوس کرتا ہے تو حقیقی مومن ہے، بصورت دیگر اسے ا پنے ایمان کے متعلق غوروفکر کرنا چاہیے۔
(شرح الکرماني: 99/1)
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 14   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5019  
´ایمان کی نشانی۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإيمان وشرائعه/حدیث: 5019]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سےیہ معلوم ہوا کہ ایسا کرنے والا شخص متواضع ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی نیکی اور اچھائی کے وہی جذبات واحساسات رکھتا ہو جو وہ اپنے لیے رکھتا ہےاور اپنے مسلمان بھائی کےلیے بھی وہی کچھ پسند کرتا ہو جواپنےلیے کرتا ہے تو یہ عمل اور جذبہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایسا کرنے والا شخص نہ متکبر ہے اور نہ کینہ پرورہی۔ ایسے شخص کے دل میں کسی کے لیے نہ حسد اور بغض کی بیماریاں پل رہی ہوتی ہیں اور نہ اس کے دل میں کسی قسم کا کوئی کھوٹ اور منفی جذبہ ہی ہوتا ہے۔ یہ شخص تمام مذموم اور گھٹیا خصائل سے کوسوں دور اور خصائل حمیدہ کا پیکر ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اخلاق انتہائی کریمانہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی صفات جلیلہ کاحامل دل عطا فرمائے۔ آمین.
(2) وہی چیز یعنی اس جیسی کیونکہ وہی چیزتو ہر وقت نہیں دی جا سکتی اور ٹہ یہ ممکن ہے۔
(3) سابقہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوایمان کی نشانی بتلایا گیا تھا اور یہاں خلوص اور خیر خواہی کو۔گویا یہ دونوں نشانیاں ہیں۔ آگے مزید بھی آ رہی ہیں۔ ان میں کوئی تناقض نہیں۔ یہ سب ایمان کے ثمرات ہیں، نیز یاد رہے کہ کمال ایمان کے لیے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5019   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.