ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ میرے باپ سعد بن ابراہیم نے اپنے چچا ابوسلمہ سے بیان کیا کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے یہاں سحر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ لیٹے ہوئے پایا۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1133
حدیث حاشیہ: عادت مبارکہ تھی کہ تہجد سے فارغ ہو کر آپ ﷺ قبل فجر سحرکے وقت تھوڑی دیر آرام فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ ؓ یہی بیان فرما رہی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1133
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1133
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے قبل ازیں حضرت داود ؑ کی شب بیداری کو بیان فرمایا تھا۔ ان احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے عمل کو اس کے مطابق ثابت کیا ہے کہ مرغ عام طور پر آدھی رات کو آواز دیتا ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا ہے۔ اس سے قبل رسول اللہ ﷺ نصف رات تک محو استراحت رہتے، اس کے بعد مرغ کی آواز سن کر اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز میں مصروف رہتے، پھر سحری کے وقت تک سوئے رہتے۔ اس سے آپ ﷺ کے اور حضرت داود ؑ کے عمل میں یکسانیت ثابت ہوئی اور بوقت سحر سونا بھی ثابت ہوا، لیکن رمضان المبارک میں آپ کا یہ معمول نہیں ہوتا تھا، کیونکہ آپ رات کے آخری حصے میں سحری تناول فرمانے میں مصروف ہو جاتے۔ اس سے فراغت کے بعد صبح کی نماز ادا فرماتے، جیسا کہ آئندہ عنوان میں اس کی وضاحت ہو گی۔ (فتح الباري: 25/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1133
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1318
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تہجد پڑھنے کے وقت کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں صبح ہوتی تو آپ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سوئے ہوئے ہی ملتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1318]
1318. اردو حاشیہ: توضیح: نبیﷺ کا یہ سونا قیام اللیل کے بعد راحت کے لیے ہوتا تھا۔ بعض اوقات محض لیٹنا ہوتا اور بعض اوقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو فرماتے۔ اور ممکن ہے کہ یہ لمبی راتوں کی بات ہو نہ کہ چھوٹی راتوں کی۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ قیام اللیل کے بعد آرام کرنا، بدن کو راحت دیتا اور جاگنے کی مشقت دورکرتا ہے علاوہ ازیں جس کو نحیف بھی نہیں ہونے دیتا۔ بخلاف صبح تک جاگتے رہنے کے، اس سے کمزوری ہو جاتی ہے۔ (عون المعبود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1318
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1197
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اخیر رات میں پاتی تو اپنے پاس سویا ہوا پاتی ۱؎۔ وکیع نے کہا: ان کی مراد وتر کے بعد۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1197]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) رسول اللہ ﷺ کا اکثر معمول نصف رات کے بعد تہجد شروع کرکے فجر سےگھنٹہ دو گھنٹہ پہلے فارغ ہوجانے کا تھا۔ اس لئے صبح صادق کے وقت رسول اللہ ﷺ آرام فرما رہے ہوتے تھے۔ لیکن بہت دفعہ رات کے آخر تک بھی نماز میں مشغول رہتے تھے جیسے کہ دوسری روایات میں مذکور ہے۔
(2) ہرشخص اپنی سہولت کے مطابق رات کے کسی حصے میں تہجد ادا کرسکتا ہے۔ اور اس کا وقت بھی کم وبیش ہوسکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1197
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:189
فائدہ: اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے آخری معمول کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد اور وتر سے فارغ ہوکر سحری کے آخری وقت میں تھوڑی دیر کے لیے سو جاتے تھے، اور یہ اکثریت پر محمول ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 189
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1731
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے ہمیشہ آپﷺ کو رات کے آخری حصہ میں اپنے گھر میں یا اپنے پاس سوئے ہوئے پایا (یعنی رسول اللہ ﷺ کو رات کے آخری حصہ میں، میرے گھر میں یا میرے پاس سوئے ہوئے پایا۔)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1731]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَااَلْفٰي: نہیں پایا۔ (2) اَلسَّحَرُ الْأَعْليٰ: رات کا آخری حصہ، صبح کے قریب کا وقت۔ فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز سے صبح سے پہلے فارغ ہو جاتے تو لیٹ جاتے تھے اور بعض دفعہ سو بھی جاتے تھے۔