�
فقہ الحدیث منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں: یہ باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کے بیان میں۔ اور حدیث ہے ”حذیفہ سے روایت ہے کہ آنحضرت جب نماز تہجد پڑھنے کا ارادہ کرتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کر لیتے۔“ باب اور حدیث میں مطابقت نہیں۔
{اَقول:} ہم اس کا مفصل جواب رسالہ
«”الخزي العظيم“» (ص:11) میں دے چکے ہیں۔
اور اخبار
”اہل حدیث
“ (14/7، اکتوبر 2010 ء و 11 نومبر 2010 ء) میں بھی سب جواب دیا گیا ہے۔
مختصر جواب چار شقوں میں سن لیں، یعنی چار دلیلوں سے حدیث مذکور اور اس کے باب میں مطابقت ہے:
➊ لفظ
«”قيام“» درباب اور
«”قام“» درحدیث سے لفظی مطابقت ظاہر ہے۔
➋ مسواک کرنا چونکہ ازالہ نوم کی معین ہے، لہٰذا یہ تہیّو بطریق استنباط خود طولِ قیام پر دال ہے۔
➌ اس میں ایک نکتہ ہے، وہ یہ کہ یہ روایت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ہے اور نماز تہجد میں طوالت قرات کی روایت بھی صحیح مسلم میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔
۱؎ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دوسری حدیث کی طرف اشارہ کر کے سمجھا دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد میں لمبی قراَت پڑھتے تھے۔ کیونکہ دونوں روایتیں ایک ہی نماز کے متعلق اور ایک ہی صحابی کی روایت سے ہیں۔
➍ حدیث مذکور سے ہر دوگانہ تہجد کے بعد مسواک کرنا نکلتا ہے، اور ظاہر ہے کہ تغییر رائحہ فم کی ضرورت ایک عرصہ کے بعد ہوتی ہے، پس معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک دوگانہ میں ایک عرصہ تک قیام فرماتے تھے، یعنی قیام طویل کرتے تھے۔
[فتح الباري 19/3] اور علامہ عینی
(جو معترض کا مایہ ناز ہے) نے یوں مطابقت دی ہے کہ:
”باب ہے رات کی نماز میں درازی قیام کا، اور حذیفہ کی حدیث میں تہجد کے لیے قیام کا ذکر موجود ہے اور تہجد کی نماز رات کو درازی سے ادا کی جاتی ہے اور درازی طول قیام سے ہوتی ہے۔
“ [عمدة القاري 186/7] پس طول قیام ثابت ہے، جو باب کا مضمون ہے۔ بہرحال اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے جسے معترض نے عقدہ سمجھا تھا، وہ پانی ہو کر بہہ گیا۔
«فالحمدلله!» ------------------
۱؎ [صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين وقصرھا، باب استحباب تطويل القراءة في صلاة الليل، رقم الحديث 776]