(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثني كهمس ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابن مغفل ، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخذف، وقال:" إنها لا ينكا بها عدو، ولا يصاد بها صيد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَهْمَسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَذْفِ، وَقَالَ:" إِنَّهَا لَا يُنْكَأُ بِهَا عَدُوٌّ، وَلَا يُصَادُ بِهَا صَيْدٌ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو کنکر ی مارنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اس سے دشمن زیر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی شکار پکڑا جاسکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا عبد الواحد ، قال: حدثنا عاصم الاحول ، عن الفضيل بن زيد الرقاشي ، قال: كنا عند عبد الله بن مغفل ، قال: فتذاكرنا الشراب، فقال: الخمر حرام، قلت له: الخمر حرام في كتاب الله عز وجل، قال: فايش تريد، تريد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" ينهى عن الدباء والحنتم والمزفت"، قال: قلت: ما الحنتم؟، قال: كل خضراء وبيضاء، قال: قلت: ما المزفت؟، قال: كل مقير من زق او غيره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، عَنِ الفُضَيْلِ بْنِ زَيْدٍ الرَّقَاشِيِّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: فَتَذَاكَرْنَا الشَّرَابَ، فَقَالَ: الْخَمْرُ حَرَامٌ، قُلْتُ لَهُ: الْخَمْرُ حَرَامٌ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَأَيْشْ تُرِيدُ، تُرِيدُ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَنْهَى عَنِ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالْمُزَفَّتِ"، قَالَ: قُلْتُ: مَا الْحَنْتَمُ؟، قَالَ: كُلُّ خَضْرَاءَ وَبَيْضَاءَ، قَالَ: قُلْتُ: مَا الْمُزَفَّتُ؟، قَالَ: كُلُّ مُقَيَّرٍ مِنْ زِقٍّ أَوْ غَيْرِهِ.
فضیل بن زید رقاشی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ شراب کا تذکر ہ شروع ہو گیا اور سیدنا عبداللہ بن مغفل کہنے لگے کہ شراب حرام ہے، میں نے پوچھا: کیا کتاب اللہ میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے؟ انہوں فرمایا: تمہارا مقصد کیا ہے؟ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں نے اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو سنا ہے وہ تمہیں بھی سناؤں؟ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو، حنتم اور مزفت سے منع کرتے ہوئے سنا ہے، میں نے حنتم کا مطلب پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ ہر سبز اور سفید مٹکا، میں مزفت کا مطلب پوچھا: تو فرمایا کہ لک وغیرہ سے بنا ہوا برتن۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا حماد بن سلمة ، عن يزيد الرقاشي ، عن ابي نعامة ، ان عبد الله بن مغفل سمع ابنا له، يقول: اللهم إني اسالك الفردوس وكذا، واسالك كذا، فقال: اي بني سل الله الجنة، وتعوذ بالله من النار، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" يكون في هذه الامة قوم يعتدون في الدعاء والطهور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنًا لَهُ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْفِرْدَوْسَ وَكَذَا، وَأَسْأَلُكَ كَذَا، فَقَالَ: أَيْ بُنَيَّ سَلْ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ وَالطَّهُورِ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت الفردوس اور فلاں فلاں چیز کا سوال کرتا ہوں، تو فرمایا: بیٹے! اللہ سے صرف جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو دعاء اور وضو میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد الرقاشي، وأبو نعامة لم يسمع من عبدالله بن مغفل
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا المبارك ، عن الحسن ، عن عبد الله بن مغفل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من تبع جنازة حتى يصلي عليها، فله قيراط، ومن انتظرها حتى يفرغ منها فله قيراطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَبِعَ جِنَازَةً حَتَّى يُصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ انْتَظَرَهَا حَتَّى يُفْرَغَ مِنْهَا فَلَهُ قِيرَاطَانِ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جنازے کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا اور جو شخص دفن سے فراغت کا انتظار کر ے اسے دو قیراط ثواب ملے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، المبارك بن فضالة يدلس، لكنه صحيح الرواية عن الحسن البصري
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا المبارك ، عن الحسن ، عن عبد الله بن مغفل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلوا في مرابض الغنم، ولا تصلوا في اعطان الإبل، فإنها خلقت من الشياطين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلُّوا فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ، وَلَا تُصَلُّوا فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ، فَإِنَّهَا خُلِقَتْ مِنَ الشَّيَاطِينِ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بکریوں کے ریوڑ میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اونٹوں کے باڑے میں نماز نہیں پڑھ سکتے، کیونکہ ان کی پیدائش شیطان سے ہوئی ہے (ان کی فطرت میں شیطانیت پائی جاتی ہے)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، المبارك بن فضالة يدلس، لكنه صحيح الرواية عن الحسن البصري
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثني حسين بن واقد ، قال: حدثني ثابت البناني ، عن عبد الله بن مغفل المزني ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية في اصل الشجرة التي قال الله تعالى في القرآن، وكان يقع من اغصان تلك الشجرة على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلي بن ابي طالب، وسهيل بن عمرو بين يديه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي رضي الله تعالى عنه:" اكتب بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1"، فاخذ سهيل بن عمرو بيده، فقال: ما نعرف بسم الله الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 1، اكتب في قضيتنا ما نعرف، قال:" اكتب باسمك اللهم"، فكتب" هذا ما صالح عليه محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم اهل مكة"، فامسك سهيل بن عمرو بيده، وقال: لقد ظلمناك إن كنت رسوله، اكتب في قضيتنا ما نعرف، فقال:" اكتب هذا ما صالح عليه محمد بن عبد الله ابن عبد المطلب، وانا رسول الله"، فكتب، فبينا نحن كذلك إذ خرج علينا ثلاثون شابا عليهم السلاح، فثاروا في وجوهنا، فدعا عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذ الله عز وجل بابصارهم، فقدمنا إليهم، فاخذناهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل جئتم في عهد احد، او هل جعل لكم احد امانا؟"، فقالوا: لا، فخلى سبيلهم، فانزل الله عز وجل وهو الذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم ببطن مكة من بعد ان اظفركم عليهم وكان الله بما تعملون بصيرا سورة الفتح آية 24، قال ابو عبد الرحمن: قال حماد بن سلمة في هذا الحديث: عن ثابت ، عن انس ، وقال حسين بن واقد عن عبد الله بن مغفل ، وهذا الصواب عندي إن شاء الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْقُرْآنِ، وَكَانَ يَقَعُ مِنْ أَغْصَانِ تِلْكَ الشَّجَرَةِ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَسُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ:" اكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1"، فَأَخَذَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو بِيَدِهِ، فَقَالَ: مَا نَعْرِفُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 1، اكْتُبْ فِي قَضِيَّتِنَا مَا نَعْرِفُ، قَالَ:" اكْتُبْ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ"، فَكَتَبَ" هَذَا مَا صَالَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ مَكَّةَ"، فَأَمْسَكَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو بِيَدِهِ، وَقَالَ: لَقَدْ ظَلَمْنَاكَ إِنْ كُنْتَ رَسُولَهُ، اكْتُبْ فِي قَضِيَّتِنَا مَا نَعْرِفُ، فَقَالَ:" اكْتُبْ هَذَا مَا صَالَحَ عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ"، فَكَتَبَ، فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا ثَلَاثُونَ شَابًّا عَلَيْهِمْ السِّلَاحُ، فَثَارُوا فِي وُجُوهِنَا، فَدَعَا عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقَدِمْنَا إِلَيْهِمْ، فَأَخَذْنَاهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ جِئْتُمْ فِي عَهْدِ أَحَدٍ، أَوْ هَلْ جَعَلَ لَكُمْ أَحَدٌ أَمَانًا؟"، فَقَالُوا: لَا، فَخَلَّى سَبِيلَهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا سورة الفتح آية 24، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَالَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، وَقَالَ حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، وَهَذَا الصَّوَابُ عِنْدِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کی جڑ میں بیٹھے تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے، اس درخت کی ٹہنیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک کمر سے لگ رہی تھیں سیدنا علی اور سہیل بن عمرو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کر م اللہ وجہہ سے فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ، تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم رحمان اور رحیم کو نہیں جانتے آپ اس معاملے میں وہی لکھئے جو ہم جانتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: باسمک اللہم لکھ دو، پھر سیدنا علی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ جملہ لکھا، یہ وہ فیصلہ ہے جس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے صلح کی ہے، تو سہیل بن عمرو نے دوبارہ ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر ہم نے آپ پر ظلم کیا، آپ اس معاملے میں وہی لکھئے جو ہم جانتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اللہ کا پیغمبر پھر بھی ہوں لیکن تم یوں لکھ دو کہ یہ وہ فیصلہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے اہل مکہ سے صلح کی ہے۔ اسی اثناء میں تیس مسلح نوجوان کہیں سے آئے اور ہم پر حملہ کر دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے بددعاء کی تو اللہ نے ان کی بینائی سلب کر لی اور ہم نے آگے بڑھ کر انہیں چھوڑ دیا اور اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اللہ وہی ہے جس نے بطن مکہ میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے رکھے، حالانکہ تم ان پر غالب آچکے تھے اور اللہ تمہارے اعمال کو خوب دیکھتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، حسين بن واقد مختلف فيه، حسن الحديث ، وترجيح عبدالله بن أحمد عقب هذا الحديث رواية حسين بن واقد هو ترجيح غير مرضي
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد الجريري ، عن ابي نعامة ، ان عبد الله بن مغفل سمع ابنا له، يقول: اللهم إني اسالك القصر الابيض من الجنة إذا دخلتها عن يميني، قال: فقال له: يا بني سل الله الجنة، وتعوذه من النار، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" سيكون بعدي قوم من هذه الامة يعتدون في الدعاء والطهور".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ سَمِعَ ابْنًا لَهُ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْقَصْرَ الْأَبْيَضَ مِنَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلْتُهَا عَنْ يَمِينِي، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: يَا بُنَيَّ سَلْ اللَّهَ الْجَنَّةَ، وَتَعَوَّذْهُ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" سَيَكُونُ بَعْدِي قَوْمٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ وَالطَّهُورِ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت الفردوس اور فلاں فلاں چیز کا سوال کرتا ہوں، تو فرمایا: بیٹے! اللہ سے صرف جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو دعاء اور وضو میں حد سے آگے بڑھ جائیں گے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو نعامة لم يسمع من عبدالله بن مغفل
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ مہربان ہے مہربانی کو پسند کرتا ہے اور مہربانی ونرمی پر وہ کچھ دے دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، فيه عنعنة الحسن البصري، وهو مدلس
سیدنا عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے پیچھے میرے صحابہ کو نشان طعن مت بنانا، جو ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرتا ہے اور جو ان سے نفرت کرتا ہے دراصل وہ مجھ سے نفرت کی وجہ سے ان کے ساتھ نفرت کرتا ہے جو انہیں ایذاء پہنچاتا ہے وہ مجھے ایذاء پہنچاتا ہے اور جو مجھے ایذاء پہنچاتا ہے وہ اللہ کو ایذاء دیتا ہے اور جو اللہ کو ایذاء دیتا ہے اللہ اسے عنقریب ہی پکڑ لیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن عبدالرحمن مختلف فى اسمه، وهو مجهول