(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، قال: حدثني عامر بن عبد الله بن الزبير ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا جلس في التشهد وضع يده اليمنى على فخذه اليمنى، ويده اليسرى على فخذه اليسرى، واشار بالسبابة، ولم يجاوز بصره إشارته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا جَلَسَ فِي التَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ، وَلَمْ يُجَاوِزْ بَصَرُهُ إِشَارَتَهُ".
سیدنا ابن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تو اپناداہنا ہاتھ دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھ لیتے شہادت والی انگلی سے اشارہ کرتے اور اپنی نگاہیں اس اشارے سے آگے نہیں جانے دیتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا الحديث من مناكير عطاء بن السائب
سیدنا عبداللہ بن زبیر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے ایک جھوٹی قسم ان الفاظ کے ساتھ کھائی اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اس کے یہ کلمہ توحید پڑھنے کی برکت سے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وهذا الحديث من مناكير عطاء بن السائب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، قال: حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني ابي إسحاق بن يسار ، قال: إنا لبمكة إذ خرج علينا عبد الله بن الزبير ، فنهى" عن التمتع بالعمرة إلى الحج، وانكر ان يكون الناس صنعوا ذلك مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبلغ ذلك عبد الله بن عباس، فقال: وما علم ابن الزبير بهذا، فليرجع إلى امه اسماء بنت ابي بكر، فليسالها، فإن لم يكن الزبير قد رجع إليها حلالا وحلت، فبلغ ذلك اسماء، فقالت يغفر الله لابن عباس، والله لقد افحش، قد والله صدق ابن عباس، لقد حلوا واحللنا، واصابوا النساء".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي إِسْحَاقُ بْنُ يَسَارٍ ، قَالَ: إِنَّا لَبِمَكَّةَ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، فَنَهَى" عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، وَأَنْكَرَ أَنْ يَكُونَ النَّاسُ صَنَعُوا ذَلِكَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: وَمَا عِلْمُ ابْنِ الزُّبَيْرِ بِهَذَا، فَلْيَرْجِعْ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَلْيَسْأَلْهَا، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ الزُّبَيْرُ قَدْ رَجَعَ إِلَيْهَا حَلَالًا وَحَلَّتْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ أَسْمَاءَ، فَقَالَتْ يَغْفِرُ اللَّهُ لِابْنِ عَبَّاسٍ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَفْحَشَ، قَدْ وَاللَّهِ صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَقَدْ حَلُّوا وَأَحْلَلْنَا، وَأَصَابُوا النِّسَاءَ".
ابواسحق بن یسار کہتے ہیں کہ ہم اس وقت مکہ مکر مہ میں ہی تھے جب سیدنا عبداللہ بن زبیر ہمارے یہاں تشریف لائے انہوں نے ایک ہی سفر میں حج وعمرہ کو اکٹھا کرنے سے منع فرمایا: سیدنا ابن عباس کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ ابن زبیر کو اس مسئلے کا کیا پتہ انہیں یہ مسئلہ اپنی والدہ سیدنا اسماء بنت ابی بکر سے معلوم کرنا چاہیے اگر سیدنا زبیر ان کے پاس حلال ہو نے کی صورت میں نہیں آتے تھے تو کیا تھا سیدنا اسماء کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا: اللہ ابن عباس کی بخشش فرمائے واللہ انہوں نے بےہو دہ بات کی گو کہ بات سچی ہے کہ عمرو بھی حلال ہو گئے تھے اور ہم عورتیں بھی اور مرد اپنی بیویوں کے پاس آئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا خلف بن الوليد ، قال: حدثنا عبد الله بن المبارك ، قال: حدثني مصعب بن ثابت ، ان عبد الله بن الزبير كانت بينه وبين اخيه عمرو بن الزبير خصومة، فدخل عبد الله بن الزبير على سعيد بن العاص، وعمرو بن الزبير معه على السرير، فقال سعيد لعبد الله بن الزبير: هاهنا، فقال: لا،" قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم او سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ان الخصمين يقعدان بين يدي الحكم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُصْعَبُ بْنُ ثَابِتٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ عَمْرِو بْنِ الزُّبَيْرِ خُصُومَةٌ، فَدَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ عَلَى سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، وَعَمْرُو بْنُ الزُّبَيْرِ مَعَهُ عَلَى السَّرِيرِ، فَقَالَ سَعِيدٌ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ: هَاهُنَا، فَقَالَ: لَا،" قَضَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سُنَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْخَصْمَيْنِ يَقْعُدَانِ بَيْنَ يَدَيْ الْحَكَمِ".
مصعب بن ثابت کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن زبیر اور ان کے بھائی عمرو بن زبیر میں کچھ جھگڑا چل رہا تھا اس دوران سیدنا عبداللہ بن زبیر ایک مرتبہ سعید بن عاص کے پاس گئے ان کے ساتھ تخت پر عمرو بن زبیر بھی بیٹھے ہوئے تھے سعید نے انہیں بھی اپنے قریب بلایا لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اور سنت یہ ہے کہ دونوں فریق حاکم کے سامنے بیٹھیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مصعب ابن ثابت، ولانقطاعه، مصعب بن ثابت لم يسمع من جده عبدالله بن الزبير
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن نمير ، قال: حدثنا هشام يعني ابن عروة بن الزبير ، عن ابي الزبير قال: كان عبد الله بن الزبير ، يقول في دبر كل صلاة حين يسلم:" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لا حول ولا قوة إلا بالله، لا إله إلا الله ولا نعبد إلا إياه، وله النعمة، وله الفضل، وله الثناء الحسن، لا إله إلا الله مخلصين له الدين ولو كره الكافرون" قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يهلل بهن دبر كل صلاة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ بن الزبير ، عَنْ أبِي الزُّبَيْرِ قَالَ: كانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ حِينَ يُسَلِّمُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَلَا نَعْبُدُ إِلَّا إِيَّاهُ، وَلَهُ النِّعْمَةُ، وَلَهُ الْفَضْلُ، وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ" قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَلِّلُ بِهِنَّ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ.
ابوزبیر کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر ہر نماز کا سلام پھیرنے کے بعد فرمایا: کرتے تھے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اسی کی حکومت ہے اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، گناہ سے بچنے اور نیکی پر عمل کرنے کی قدرت صرف اللہ ہی سے مل سکتی ہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں اسی کا احسان اور مہربانی ہے اور اسی کی بہترین تعریف ہے اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہم خالص اسی کے لئے عبادت کرتے ہیں اگرچہ کافروں کو اچھا نہ لگے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر نماز کے بعد یہ کلمات کہا کرتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ آیت قرآنی اپنی آوازوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازوں سے اونچا نہ کیا کر و کے نزول کے بعد سیدنا عمر جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات کرتے تو اتنی پست آواز سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ پوچھنا پڑتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، قال: حدثنا الحجاج ، عن فرات بن عبد الله وهو فرات القزاز ، عن سعيد بن جبير ، قال: كنت جالسا عند عبد الله بن عتبة بن مسعود، وكان ابن الزبير جعله على القضاء، إذ جاءه كتاب ابن الزبير : سلام عليك اما بعد، فإنك كتبت تسالني عن الجد، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لو كنت متخذا من هذه الامة خليلا دون ربي عز وجل لاتخذت ابن ابي قحافة 63، ولكنه اخي في الدين وصاحبي في الغار" جعل الجد ابا، واحق ما اخذناه قول ابي بكر الصديق رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ فُرَاتِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ فُرَاتٌ الْقَزَّازُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ جَعَلَهُ عَلَى الْقَضَاءِ، إِذْ جَاءَهُ كِتَابُ ابْنِ الزُّبَيْرِ : سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْجَدِّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ خَلِيلًا دُونَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ 63، وَلَكِنَّهُ أَخِي فِي الدِّينِ وَصَاحِبِي فِي الْغَارِ" جَعَلَ الْجَدَّ أَبًا، وَأَحَقُّ مَا أَخَذْنَاهُ قَوْلُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عبداللہ بن عقبہ بن مسعود کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر کا خط آیا سیدنا ابن زبیر نے انہیں اپنی طرف سے قاضی مقرر کر رکھا تھا اس خط میں لکھا تھا کہ حمدوصلوۃ کے بعد تم نے مجھ سے داداکا حکم معلوم کرنے کے لئے خط لکھا ہے سو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: اگر میں اپنے رب کے علاوہ اس امت میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا لیکن وہ میرے دینی بھائی ہیں اور رفیق غار ہیں سیدنا صدیق اکبر نے داداکو باپ ہی قرار دیا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس میں جو قول سب سے زیادہ حقیقت کے قریب ہمیں محسوس ہوا وہ سیدنا صدیق اکبر کا ہی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر کو عید کے دن خطبہ سے قبل نماز اور اس کے بعد کھڑے ہو کر لوگوں سے خطاب کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا لوگو یہ سب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہے۔