مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 15950
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد ، قال عبد الله بن احمد: وسمعته انا من عثمان بن محمد بن ابي شيبة ، قال: حدثنا سعيد بن خثيم الهلالي ، قال: سمعت جدتي ربيعة ابنة عياض ، قالت: سمعت جدي عبيدة بن عمرو الكلابي يقول: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" توضا فاسبغ الوضوء". قال: وكانت ربعية إذا توضات اسبغت الوضوء.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قال عبد الله بن أحمد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ خُثَيْمٍ الْهِلَالِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَدَّتِي رَبِيعَةَ ابْنَةَ عِيَاضٍ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ جَدِّي عُبَيْدَةَ بْنَ عَمْرٍو الْكِلَابِيّ يَقُولُ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ". قَالَ: وَكَانَتْ رِبْعِيَّةُ إِذَا تَوَضَّأَتْ أَسْبَغَتْ الْوُضُوءَ.
سیدنا عبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے ہوئے دیکھا آپ نے خوب اچھی طرح مکمل وضو کیا راوی کہتے ہیں میری دادی رابعیہ بھی خوب کامل وضو کر تی تھیں۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 15951
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، قال: حدثني ابي ، قال: حدثنا ليث ، عن طلحة ، عن ابيه ، عن جده ، انه راى رسول الله صلى الله عليه وسلم" يمسح راسه حتى بلغ القذال وما يليه من مقدم العنق مرة". قال: القذال: السالفة العنق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَمْسَحُ رَأْسَهُ حَتَّى بَلَغَ الْقَذَالَ وَمَا يَلِيهِ مِنْ مُقَدَّمِ الْعُنُقِ مَرَّةً". قَالَ: الْقَذَالُ: السَّالِفَةُ الْعُنُقِ.
طلحہ ایامی کے دادا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سر کا مسح اس طرح کرتے ہوئے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گردن کے پچھے حصے تک اور اس کے ساتھ ملے ہوئے اگلے حصے کا ایک مرتبہ مسح کیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مصرف والد طلحة، ولضعف ليث
حدیث نمبر: 15952
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر بن عياش ، قال: حدثنا عاصم بن ابي النجود ، عن الحارث بن حسان البكري ، قال:" قدمنا المدينة، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر، وبلال قائم بين يديه، متقلد السيف بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا رايات سود، وسالت: ما هذه الرايات؟ فقالوا: عمرو بن العاص قدم من غزاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ الْبَكْرِيِّ ، قَالَ:" قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَبِلَالٌ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ، مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذَا رَايَاتٌ سُودٌ، وَسَأَلْتُ: مَا هَذِهِ الرَّايَاتُ؟ فَقَالُوا: عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ قَدِمَ مِنْ غَزَاةٍ".
سیدنا حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ہم لوگ مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر موجود تھے اور آپ کے سامنے سیدنا بلال تلوار لٹکائے کھڑے تھے اور کچھ کالے جھنڈے بھی نظر آرہے تھے میں نے ان جھنڈوں کے متعلق پوچھا: تو لوگوں نے بتایا کہ سیدنا عمرو بن عاص ایک غزوے سے واپس آئے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عاصم بن أبى النجود لم يدرك الحارث بن حسان، بينهما أبو وائل شقيق بن سلمة
حدیث نمبر: 15953
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا سلام ابو المنذر ، عن عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل ، عن الحارث بن حسان ، قال: مررت بعجوز بالربذة منقطع بها من بني تميم، قال: فقال: فقلت: نريد رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: فاحملوني معكم، فإن لي إليه حاجة , قال: فدخلت المسجد، فإذا هو غاص بالناس، وإذا راية سوداء تخفق، فقلت: ما شان الناس اليوم؟ قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد ان يبعث عمرو بن العاص وجها , قال: فقلت: يا رسول الله، إن رايت ان تجعل الدهناء حجازا بيننا وبين بني تميم فافعل، فإنها كانت لنا مرة. قال: فاستوفزت العجوز، واخذتها الحمية، فقالت: يا رسول الله، اين تضطر مضرك؟ قلت: يا رسول الله، حملت هذه ولا اشعر انها كائنة لي خصما , قال: قلت: اعوذ بالله ان اكون كما قال الاول , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وما قال الاول؟" , قال: على الخبير سقطت، يقول سلام: هذا احمق يقول الرسول صلى الله عليه وسلم على الخبير سقطت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هيه" , يستطعمه الحديث , قال: إن عادا ارسلوا وافدهم قيلا، فنزل على معاوية بن بكر شهرا يسقيه الخمر وتغنيه الجرادتان، فانطلق حتى اتى على جبال مهرة، فقال: اللهم إني لم آت لاسير افاديه، ولا لمريض فاداويه، فاسق عبدك ما كنت ساقيه، واسق معاوية بن بكر شهرا يشكر له الخمر التي شربها عنده، قال: فمرت سحابات سود، فنودي ان خذها رمادا رمددا، لا تذر من عاد احدا. قال ابو وائل: فبلغني ان ما ارسل عليهم من الريح كقدر ما يجري في الخاتم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعَجُوزٍ بِالرَّبَذَةِ مُنْقَطِعٌ بِهَا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: فَقَالَ: فَقُلْتُ: نُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَاحْمِلُونِي مَعَكُمْ، فَإِنَّ لِي إِلَيْهِ حَاجَةً , قَالَ: فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ، وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ الْيَوْمَ؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ الدَّهْنَاءَ حِجَازًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ فَافْعَلْ، فَإِنَّهَا كَانَتْ لَنَا مَرَّةً. قَالَ: فَاسْتَوْفَزَتْ الْعَجُوزُ، وَأَخَذَتْهَا الْحَمِيَّةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَائِنَةٌ لِي خَصْمًا , قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْأَوَّلُ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا قَالَ الْأَوَّلُ؟" , قَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، يَقُولُ سَلَّامٌ: هَذَا أَحْمَقُ يَقُولُ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيهْ" , يَسْتَطْعِمُهُ الْحَدِيثَ , قَالَ: إِنَّ عَادًا أَرْسَلُوا وَافِدَهُمْ قَيْلًا، فَنَزَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ شَهْرًا يَسْقِيهِ الْخَمْرَ وَتُغَنِّيهِ الْجَرَادَتَانِ، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى عَلَى جِبَالِ مُهْرَةَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ آتِ لِأَسِيرٍ أُفَادِيهِ، وَلَا لِمَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ، فَاسْقِ عَبْدَكَ مَا كُنْتَ سَاقِيَهُ، وَاسْقِ مُعَاوِيَةَ بْنَ بَكْرٍ شَهْرًا يَشْكُرْ لَهُ الْخَمْرَ الَّتِي شَرِبَهَا عِنْدَهُ، قَالَ: فَمَرَّتْ سَحَابَاتٌ سُودٌ، فَنُودِيَ أَنْ خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا، لَا تَذَرْ مِنْ عَادٍ أَحَدًا. قَالَ أَبُو وَائِلٍ: فَبَلَغَنِي أَنَّ مَا أُرْسِلَ عَلَيْهِمْ مِنَ الرِّيحِ كَقَدْرِ مَا يَجْرِي فِي الْخَاتَمِ.
سیدنا حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گزرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیو کہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کر یں گے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہو جاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا: لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بیان کر و دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور ڈومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لئے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لئے اس کا علاج کر سکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرما دراصل یہ اس شراب کا شکر یہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آ گئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 15954
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثني ابو المنذر سلام بن سليمان النحوي ، قال: حدثنا عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن الحارث بن يزيد البكري ، قال: خرجت اشكو العلاء بن الحضرمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمررت بالربذة، فإذا عجوز من بني تميم منقطع بها، فقالت لي: يا عبد الله، إن لي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجة، فهل انت مبلغي إليه؟ قال: فحملتها، فاتيت المدينة، فإذا المسجد غاص باهله، وإذا راية سوداء تخفق، وبلال متقلد السيف بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما شان الناس؟ قالوا: يريد ان يبعث عمرو بن العاص وجها , قال: فجلست , قال: فدخل منزله او قال رحله فاستاذنت عليه، فاذن لي، فدخلت فسلمت، فقال:" هل كان بينكم وبين بني تميم شيء؟" , قال: فقلت: نعم , قال: وكانت لنا الدبرة عليهم، ومررت بعجوز من بني تميم منقطع بها، فسالتني ان احملها إليك، وههي بالباب، فاذن لها، فدخلت، فقلت: يا رسول الله، إن رايت ان تجعل بيننا وبين بني تميم حاجزا، فاجعل الدهناء، فحميت العجوز، واستوفزت، قالت: يا رسول الله، فإلى اين تضطر مضرك؟ قال: قلت: إنما مثلي ما قال الاول: معزاء حملت حتفها، حملت هذه ولا اشعر انها كانت لي خصما، اعوذ بالله ورسوله ان اكون كوافد عاد , قال:" هيه وما وافد عاد؟" وهو اعلم بالحديث منه، ولكن يستطعمه قلت: إن عادا قحطوا، فبعثوا وافدا لهم يقال له: قيل، فمر بمعاوية بن بكر، فاقام عنده شهرا، يسقيه الخمر، وتغنيه جاريتان، يقال لهما: الجرادتان، فلما مضى الشهر خرج جبال تهامة، فنادى: اللهم إنك تعلم اني لم اجئ إلى مريض فاداويه، ولا إلى اسير فافاديه، اللهم اسق عادا ما كنت تسقيه، فمرت به سحابات سود، فنودي منها اختر , فاوما إلى سحابة منها سوداء، فنودي منها خذها رمادا رمددا، لا تبق من عاد احدا , قال: فما بلغني انه بعث عليهم من الريح إلا قدر ما يجري في خاتمي هذا حتى هلكوا. قال ابو وائل: وصدق. قال: فكانت المراة والرجل إذا بعثوا وافدا لهم قالوا: لا تكن كوافد عاد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمُنْذِرِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّحْوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ الْبَكْرِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ أَشْكُو الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَرْتُ بِالرَّبَذَةِ، فَإِذَا عَجُوزٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا، فَقَالَتْ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَةً، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغِي إِلَيْهِ؟ قَالَ: فَحَمَلْتُهَا، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا الْمَسْجِدُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ، وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ، وَبِلَالٌ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالُوا: يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا , قَالَ: فَجَلَسْتُ , قَالَ: فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ أَوْ قَالَ رَحْلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ:" هَلْ كَانَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ شَيْءٌ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: وَكَانَتْ لَنَا الدَّبْرَةُ عَلَيْهِمْ، وَمَرَرْتُ بِعَجُوزٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا، فَسَأَلَتْنِي أَنْ أَحْمِلَهَا إِلَيْكَ، وَهَهِيَ بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَهَا، فَدَخَلَتْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ حَاجِزًا، فَاجْعَلْ الدَّهْنَاءَ، فَحَمِيَتْ الْعَجُوزُ، وَاسْتَوْفَزَتْ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِلَى أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا مَثَلِي مَا قَالَ الْأَوَّلُ: مِعْزَاءُ حَمَلَتْ حَتْفَهَا، حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَانَتْ لِي خَصْمًا، أَعُوذُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ أَكُونَ كَوَافِدِ عَادٍ , قَالَ:" هِيهْ وَمَا وَافِدُ عَادٍ؟" وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، وَلَكِنْ يَسْتَطْعِمُهُ قُلْتُ: إِنَّ عَادًا قَحَطُوا، فَبَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ يُقَالُ لَهُ: قَيْلٌ، فَمَرَّ بِمُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ، فَأَقَامَ عِنْدَهُ شَهْرًا، يَسْقِيهِ الْخَمْرَ، وَتُغَنِّيهِ جَارِيَتَانِ، يُقَالُ لَهُمَا: الْجَرَادَتَانِ، فَلَمَّا مَضَى الشَّهْرُ خَرَجَ جِبَالَ تِهَامَةَ، فَنَادَى: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَجِئْ إِلَى مَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ، وَلَا إِلَى أَسِيرٍ فَأُفَادِيَهُ، اللَّهُمَّ اسْقِ عَادًا مَا كُنْتَ تَسْقِيهِ، فَمَرَّتْ بِهِ سَحَابَاتٌ سُودٌ، فَنُودِيَ مِنْهَا اخْتَرْ , فَأَوْمَأَ إِلَى سَحَابَةٍ مِنْهَا سَوْدَاءَ، فَنُودِيَ مِنْهَا خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا، لَا تُبْقِ مِنْ عَادٍ أَحَدًا , قَالَ: فَمَا بَلَغَنِي أَنَّهُ بُعِثَ عَلَيْهِمْ مِنَ الرِّيحِ إِلَّا قَدْرَ مَا يَجْرِي فِي خَاتِمِي هَذَا حَتَّى هَلَكُوا. قَالَ أَبُو وَائِلٍ: وَصَدَقَ. قَالَ: فَكَانَتْ الْمَرْأَةُ وَالرَّجُلُ إِذَا بَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ قَالُوا: لَا تَكُنْ كَوَافِدِ عَادٍ.
سیدنا حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گزرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیو کہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کر یں گے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہو جاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا: لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بیان کر و دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور ڈومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لئے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لئے اس کا علاج کر سکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرما دراصل یہ اس شراب کا شکر یہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آ گئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 15955
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: حدثنا سعيد الجريري ، عن ابي السليل ، عن ابي تميمة الهجيمي قال إسماعيل مرة: عن ابي تميمة الهجيمي، عن رجل من قومه، قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض طرق المدينة، وعليه إزار من قطن منتثر الحاشية، فقلت: عليك السلام يا رسول الله، فقال:" إن عليك السلام تحية الموتى، إن عليك السلام تحية الموتى، إن عليك السلام تحية الموتى، سلام عليكم، سلام عليكم" , مرتين او ثلاثا هكذا. قال: سالت عن الإزار، فقلت: اين اتزر؟ فاقنع ظهره بعظم ساقه، وقال:" هاهنا اتزر، فإن ابيت فههنا اسفل من ذلك، فإن ابيت فههنا فوق الكعبين، فإن ابيت، فإن الله عز وجل لا يحب كل مختال فخور"، قال: وسالته عن المعروف، فقال:" لا تحقرن من المعروف شيئا، ولو ان تعطي صلة الحبل، ولو ان تعطي شسع النعل، ولو ان تفرغ من دلوك في إناء المستسقي، ولو ان تنحي الشيء من طريق الناس يؤذيهم، ولو ان تلقى اخاك ووجهك إليه منطلق، ولو ان تلقى اخاك فتسلم عليه، ولو ان تؤنس الوحشان في الارض، وإن سبك رجل بشيء يعلمه فيك وانت تعلم فيه نحوه، فلا تسبه، فيكون اجره لك ووزره عليه، وما سر اذنك ان تسمعه، فاعمل به، وما ساء اذنك ان تسمعه فاجتنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ قَالَ إِسْمَاعِيلُ مرة: عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: لَقِيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْمَدِينَةِ، وَعَلَيْهِ إِزَارٌ مِنْ قُطْنٍ مُنْتَثِرُ الْحَاشِيَةِ، فَقُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامَ تَحِيَّةُ الْمَوْتَى، إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامَ تَحِيَّةُ الْمَوْتَى، إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامَ تَحِيَّةُ الْمَوْتَى، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ" , مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا هَكَذَا. قَالَ: سَأَلْتُ عَنِ الْإِزَارِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ أَتَّزِرُ؟ فَأَقْنَعَ ظَهْرَهُ بِعَظْمِ سَاقِهِ، وَقَالَ:" هَاهُنَا اتَّزِرْ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَهَهُنَا أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَهَهُنَا فَوْقَ الْكَعْبَيْنِ، فَإِنْ أَبَيْتَ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"، قَالَ: وَسَأَلْتُهُ عَنِ الْمَعْرُوفِ، فَقَالَ:" لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، وَلَوْ أَنْ تُعْطِيَ صِلَةَ الْحَبْلِ، وَلَوْ أَنْ تُعْطِيَ شِسْعَ النَّعْلِ، وَلَوْ أَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَلَوْ أَنْ تُنَحِّيَ الشَّيْءَ مِنْ طَرِيقِ النَّاسِ يُؤْذِيهِمْ، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ وَوَجْهُكَ إِلَيْهِ مُنْطَلِقٌ، وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ فَتُسَلِّمَ عَلَيْهِ، وَلَوْ أَنْ تُؤْنِسَ الْوُحْشَانَ فِي الْأَرْضِ، وَإِنْ سَبَّكَ رَجُلٌ بِشَيْءٍ يَعْلَمُهُ فِيكَ وَأَنْتَ تَعْلَمُ فِيهِ نَحْوَهُ، فَلَا تَسُبَّهُ، فَيَكُونَ أَجْرُهُ لَكَ وَوِزْرُهُ عَلَيْهِ، وَمَا سَرَّ أُذُنَكَ أَنْ تَسْمَعَهُ، فَاعْمَلْ بِهِ، وَمَا سَاءَ أُذُنَكَ أَنْ تَسْمَعَهُ فَاجْتَنِبْهُ".
سیدنا ابوتمیمہ ہجیمی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے کسی راستے میں میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اون کا بنا ہوا تہبند جس کے کنارے پھولے ہوئے تھے باندھ رکھا تھا میں نے سلام کرتے ہوئے کہا علیک السلام یا رسول اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علیک السلام تو مردوں کو سلام ہے پھر میں نے تہبند کے حوالے سے پوچھا کہ میں تہبند کہاں تک باندھا کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پنڈلی کی ہڈی سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا کہ یہاں تک باندھا کر و اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر اس سے ذرا نیچے باندھ لیا کر و اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو یہاں ٹخنوں تک باندھ لیا کر و اگر ایسا بھی نہیں کر سکتے تو پھر اللہ کسی شیخی خورے متکبر کو پسند نہیں کرتا۔ پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی کے متعلق پوچھا: تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھا کر و اگرچہ کسی کو ایک رسی ہی دو یا کسی کو جوتی کا تسمہ ہی دو یا اپنے ڈول میں سے کسی کو پانی مانگنے والے برتن میں پانی کھینچ کر ڈال دیا کر و یا راستے میں سے کوئی ایسی چیز دور کر دو جس سے انہیں تکلیف ہو رہی ہو یا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملو یا اپنے بھائی سے ملاقات کر کے اسے سلام کر و یا زمین میں اجنبی سمجھ جانے والوں سے انس و محبت ظاہر کر و اور گر کوئی آدمی تمہیں گالی دے اور ایسی چیز کا طعنہ دے جس کا تمہاری ذات کے حوالے سے علم ہواسے تو بھی اسی قسم کے کسی عیب کے بارے میں جانتے ہو تو تم اسے اس عیب کا طعنہ نہ دو یہ تمہارے لے باعث اجر اور اس کے لئے باعث وبال ہو گا اور جس چیز کو تمہارے کان سننا پسند کر یں اس پر عمل کر لو اور جس چیز کو سننا تمہارے کانوں کو پسند نہ ہواس سے اجتناب کر و۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 15956
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، عن عبد الرحمن بن صحار العبدي ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقوم الساعة حتى يخسف بقبائل، فيقال: من بقي من بني فلان"، قال: فعرفت حين قال: قبائل انها العرب، لان العجم تنسب إلى قراها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صُحَارٍ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُخْسَفَ بِقَبَائِلَ، فَيُقَالُ: مَنْ بَقِيَ مِنْ بَنِي فُلَانٍ"، قَالَ: فَعَرَفْتُ حِينَ قَالَ: قَبَائِلَ أَنَّهَا الْعَرَبُ، لِأَنَّ الْعَجَمَ تُنْسَبُ إِلَى قُرَاهَا.
سیدنا صحار عبدی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کچھ قبائل کو زمین میں دھنسا نہ دیا جائے اور لوگ پوچھنے لگیں فلاں قبیلے میں سے کتنے لوگ باقی بچے ہیں میں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبائل کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو میں سمجھ گیا کہ اس سے مراد اہل عرب ہیں کیونکہ عجمیوں کو ان کے شہروں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن صحار مجهول
حدیث نمبر: 15957
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الطيالسي ، قال: وحدثنا الضحاك بن يسار ، قال: حدثنا يزيد بن عبد الله بن الشخير ، قال: حدثنا عبد الرحمن بن صحار العبدي ، عن ابيه ، قال: استاذنت النبي صلى الله عليه وسلم ان ياذن لي في جرة انتبذ فيها،" فرخص لي فيها"، او اذن لي فيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ يَسَارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صُحَارٍ الْعَبْدِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْذَنَ لِي فِي جَرَّةٍ أَنْتَبِذُ فِيهَا،" فَرَخَّصَ لِي فِيهَا"، أَوْ أَذِنَ لِي فِيهَا.
سیدنا صحار عبدی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی مجھے مٹکے میں نبیذ بنانے کی اجازت دیدو چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دیدی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن صحار ، والضحاك بن يسار مختلف فيه، ضعفه غير واحد
حدیث نمبر: 15958
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، قال: حدثنا ابو عقيل يعني الثقفي عبد الله بن عقيل ، حدثنا موسى بن المسيب ، اخبرني سالم بن ابي الجعد ، عن سبرة بن ابي فاكه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الشيطان قعد لابن آدم باطرقه، فقعد له بطريق الإسلام، فقال له: اتسلم وتذر دينك، ودين آبائك، وآباء ابيك؟ قال: فعصاه فاسلم، ثم قعد له بطريق الهجرة، فقال: اتهاجر وتذر ارضك وسماءك؟ وإنما مثل المهاجر كمثل الفرس في الطول، قال: فعصاه فهاجر، قال: ثم قعد له بطريق الجهاد، فقال له: هو جهد النفس والمال، فتقاتل فتقتل، فتنكح المراة، ويقسم المال، قال: فعصاه فجاهد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فمن فعل ذلك منهم، فمات، كان حقا على الله ان يدخله الجنة، او قتل كان حقا على الله عز وجل ان يدخله الجنة، وإن غرق كان حقا على الله ان يدخله الجنة، او وقصته دابته كان حقا على الله ان يدخله الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيلٍ يَعْنِي الثَّقَفِيَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَقِيلٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ سَبْرَةَ بْنِ أَبِي فَاكِهٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ قَعَدَ لِابْنِ آدَمَ بِأَطْرُقِهِ، فَقَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ لَهُ: أَتُسْلِمُ وَتَذَرُ دِينَكَ، وَدِينَ آبَائِكَ، وَآبَاءِ أَبِيكَ؟ قَالَ: فَعَصَاهُ فَأَسْلَمَ، ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: أَتُهَاجِرُ وَتَذَرُ أَرْضَكَ وَسَمَاءَكَ؟ وَإِنَّمَا مَثَلُ الْمُهَاجِرِ كَمَثَلِ الْفَرَسِ فِي الطِّوَلِ، قَالَ: فَعَصَاهُ فَهَاجَرَ، قَالَ: ثُمَّ قَعَدَ لَهُ بِطَرِيقِ الْجِهَادِ، فَقَالَ لَهُ: هُوَ جَهْدُ النَّفْسِ وَالْمَالِ، فَتُقَاتِلُ فَتُقْتَلُ، فَتُنْكَحُ الْمَرْأَةُ، وَيُقَسَّمُ الْمَالُ، قَالَ: فَعَصَاهُ فَجَاهَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ مِنْهُمْ، فَمَاتَ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ قُتِلَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَإِنْ غَرِقَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، أَوْ وَقَصَتْهُ دَابَّتُهُ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ".
سیدنا سبرہ بن ابی فاکہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف راستوں میں بیٹھا ہوتا ہے پہلے اسلام کے راستے میں بیٹھتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ کیا تو اسلام قبول کر کے اپنا اور اپنے اباؤ اجداد کا دین ترک کر دے گا وہ اس کی نافرمانی کر کے اسلام قبول کر لیتا ہے تو شیطان ہجرت کے راستے میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تو ہجرت کر کے اپنے زمین اور آسمان کو چھوڑ کر چلا جائے گا مہاجر کی مثال تو لمبائی میں گھوڑے جیسی ہے وہ پھر اس کی نافرمانی کر کے ہجرت کر جاتا ہے پھر شیطان جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس سے جان مال دونوں کو خطرہ ہے تو لڑائی میں شرکت کرتا ہے اور مارا جائے گا تیری بیوی سے کوئی اور نکاح کر لے گا اور تیرے مال کا بٹوارہ ہو جائے گا لیکن وہ اس کی نافرمانی کر کے اور جہاد کے لئے چلا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ کام کر کے فوت ہو جائے تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر ے اگر وہ شہید ہو جائے یا سمندر میں ڈوب جائے یا جانور سے گر کر فوت ہو جائے تب بھی اللہ کے ذمے حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر ے۔

حكم دارالسلام: إسناده قوي
حدیث نمبر: 15959
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام بن عروة ، قال: اخبرني ابي , عن عبد الله بن ارقم ، انه حج، فكان يصلي باصحابه يؤذن ويقيم، فاقام يوما الصلاة، وقال: ليصل احدكم، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا اراد احدكم ان يذهب إلى الخلاء واقيمت الصلاة، فليذهب إلى الخلاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ ، أَنَّهُ حَجَّ، فَكَانَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ، فَأَقَامَ يَوْمًا الصَّلَاةَ، وَقَالَ: لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَذْهَبَ إِلَى الْخَلَاءِ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ، فَلْيَذْهَبْ إِلَى الْخَلَاءِ".
سیدنا عبداللہ بن ارقم ایک مرتبہ حج پر گئے وہ خود ہی اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے اور اذان دیتے اور اقامت کہتے تھے ایک دن اقامت کہنے لگے تو فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص آگے بڑھ کر نماز پڑھا دے کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر نماز کھڑی ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس کر ے تو اسے چاہیے کہ بیت الخلا پہلے جائے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح

Previous    63    64    65    66    67    68    69    70    71    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.