مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
240. حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ الْبَكْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 15954
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا زيد بن الحباب ، قال: حدثني ابو المنذر سلام بن سليمان النحوي ، قال: حدثنا عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن الحارث بن يزيد البكري ، قال: خرجت اشكو العلاء بن الحضرمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمررت بالربذة، فإذا عجوز من بني تميم منقطع بها، فقالت لي: يا عبد الله، إن لي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجة، فهل انت مبلغي إليه؟ قال: فحملتها، فاتيت المدينة، فإذا المسجد غاص باهله، وإذا راية سوداء تخفق، وبلال متقلد السيف بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ما شان الناس؟ قالوا: يريد ان يبعث عمرو بن العاص وجها , قال: فجلست , قال: فدخل منزله او قال رحله فاستاذنت عليه، فاذن لي، فدخلت فسلمت، فقال:" هل كان بينكم وبين بني تميم شيء؟" , قال: فقلت: نعم , قال: وكانت لنا الدبرة عليهم، ومررت بعجوز من بني تميم منقطع بها، فسالتني ان احملها إليك، وههي بالباب، فاذن لها، فدخلت، فقلت: يا رسول الله، إن رايت ان تجعل بيننا وبين بني تميم حاجزا، فاجعل الدهناء، فحميت العجوز، واستوفزت، قالت: يا رسول الله، فإلى اين تضطر مضرك؟ قال: قلت: إنما مثلي ما قال الاول: معزاء حملت حتفها، حملت هذه ولا اشعر انها كانت لي خصما، اعوذ بالله ورسوله ان اكون كوافد عاد , قال:" هيه وما وافد عاد؟" وهو اعلم بالحديث منه، ولكن يستطعمه قلت: إن عادا قحطوا، فبعثوا وافدا لهم يقال له: قيل، فمر بمعاوية بن بكر، فاقام عنده شهرا، يسقيه الخمر، وتغنيه جاريتان، يقال لهما: الجرادتان، فلما مضى الشهر خرج جبال تهامة، فنادى: اللهم إنك تعلم اني لم اجئ إلى مريض فاداويه، ولا إلى اسير فافاديه، اللهم اسق عادا ما كنت تسقيه، فمرت به سحابات سود، فنودي منها اختر , فاوما إلى سحابة منها سوداء، فنودي منها خذها رمادا رمددا، لا تبق من عاد احدا , قال: فما بلغني انه بعث عليهم من الريح إلا قدر ما يجري في خاتمي هذا حتى هلكوا. قال ابو وائل: وصدق. قال: فكانت المراة والرجل إذا بعثوا وافدا لهم قالوا: لا تكن كوافد عاد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الْمُنْذِرِ سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّحْوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ الْبَكْرِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ أَشْكُو الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَرْتُ بِالرَّبَذَةِ، فَإِذَا عَجُوزٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا، فَقَالَتْ لِي: يَا عَبْدَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَةً، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغِي إِلَيْهِ؟ قَالَ: فَحَمَلْتُهَا، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَإِذَا الْمَسْجِدُ غَاصٌّ بِأَهْلِهِ، وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ، وَبِلَالٌ مُتَقَلِّدٌ السَّيْفَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ؟ قَالُوا: يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا , قَالَ: فَجَلَسْتُ , قَالَ: فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ أَوْ قَالَ رَحْلَهُ فَاسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ، فَأَذِنَ لِي، فَدَخَلْتُ فَسَلَّمْتُ، فَقَالَ:" هَلْ كَانَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ شَيْءٌ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ , قَالَ: وَكَانَتْ لَنَا الدَّبْرَةُ عَلَيْهِمْ، وَمَرَرْتُ بِعَجُوزٍ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ مُنْقَطِعٌ بِهَا، فَسَأَلَتْنِي أَنْ أَحْمِلَهَا إِلَيْكَ، وَهَهِيَ بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَهَا، فَدَخَلَتْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ حَاجِزًا، فَاجْعَلْ الدَّهْنَاءَ، فَحَمِيَتْ الْعَجُوزُ، وَاسْتَوْفَزَتْ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِلَى أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: إِنَّمَا مَثَلِي مَا قَالَ الْأَوَّلُ: مِعْزَاءُ حَمَلَتْ حَتْفَهَا، حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَانَتْ لِي خَصْمًا، أَعُوذُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ أَنْ أَكُونَ كَوَافِدِ عَادٍ , قَالَ:" هِيهْ وَمَا وَافِدُ عَادٍ؟" وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، وَلَكِنْ يَسْتَطْعِمُهُ قُلْتُ: إِنَّ عَادًا قَحَطُوا، فَبَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ يُقَالُ لَهُ: قَيْلٌ، فَمَرَّ بِمُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ، فَأَقَامَ عِنْدَهُ شَهْرًا، يَسْقِيهِ الْخَمْرَ، وَتُغَنِّيهِ جَارِيَتَانِ، يُقَالُ لَهُمَا: الْجَرَادَتَانِ، فَلَمَّا مَضَى الشَّهْرُ خَرَجَ جِبَالَ تِهَامَةَ، فَنَادَى: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَجِئْ إِلَى مَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ، وَلَا إِلَى أَسِيرٍ فَأُفَادِيَهُ، اللَّهُمَّ اسْقِ عَادًا مَا كُنْتَ تَسْقِيهِ، فَمَرَّتْ بِهِ سَحَابَاتٌ سُودٌ، فَنُودِيَ مِنْهَا اخْتَرْ , فَأَوْمَأَ إِلَى سَحَابَةٍ مِنْهَا سَوْدَاءَ، فَنُودِيَ مِنْهَا خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا، لَا تُبْقِ مِنْ عَادٍ أَحَدًا , قَالَ: فَمَا بَلَغَنِي أَنَّهُ بُعِثَ عَلَيْهِمْ مِنَ الرِّيحِ إِلَّا قَدْرَ مَا يَجْرِي فِي خَاتِمِي هَذَا حَتَّى هَلَكُوا. قَالَ أَبُو وَائِلٍ: وَصَدَقَ. قَالَ: فَكَانَتْ الْمَرْأَةُ وَالرَّجُلُ إِذَا بَعَثُوا وَافِدًا لَهُمْ قَالُوا: لَا تَكُنْ كَوَافِدِ عَادٍ.
سیدنا حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گزرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیو کہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کر یں گے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہو جاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا: لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بیان کر و دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور ڈومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لئے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لئے اس کا علاج کر سکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرما دراصل یہ اس شراب کا شکر یہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آ گئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.