(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا سلام ابو المنذر ، عن عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل ، عن الحارث بن حسان ، قال: مررت بعجوز بالربذة منقطع بها من بني تميم، قال: فقال: فقلت: نريد رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: فاحملوني معكم، فإن لي إليه حاجة , قال: فدخلت المسجد، فإذا هو غاص بالناس، وإذا راية سوداء تخفق، فقلت: ما شان الناس اليوم؟ قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد ان يبعث عمرو بن العاص وجها , قال: فقلت: يا رسول الله، إن رايت ان تجعل الدهناء حجازا بيننا وبين بني تميم فافعل، فإنها كانت لنا مرة. قال: فاستوفزت العجوز، واخذتها الحمية، فقالت: يا رسول الله، اين تضطر مضرك؟ قلت: يا رسول الله، حملت هذه ولا اشعر انها كائنة لي خصما , قال: قلت: اعوذ بالله ان اكون كما قال الاول , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وما قال الاول؟" , قال: على الخبير سقطت، يقول سلام: هذا احمق يقول الرسول صلى الله عليه وسلم على الخبير سقطت، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هيه" , يستطعمه الحديث , قال: إن عادا ارسلوا وافدهم قيلا، فنزل على معاوية بن بكر شهرا يسقيه الخمر وتغنيه الجرادتان، فانطلق حتى اتى على جبال مهرة، فقال: اللهم إني لم آت لاسير افاديه، ولا لمريض فاداويه، فاسق عبدك ما كنت ساقيه، واسق معاوية بن بكر شهرا يشكر له الخمر التي شربها عنده، قال: فمرت سحابات سود، فنودي ان خذها رمادا رمددا، لا تذر من عاد احدا. قال ابو وائل: فبلغني ان ما ارسل عليهم من الريح كقدر ما يجري في الخاتم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامٌ أَبُو الْمُنْذِرِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعَجُوزٍ بِالرَّبَذَةِ مُنْقَطِعٌ بِهَا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: فَقَالَ: فَقُلْتُ: نُرِيدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: فَاحْمِلُونِي مَعَكُمْ، فَإِنَّ لِي إِلَيْهِ حَاجَةً , قَالَ: فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا هُوَ غَاصٌّ بِالنَّاسِ، وَإِذَا رَايَةٌ سَوْدَاءُ تَخْفِقُ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ الْيَوْمَ؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَبْعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ وَجْهًا , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تَجْعَلَ الدَّهْنَاءَ حِجَازًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي تَمِيمٍ فَافْعَلْ، فَإِنَّهَا كَانَتْ لَنَا مَرَّةً. قَالَ: فَاسْتَوْفَزَتْ الْعَجُوزُ، وَأَخَذَتْهَا الْحَمِيَّةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَضْطَرُّ مُضَرَكَ؟ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَمَلْتُ هَذِهِ وَلَا أَشْعُرُ أَنَّهَا كَائِنَةٌ لِي خَصْمًا , قَالَ: قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ كَمَا قَالَ الْأَوَّلُ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَمَا قَالَ الْأَوَّلُ؟" , قَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، يَقُولُ سَلَّامٌ: هَذَا أَحْمَقُ يَقُولُ الرَّسُولُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيهْ" , يَسْتَطْعِمُهُ الْحَدِيثَ , قَالَ: إِنَّ عَادًا أَرْسَلُوا وَافِدَهُمْ قَيْلًا، فَنَزَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ بَكْرٍ شَهْرًا يَسْقِيهِ الْخَمْرَ وَتُغَنِّيهِ الْجَرَادَتَانِ، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى عَلَى جِبَالِ مُهْرَةَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي لَمْ آتِ لِأَسِيرٍ أُفَادِيهِ، وَلَا لِمَرِيضٍ فَأُدَاوِيَهُ، فَاسْقِ عَبْدَكَ مَا كُنْتَ سَاقِيَهُ، وَاسْقِ مُعَاوِيَةَ بْنَ بَكْرٍ شَهْرًا يَشْكُرْ لَهُ الْخَمْرَ الَّتِي شَرِبَهَا عِنْدَهُ، قَالَ: فَمَرَّتْ سَحَابَاتٌ سُودٌ، فَنُودِيَ أَنْ خُذْهَا رَمَادًا رِمْدِدًا، لَا تَذَرْ مِنْ عَادٍ أَحَدًا. قَالَ أَبُو وَائِلٍ: فَبَلَغَنِي أَنَّ مَا أُرْسِلَ عَلَيْهِمْ مِنَ الرِّيحِ كَقَدْرِ مَا يَجْرِي فِي الْخَاتَمِ.
سیدنا حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گزرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں
میں نے آگے بڑھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے اور بنوتمیم کے درمیان حجاز کو بیان قرار دیدیں کیو کہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کر یں گے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہو جاؤں جیسے پہلوں نے کہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا: کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا: لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بیان کر و دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا: قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انہیں شراب پلاتا تھا اور ڈومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لئے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لئے اس کا علاج کر سکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرما دراصل یہ اس شراب کا شکر یہ تھا جو و وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتارہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آ گئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو۔