(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: ابو إسحاق انبانا، عن الاسود ، عن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قرا سورة النجم فسجد"، وما بقي احد من القوم إلا سجد، إلا رجلا رفع كفا من حصى، فوضعه على وجهه، وقال: يكفيني هذا. قال عبد الله: لقد رايته بعد ذلك قتل كافرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَبُو إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ"، وَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ، إِلَّا رَجُلًا رَفَعَ كَفًّا مِنْ حَصًى، فَوَضَعَهُ عَلَى وَجْهِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کے آخر میں سجدہ تلاوت کیا اور تمام مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا، سوائے قریش کے ایک آدمی کے جس نے ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی کی طرف بڑھا کر اس پر سجدہ کر لیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعد میں میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں مارا گیا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں ہیں جن میں سے ایک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور دوسری میں اپنی طرف سے کہتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ ”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا،“ اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، فإن ذلك يحزنه، ولا تباشر المراة المراة، ثم تنعتها لزوجها، حتى كانه ينظر إليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يَحْزُنُهُ، وَلَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ تَنْعَتُهَا لِزَوْجِهَا، حَتَّى كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا، اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اپنا برہنہ جسم نہ لگائے کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی جسمانی ساخت اس طرح سے بیان کرے کہ گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، القسم الأول منه أخرجه البخاري: 6290 و 2184، وقسمه الثاني أخرجه أبو نعيم فى تاريخ أصبهان 1 / 328 .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن عبد الله ، قال: قلنا: يا رسول الله، ارايت ما عملنا في الشرك، نؤاخذ به؟ قال:" من احسن منكم في الإسلام، لم يؤاخذ بما عمل في الشرك، ومن اساء منكم في الإسلام، اخذ بما عمل في الشرك والإسلام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ مَا عَمِلْنَا فِي الشِّرْكِ، نُؤَاخَذُ بِهِ؟ قَالَ:" مَنْ أَحْسَنَ مِنْكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الشِّرْكِ، وَمَنْ أَسَاءَ مِنْكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذَ بِمَا عَمِلَ فِي الشِّرْكِ وَالْإِسْلَامِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا زمانہ جاہلیت کے اعمال پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لو تو زمانہ جاہلیت کے اعمال پر تمہارا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا، لیکن اگر اسلام کی حالت میں برے اعمال کرتے رہے تو پہلے اور پچھلے سب کا مؤاخذہ ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، انه قال: إني لاخبر بجماعتكم، فيمنعني الخروج إليكم خشية ان املكم، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتخولنا في الايام بالموعظة، خشية السآمة علينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي لَأُخْبَرُ بِجَمَاعَتِكُمْ، فَيَمْنَعُنِي الْخُرُوجَ إِلَيْكُمْ خَشْيَةُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَخَوَّلُنَا فِي الْأَيَّامِ بِالْمَوْعِظَةِ، خَشْيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
ایک دن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں، میں آپ کے پاس صرف اس وجہ سے نہیں آیا کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصیحت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل ، عن ابي وائل ، قال: غدونا على عبد الله بن مسعود ذات يوم بعد صلاة الغداة، فسلمنا بالباب، فاذن لنا، فقال رجل من القوم: قرات المفصل البارحة كله، فقال: هذا كهذ الشعر! إنا قد سمعنا القراءة،" وإني لاحفظ القرائن التي كان يقرا بهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثماني عشرة سورة من المفصل، وسورتين من آل حم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ذَاتَ يَوْمٍ بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأُذِنَ لَنَا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَةَ كُلَّهُ، فَقَالَ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ! إِنَّا قَدْ سَمِعْنَا الْقِرَاءَةَ،" وَإِنِّي لَأَحْفَظُ الْقَرَائِنَ الَّتِي كَانَ يَقْرَأُ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ، وَسُورَتَيْنِ مِنْ آلِ حم".
ابووائل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ فجر کی نماز کے بعد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دروازے پر کھڑے ہو کر انہیں سلام کیا، ہمیں اجازت مل گئی، ایک آدمی کہنے لگا کہ میں ایک رات میں مفصلات پڑھ لیتا ہوں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اشعار کی طرح؟ میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں، جن میں سے اٹھارہ سورتیں مفصلات میں ہیں اور دو سورتیں آل حم میں ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل الاحدب ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قلت: يا رسول الله، اي الإثم اعظم؟ قال:" ان تجعل لله ندا وهو خلقك"، قلت: يا رسول الله، ثم ماذا؟ قال:" ثم ان تزاني حليلة جارك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْإِثْمِ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ:" ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا بالخصوص جبکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے“، میں نے کہا: اس کے بعد کونسا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا: ”اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، انه قال: كنت غلاما يافعا ارعى غنما لعقبة بن ابي معيط، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر، رضي الله تعالى عنه، وقد فرا من المشركين، فقالا: يا غلام، هل عندك من لبن تسقينا؟ قلت: إني مؤتمن، ولست ساقيكما. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هل عندك من جذعة لم ينز عليها الفحل؟". قلت: نعم، فاتيتهما بها،" فاعتقلها النبي صلى الله عليه وسلم ومسح الضرع، ودعا، فحفل الضرع، ثم اتاه ابو بكر بصخرة منقعرة، فاحتلب فيها، فشرب وشرب ابو بكر، ثم شربت، ثم قال للضرع:" اقلص". فقلص. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فاتيته بعد ذلك، فقلت: علمني من هذا القول؟ قال:" إنك غلام معلم"، قال:" فاخذت من فيه سبعين سورة، لا ينازعني فيها احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا يَافِعًا أَرْعَى غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَا: يَا غُلَامُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِينَا؟ قُلْتُ: إِنِّي مُؤْتَمَنٌ، وَلَسْتُ سَاقِيَكُمَا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ عِنْدَكَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ يَنْزُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ؟". قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَتَيْتُهُمَا بِهَا،" فَاعْتَقَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ الضَّرْعَ، وَدَعَا، فَحَفَلَ الضَّرْعُ، ثُمَّ أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِصَخْرَةٍ مُنْقَعِرَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيهَا، فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ:" اقْلِصْ". فَقَلَصَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَأَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ؟ قَالَ:" إِنَّكَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ"، قَالَ:" فَأَخَذْتُ مِنْ فِيهِ سَبْعِينَ سُورَةً، لَا يُنَازِعُنِي فِيهَا أَحَدٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مشرکین سے بچ کر نکلتے ہوئے میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اے لڑکے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں اس پر امین ہوں، لہذا میں آپ کو کچھ پلا نہیں سکوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی ایسی بکری تمہارے پاس ہے جس پر نر جانور نہ کودا ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی بکری لے کر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی تو اس میں دودھ اتر آیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر سے کھوکھلا ایک پتھر لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس میں دوہا، خود بھی پیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا، اور میں نے بھی پیا، پھر تھن سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”سکڑ جاؤ“، چنانچہ وہ تھن دوبارہ سکڑ گئے، تھوڑی دیر بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بھی یہ بات سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے دعا دی کہ ”اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، تم سمجھدار بچے ہو“، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے ستر سورتیں یاد کی ہیں جن میں مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں کر سکتا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، لیکن وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں، اور تمہارا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن الشعبي ، عن ابن مسعود ، ان النساء كن يوم احد خلف المسلمين، يجهزن على جرحى المشركين، فلو حلفت يومئذ رجوت ان ابر إنه ليس احد منا يريد الدنيا، حتى انزل الله عز وجل: منكم من يريد الدنيا ومنكم من يريد الآخرة ثم صرفكم عنهم ليبتليكم سورة آل عمران آية 152،" فلما خالف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وعصوا ما امروا به، افرد رسول الله صلى الله عليه وسلم في تسعة، سبعة من الانصار، ورجلين من قريش، وهو عاشرهم، فلما رهقوه، قال:" رحم الله رجلا، ردهم عنا" قال: فقام رجل من الانصار، فقاتل ساعة حتى قتل، فلما رهقوه ايضا، قال:" يرحم الله رجلا ردهم عنا"، فلم يزل يقول ذا، حتى قتل السبعة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبيه:" ما انصفنا اصحابنا"، فجاء ابو سفيان، فقال: اعل هبل. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا: الله اعلى واجل"، فقالوا: الله اعلى واجل، فقال ابو سفيان: لنا عزى، ولا عزى لكم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا الله مولانا، والكافرون لا مولى لهم"، ثم قال ابو سفيان: يوم بيوم بدر، يوم لنا، ويوم علينا، ويوم نساء، ويوم نسر، حنظلة بحنظلة، وفلان بفلان، وفلان بفلان. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا سواء، اما قتلانا فاحياء يرزقون، وقتلاكم في النار يعذبون". قال ابو سفيان: قد كانت في القوم مثلة، وإن كانت لعن غير ملإ منا، ما امرت ولا نهيت، ولا احببت ولا كرهت، ولا ساءني ولا سرني، قال: فنظروا، فإذا حمزة قد بقر بطنه، واخذت هند كبده فلاكتها، فلم تستطع ان تاكلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ااكلت منه شيئا؟" قالوا: لا، قال:" ما كان الله ليدخل شيئا من حمزة النار". فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم حمزة، فصلى عليه، وجيء برجل من الانصار، فوضع إلى جنبه، فصلى عليه، فرفع الانصاري، وترك حمزة، ثم جيء بآخر فوضعه إلى جنب حمزة، فصلى عليه، ثم رفع وترك حمزة، حتى صلى عليه يومئذ سبعين صلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ النِّسَاءَ كُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِينَ، يُجْهِزْنَ عَلَى جَرْحَى الْمُشْرِكِينَ، فَلَوْ حَلَفْتُ يَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَّا يُرِيدُ الدُّنْيَا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ سورة آل عمران آية 152،" فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِهِ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِسْعَةٍ، سَبْعَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُوَ عَاشِرُهُمْ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ، قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا، رَدَّهُمْ عَنَّا" قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَاتَلَ سَاعَةً حَتَّى قُتِلَ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ أَيْضًا، قَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ رَجُلًا رَدَّهُمْ عَنَّا"، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَا، حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ:" مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا"، فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: اعْلُ هُبَلُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ"، فَقَالُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: لَنَا عُزَّى، وَلَا عُزَّى لَكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَالْكَافِرُونَ لَا مَوْلَى لَهُمْ"، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، يَوْمٌ لَنَا، وَيَوْمٌ عَلَيْنَا، وَيَوْمٌ نُسَاءُ، وَيَوْمٌ نُسَرُّ، حَنْظَلَةُ بِحَنْظَلَةَ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا سَوَاءً، أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاكُمْ فِي النَّارِ يُعَذَّبُونَ". قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: قَدْ كَانَتْ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ لَعَنْ غَيْرِ مَلَإٍ مِنَّا، مَا أََمَرْتُ وَلَا نَهَيْتُ، وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا كَرِهْتُ، وَلَا سَاءَنِي وَلَا سَرَّنِي، قَالَ: فَنَظَرُوا، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا؟" قَالُوا: لَا، قَالَ:" مَا كَانَ اللَّهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ". فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمْزَةَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَجِيءَ بِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَوُضِعَ إِلَى جَنْبِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِيُّ، وَتُرِكَ حَمْزَةُ، ثُمَّ جِيءَ بِآخَرَ فَوَضَعَهُ إِلَى جَنْبِ حَمْزَةَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِكَ حَمْزَةُ، حَتَّى صَلَّى عَلَيْهِ يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ صَلَاةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور مشرکین کے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، اگر میں قسم کھا کر کہوں تو میری قسم صحیح ہو گی (اور میں اس میں حانث نہیں ہوں گا) کہ اس دن ہم میں سے کوئی شخص دنیا کا خواہش مند نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ﴾»[آل عمران: 152]”تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض لوگ آخرت، پھر اللہ نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حکم نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو افراد کے درمیان تنہا رہ گئے، جن میں سات انصاری اور دو قریشی تھے، دسویں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جب مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجوم کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو انہیں ہم سے دور کرے“، یہ سن کر ایک انصاری آگے بڑھا، کچھ دیر قتال کیا اور شہید ہو گیا، اسی طرح ایک ایک کر کے ساتوں انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔“ تھوڑی دیر بعد ابوسفیان آیا (جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا) اور ہبل کی جے کاری کا نعرہ لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے جواب دو کہ اللہ ہی بلند و برتر اور بزرگ ہے“، ابوسفیان کہنے لگا کہ ہمارے پاس عزی ہے، تمہارا کوئی عزی نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے جواب دو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں“، پھر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن جنگ بدر کا بدلہ ہے، ایک دن ہمارا اور ایک دن ہم پر، ایک دن ہمیں تکلیف ہوئی اور ایک دن ہم خوش ہوئے، حنظلہ حنظلہ کے بدلے، فلاں فلاں کے بدلے، اور فلاں فلاں کے بدلے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں اور ہم میں پھر بھی کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتولین جہنم کی آگ میں سزا پاتے ہیں۔“ پھر ابوسفیان نے کہا کہ کچھ لوگوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا ہے، یہ ہمارے سرداروں کا کام نہیں ہے، میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے روکا، میں اسے پسند کرتا ہوں اور نہ ہی ناگواری ظاہر کرتا ہوں، مجھے یہ برا لگا اور نہ ہی خوشی ہوئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا، اور ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا: ”کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں کرنا چاہتا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر انصاری کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور جنازہ لا کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، اس طرح اس دن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ ادا کی گئی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يسمع من عبد الله بن مسعود.