(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، انه قال: كنت غلاما يافعا ارعى غنما لعقبة بن ابي معيط، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم وابو بكر، رضي الله تعالى عنه، وقد فرا من المشركين، فقالا: يا غلام، هل عندك من لبن تسقينا؟ قلت: إني مؤتمن، ولست ساقيكما. فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" هل عندك من جذعة لم ينز عليها الفحل؟". قلت: نعم، فاتيتهما بها،" فاعتقلها النبي صلى الله عليه وسلم ومسح الضرع، ودعا، فحفل الضرع، ثم اتاه ابو بكر بصخرة منقعرة، فاحتلب فيها، فشرب وشرب ابو بكر، ثم شربت، ثم قال للضرع:" اقلص". فقلص. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فاتيته بعد ذلك، فقلت: علمني من هذا القول؟ قال:" إنك غلام معلم"، قال:" فاخذت من فيه سبعين سورة، لا ينازعني فيها احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ غُلَامًا يَافِعًا أَرْعَى غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، وَقَدْ فَرَّا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَا: يَا غُلَامُ، هَلْ عِنْدَكَ مِنْ لَبَنٍ تَسْقِينَا؟ قُلْتُ: إِنِّي مُؤْتَمَنٌ، وَلَسْتُ سَاقِيَكُمَا. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ عِنْدَكَ مِنْ جَذَعَةٍ لَمْ يَنْزُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ؟". قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَتَيْتُهُمَا بِهَا،" فَاعْتَقَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ الضَّرْعَ، وَدَعَا، فَحَفَلَ الضَّرْعُ، ثُمَّ أَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ بِصَخْرَةٍ مُنْقَعِرَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيهَا، فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ شَرِبْتُ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ:" اقْلِصْ". فَقَلَصَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَأَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ؟ قَالَ:" إِنَّكَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ"، قَالَ:" فَأَخَذْتُ مِنْ فِيهِ سَبْعِينَ سُورَةً، لَا يُنَازِعُنِي فِيهَا أَحَدٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مشرکین سے بچ کر نکلتے ہوئے میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اے لڑکے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: میں اس پر امین ہوں، لہذا میں آپ کو کچھ پلا نہیں سکوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی ایسی بکری تمہارے پاس ہے جس پر نر جانور نہ کودا ہو؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی بکری لے کر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی تو اس میں دودھ اتر آیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر سے کھوکھلا ایک پتھر لے آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس میں دوہا، خود بھی پیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا، اور میں نے بھی پیا، پھر تھن سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”سکڑ جاؤ“، چنانچہ وہ تھن دوبارہ سکڑ گئے، تھوڑی دیر بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بھی یہ بات سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے دعا دی کہ ”اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، تم سمجھدار بچے ہو“، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے ستر سورتیں یاد کی ہیں جن میں مجھ سے کوئی جھگڑا نہیں کر سکتا۔