(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، حدثنا عطاء بن السائب ، عن الشعبي ، عن ابن مسعود ، ان النساء كن يوم احد خلف المسلمين، يجهزن على جرحى المشركين، فلو حلفت يومئذ رجوت ان ابر إنه ليس احد منا يريد الدنيا، حتى انزل الله عز وجل: منكم من يريد الدنيا ومنكم من يريد الآخرة ثم صرفكم عنهم ليبتليكم سورة آل عمران آية 152،" فلما خالف اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وعصوا ما امروا به، افرد رسول الله صلى الله عليه وسلم في تسعة، سبعة من الانصار، ورجلين من قريش، وهو عاشرهم، فلما رهقوه، قال:" رحم الله رجلا، ردهم عنا" قال: فقام رجل من الانصار، فقاتل ساعة حتى قتل، فلما رهقوه ايضا، قال:" يرحم الله رجلا ردهم عنا"، فلم يزل يقول ذا، حتى قتل السبعة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحبيه:" ما انصفنا اصحابنا"، فجاء ابو سفيان، فقال: اعل هبل. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا: الله اعلى واجل"، فقالوا: الله اعلى واجل، فقال ابو سفيان: لنا عزى، ولا عزى لكم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قولوا الله مولانا، والكافرون لا مولى لهم"، ثم قال ابو سفيان: يوم بيوم بدر، يوم لنا، ويوم علينا، ويوم نساء، ويوم نسر، حنظلة بحنظلة، وفلان بفلان، وفلان بفلان. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا سواء، اما قتلانا فاحياء يرزقون، وقتلاكم في النار يعذبون". قال ابو سفيان: قد كانت في القوم مثلة، وإن كانت لعن غير ملإ منا، ما امرت ولا نهيت، ولا احببت ولا كرهت، ولا ساءني ولا سرني، قال: فنظروا، فإذا حمزة قد بقر بطنه، واخذت هند كبده فلاكتها، فلم تستطع ان تاكلها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ااكلت منه شيئا؟" قالوا: لا، قال:" ما كان الله ليدخل شيئا من حمزة النار". فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم حمزة، فصلى عليه، وجيء برجل من الانصار، فوضع إلى جنبه، فصلى عليه، فرفع الانصاري، وترك حمزة، ثم جيء بآخر فوضعه إلى جنب حمزة، فصلى عليه، ثم رفع وترك حمزة، حتى صلى عليه يومئذ سبعين صلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ النِّسَاءَ كُنَّ يَوْمَ أُحُدٍ خَلْفَ الْمُسْلِمِينَ، يُجْهِزْنَ عَلَى جَرْحَى الْمُشْرِكِينَ، فَلَوْ حَلَفْتُ يَوْمَئِذٍ رَجَوْتُ أَنْ أَبَرَّ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَّا يُرِيدُ الدُّنْيَا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ سورة آل عمران آية 152،" فَلَمَّا خَالَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَصَوْا مَا أُمِرُوا بِهِ، أُفْرِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تِسْعَةٍ، سَبْعَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُوَ عَاشِرُهُمْ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ، قَالَ:" رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا، رَدَّهُمْ عَنَّا" قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَاتَلَ سَاعَةً حَتَّى قُتِلَ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ أَيْضًا، قَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ رَجُلًا رَدَّهُمْ عَنَّا"، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَا، حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ:" مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا"، فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: اعْلُ هُبَلُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ"، فَقَالُوا: اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: لَنَا عُزَّى، وَلَا عُزَّى لَكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَالْكَافِرُونَ لَا مَوْلَى لَهُمْ"، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ، يَوْمٌ لَنَا، وَيَوْمٌ عَلَيْنَا، وَيَوْمٌ نُسَاءُ، وَيَوْمٌ نُسَرُّ، حَنْظَلَةُ بِحَنْظَلَةَ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ، وَفُلَانٌ بِفُلَانٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا سَوَاءً، أَمَّا قَتْلَانَا فَأَحْيَاءٌ يُرْزَقُونَ، وَقَتْلَاكُمْ فِي النَّارِ يُعَذَّبُونَ". قَالَ أَبُو سُفْيَانَ: قَدْ كَانَتْ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ لَعَنْ غَيْرِ مَلَإٍ مِنَّا، مَا أََمَرْتُ وَلَا نَهَيْتُ، وَلَا أَحْبَبْتُ وَلَا كَرِهْتُ، وَلَا سَاءَنِي وَلَا سَرَّنِي، قَالَ: فَنَظَرُوا، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ بُقِرَ بَطْنُهُ، وَأَخَذَتْ هِنْدُ كَبِدَهُ فَلَاكَتْهَا، فَلَمْ تَسْتَطِعْ أَنْ تَأْكُلَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَأَكَلَتْ مِنْهُ شَيْئًا؟" قَالُوا: لَا، قَالَ:" مَا كَانَ اللَّهُ لِيُدْخِلَ شَيْئًا مِنْ حَمْزَةَ النَّارَ". فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمْزَةَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَجِيءَ بِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَوُضِعَ إِلَى جَنْبِهِ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، فَرُفِعَ الْأَنْصَارِيُّ، وَتُرِكَ حَمْزَةُ، ثُمَّ جِيءَ بِآخَرَ فَوَضَعَهُ إِلَى جَنْبِ حَمْزَةَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ رُفِعَ وَتُرِكَ حَمْزَةُ، حَتَّى صَلَّى عَلَيْهِ يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ صَلَاةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ احد کے دن خواتین مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور مشرکین کے زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، اگر میں قسم کھا کر کہوں تو میری قسم صحیح ہو گی (اور میں اس میں حانث نہیں ہوں گا) کہ اس دن ہم میں سے کوئی شخص دنیا کا خواہش مند نہ تھا، یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ﴾»[آل عمران: 152]”تم میں سے بعض لوگ دنیا چاہتے ہیں اور بعض لوگ آخرت، پھر اللہ نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ وہ تمہیں آزمائے۔“ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے حکم نبوی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی تعمیل نہ کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صرف نو افراد کے درمیان تنہا رہ گئے، جن میں سات انصاری اور دو قریشی تھے، دسویں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جب مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجوم کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے جو انہیں ہم سے دور کرے“، یہ سن کر ایک انصاری آگے بڑھا، کچھ دیر قتال کیا اور شہید ہو گیا، اسی طرح ایک ایک کر کے ساتوں انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہو گئے، یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔“ تھوڑی دیر بعد ابوسفیان آیا (جنہوں نے اس وقت تک اسلام قبول نہیں کیا تھا) اور ہبل کی جے کاری کا نعرہ لگانے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے جواب دو کہ اللہ ہی بلند و برتر اور بزرگ ہے“، ابوسفیان کہنے لگا کہ ہمارے پاس عزی ہے، تمہارا کوئی عزی نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے جواب دو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور کافروں کا کوئی مولیٰ نہیں“، پھر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن جنگ بدر کا بدلہ ہے، ایک دن ہمارا اور ایک دن ہم پر، ایک دن ہمیں تکلیف ہوئی اور ایک دن ہم خوش ہوئے، حنظلہ حنظلہ کے بدلے، فلاں فلاں کے بدلے، اور فلاں فلاں کے بدلے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں اور ہم میں پھر بھی کوئی برابری نہیں، ہمارے مقتولین زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتولین جہنم کی آگ میں سزا پاتے ہیں۔“ پھر ابوسفیان نے کہا کہ کچھ لوگوں کی لاشوں کا مثلہ کیا گیا ہے، یہ ہمارے سرداروں کا کام نہیں ہے، میں نے اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے روکا، میں اسے پسند کرتا ہوں اور نہ ہی ناگواری ظاہر کرتا ہوں، مجھے یہ برا لگا اور نہ ہی خوشی ہوئی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب دیکھا تو سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چاک کر دیا گیا تھا، اور ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے ان کا جگر نکال کر اسے چبایا تھا لیکن اسے کھا نہیں سکی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر پوچھا: ”کیا اس نے اس میں سے کچھ کھایا بھی ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ حمزہ رضی اللہ عنہ کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں کرنا چاہتا“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش کو سامنے رکھ کر ان کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک انصاری کا جنازہ لایا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر انصاری کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، پھر ایک اور جنازہ لا کر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے پہلو میں رکھا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کا جنازہ اٹھا لیا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ یہیں رہنے دیا گیا، اس طرح اس دن سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ ستر مرتبہ ادا کی گئی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، الشعبي لم يسمع من عبد الله بن مسعود.