(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، انبانا عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفح جبل، وهو قائم يصلي، وهم نيام، قال: إذ مرت به حية، فاستيقظنا، وهو يقول:" منعها منكم الذي منعكم منها". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" وانزلت عليه والمرسلات عرفا، فالعاصفات عصفا، فاخذتها وهي رطبة بفيه، او فوه رطب بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْحِ جَبَلٍ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، وَهُمْ نِيَامٌ، قَالَ: إِذْ مَرَّتْ بِهِ حَيَّةٌ، فَاسْتَيْقَظْنَا، وَهُوَ يَقُولُ:" مَنَعَهَا مِنْكُمْ الَّذِي مَنَعَكُمْ مِنْهَا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" وَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا، فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا، فَأَخَذْتُهَا وَهِيَ رَطْبَةٌ بِفِيهِ، أَوْ فُوهُ رَطْبٌ بِهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی پہاڑ کے غار میں تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ سو رہے تھے کہ اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے ایک سانپ گزرا، ہم بیدار ہو گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس ذات نے تمہیں اس سے محفوظ رکھا، اسی نے اسے تم سے محفوظ رکھا۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مرسلات نازل ہوئی، جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے نکلتے ہی یاد کر لیا، ابھی وہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک پر تازہ ہی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهمام العوذي - و إن سمع من عطاء بن السائب بعد اختلاطه - متابع.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، حدثنا الحارث بن حصيرة ، حدثنا القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، قال: قال عبد الله بن مسعود : كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين، قال: فولى عنه الناس، وثبت معه ثمانون رجلا من المهاجرين، والانصار، فنكصنا على اقدامنا نحوا من ثمانين قدما، ولم نولهم الدبر، وهم الذين انزل الله عز وجل عليهم السكينة، قال: ورسول الله صلى الله عليه وسلم على بغلته يمضي قدما، فحادت به بغلته، فمال عن السرج، فقلت له: ارتفع رفعك الله، فقال:" ناولني كفا من تراب"، فضرب به وجوههم، فامتلات اعينهم ترابا، ثم قال:" اين المهاجرون، والانصار؟" قلت: هم اولاء، قال:" اهتف بهم"، فهتفت بهم، فجاءوا وسيوفهم بايمانهم كانها الشهب، وولى المشركون ادبارهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ حَصِيرَةَ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : كُنْتُ مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ: فَوَلَّى عَنْهُ النَّاسُ، وَثَبَتَ مَعَهُ ثَمَانُونَ رَجُلًا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ، فَنَكَصْنَا عَلَى أَقْدَامِنَا نَحْوًا مِنْ ثَمَانِينَ قَدَمًا، وَلَمْ نُوَلِّهِمْ الدُّبُرَ، وَهُمْ الَّذِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمْ السَّكِينَةَ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ يَمْضِي قُدُمًا، فَحَادَتْ بِهِ بَغْلَتُهُ، فَمَالَ عَنِ السَّرْجِ، فَقُلْتُ لَهُ: ارْتَفِعْ رَفَعَكَ اللَّهُ، فَقَالَ:" نَاوِلْنِي كَفًّا مِنْ تُرَابٍ"، فَضَرَبَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، فَامْتَلَأَتْ أَعْيُنُهُمْ تُرَابًا، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ الْمُهَاجِرُونَ، وَالْأَنْصَارُ؟" قُلْتُ: هُمْ أُولَاءِ، قَالَ:" اهْتِفْ بِهِمْ"، فَهَتَفْتُ بِهِمْ، فَجَاءُوا وَسُيُوفُهُمْ بِأَيْمَانِهِمْ كَأَنَّهَا الشُّهُبُ، وَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ أَدْبَارَهُمْ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، لوگ ابتدائی طور پر پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مہاجرین و انصار میں سے صرف اسی آدمی ثابت قدم رہے، ہم لوگ تقریبا اسی قدم پیچھے آ گئے، ہم نے پیٹھ نہیں پھیری تھی، یہ وہی لوگ تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے سکینہ نازل فرمایا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنے خچر پر سوار تھے اور آگے بڑھ رہے تھے، خچر کی رفتار تیز ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین کی طرف جھک گئے، میں نے عرض کیا: سر اٹھائیے، اللہ آپ کو رفعتیں عطا فرمائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ ”مجھے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر دو“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی ان کے چہروں پر دے ماری اور مشرکین کی آنکھوں میں مٹی بھر گئی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہاجرین و انصار کہاں ہیں؟“ میں نے عرض کیا: وہ یہ رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں آواز دو“، میں نے آواز لگائی تو وہ ہاتھوں میں ستاروں کی طرح چمکتی تلواریں لئے حاضر ہو گئے اور مشرکین پشت پھیر کر بھاگ گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن يترجح عدم سماعه هذا الخبر من أبيه.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، قال حسن : عن عطاء ، وقال عفان : حدثنا عطاء بن السائب ، عن عمرو بن ميمون ، عن ابن مسعود، قال حسن : إن ابن مسعود حدثهم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يكون قوم في النار ما شاء الله ان يكونوا، ثم يرحمهم الله، فيخرجهم منها فيكونون في ادنى الجنة فيغتسلون في نهر يقال له: الحيوان، يسميهم اهل الجنة: الجهنميون، لو ضاف احدهم اهل الدنيا لفرشهم، واطعمهم، وسقاهم، ولحفهم، ولا اظنه إلا قال: ولزوجهم، قال حسن: لا ينقصه ذلك شيئا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ حَسَنٌ : عَنْ عَطَاءٍ ، وَقَالَ عَفَّانُ : حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ حَسَنٌ : إِنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَكُونُ قَوْمٌ فِي النَّارِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونُوا، ثُمَّ يَرْحَمُهُمْ اللَّهُ، فَيُخْرِجُهُمْ مِنْهَا فَيَكُونُونَ فِي أَدْنَى الْجَنَّةِ فَيَغْتَسِلُونَ فِي نَهَرٍ يُقَالُ لَهُ: الْحَيَوَانُ، يُسَمِّيهِمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ: الْجَهَنَّمِيُّونَ، لَوْ ضَافَ أَحَدُهُمْ أَهْلَ الدُّنْيَا لَفَرَشَهُمْ، وَأَطْعَمَهُمْ، وَسَقَاهُمْ، وَلَحَفَهُمْ، وَلَا أَظُنُّهُ إِلَّا قَالَ: وَلَزَوَّجَهُمْ، قَالَ حَسَنٌ: لَا يَنْقُصُهُ ذَلِكَ شَيْئًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم میں ایک قوم ہو گی جو جہنم میں اس وقت تک رہے گی جب تک اللہ کی مشیت ہو گی، پھر اللہ کو ان پر ترس آئے گا اور وہ انہیں جہنم سے نکال لے گا، تو یہ لوگ جنت کے قریبی حصے میں ہوں گے، پھر وہ حیوان نامی ایک نہر میں غسل کریں گے، اہل جنت انہیں جہنمی کہہ کر پکارا کریں گے، اگر ان میں سے کوئی ایک شخص ساری دنیا کے لوگوں کی دعوت کرنا چاہے تو ان کے لئے بستروں کا بھی انتطام کر لے گا، کھانے پینے کا بھی انتظام کر لے گا، اور ان کے لئے رضائیوں کو بھی مہیا کر لے گا۔“ غالبا راوی نے یہ بھی کہا کہ ”اگر ان سب کی شادی کرنا چاہے تو یہ بھی کر لے گا اور اسے کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو گی۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، حماد بن سلمة سمع من عطاء بن السائب قبل الاختلاط، وللحديث أصل من حديث أنس عند البخاري: 6559. ومن حديث جابر أيضا : 6556 .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف جھوٹی نسبت کر کے کوئی بات بیان کرے اسے چاہیے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل عاصم.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، وحسن بن موسى ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عرضت علي الامم بالموسم، فراثت علي امتي، قال: فرايتهم، فاعجبتني كثرتهم، وهيئاتهم، قد ملئوا السهل والجبل ؛ قال حسن: فقال: ارضيت يا محمد؟ فقلت: نعم، قال: فإن لك مع هؤلاء ؛ قال عفان، وحسن: فقال: يا محمد، إن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب، وهم الذين لا يسترقون، ولا يتطيرون، ولا يكتوون، وعلى ربهم يتوكلون"، فقام عكاشة، فقال: يا نبي الله، ادع الله ان يجعلني منهم. فدعا له، ثم قام آخر، فقال: يا نبي الله، ادع الله ان يجعلني منهم، فقال:" سبقك بها عكاشة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، وَحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأُمَمُ بِالْمَوْسِمِ، فَرَاثَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي، قَالَ: فَرَأَيْتُهُمْ، فَأَعْجَبَتْنِي كَثْرَتُهُمْ، وَهَيْئَاتُهُمْ، قَدْ مَلَئُوا السَّهْلَ وَالْجَبَلَ ؛ قَالَ حَسَنٌ: فَقَالَ: أَرَضِيتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ لَكَ مَعَ هَؤُلَاءِ ؛ قَالَ عَفَّانُ، وَحَسَنٌ: فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَهُمْ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ"، فَقَامَ عُكَّاشَةُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. فَدَعَا لَهُ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:" سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف امتیں دکھائی گئیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے آنے میں تاخیر ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”پھر مجھے میری امت دکھائی گئی، جس کی کثرت پر مجھے بہت تعجب ہوا کہ انہوں نے ہر ٹیلے اور پہاڑ کو بھر رکھا تھا، مجھ سے کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے، ان کے ساتھ ستر ہزار آدمی ایسے ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ کر علاج نہیں کرتے، جھاڑ پھونک اور منتر نہیں کرتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کر دی، پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ سے دعا کر دیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد، وهو بين ابي بكر، وعمر، وإذا ابن مسعود يصلي، وإذا هو يقرا النساء، فانتهى إلى راس المائة، فجعل ابن مسعود يدعو، وهو قائم يصلي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اسال تعطه، اسال تعطه"، ثم قال:" من سره ان يقرا القرآن غضا كما انزل، فليقراه بقراءة ابن ام عبد" فلما اصبح غدا إليه ابو بكر رضي الله عنه ليبشره، وقال له: ما سالت الله البارحة؟ قال: قلت: اللهم إني اسالك إيمانا لا يرتد، ونعيما لا ينفد، ومرافقة محمد في اعلى جنة الخلد"، ثم جاء عمر رضي الله عنه، فقيل له: إن ابا بكر قد سبقك، قال: يرحم الله ابا بكر، ما سبقته إلى خير قط، إلا سبقني إليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْجِدَ، وَهُوَ بَيْنَ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَإِذَا ابْنُ مَسْعُودٍ يُصَلِّي، وَإِذَا هُوَ يَقْرَأُ النِّسَاءَ، فَانْتَهَى إِلَى رَأْسِ الْمِائَةِ، فَجَعَلَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَدْعُو، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْأَلْ تُعْطَهْ، اسْأَلْ تُعْطَهْ"، ثُمَّ قَالَ:" مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ بِقِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ" فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ رضِي الله عَنْهُ لِيُبَشِّرَهُ، وَقَالَ لَهُ: مَا سَأَلْتَ اللَّهَ الْبَارِحَةَ؟ قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا لَا يَرْتَدُّ، وَنَعِيمًا لَا يَنْفَدُ، وَمُرَافَقَةَ مُحَمَّدٍ فِي أَعْلَى جَنَّةِ الْخُلْدِ"، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ رَضِي الله عَنْه، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ قَدْ سَبَقَكَ، قَالَ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ، مَا سَبَقْتُهُ إِلَى خَيْرٍ قَطُّ، إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ نساء کی تلاوت شروع کی اور مہارت کے ساتھ اسے پڑھتے رہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قرآن کو اس طرح مضبوطی کے ساتھ پڑھنا چاہے جیسے وہ نازل ہوا تو اسے ابن ام عبد کی طرح پڑھنا چاہیے“، پھر وہ بیٹھ کر دعا کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مانگو تمہیں دیا جائے گا“، انہوں نے یہ دعا مانگی: «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا لَا يَرْتَدُّ وَنَعِيمًا لَا يَنْفَدُ وَمُرَافَقَةَ مُحَمَّدٍ فِي أَعْلَى جَنَّةِ الْخُلْدِ»”اے اللہ! میں آپ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہوں، آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی فنا نہ ہو، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت الخلد میں رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انہیں خوشخبری دینے کے لئے پہنچے تو پتہ چلا کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان پر سبقت لے گئے ہیں، جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ نے یہ کام کیا ہے تو آپ ویسے بھی نیکی کے کاموں میں بہت زیادہ سبقت لے جانے والے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده ، وهذا إسناد حسن من أجل عاصم.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”بعض بیان جادو کا سا اثر رکھتے ہیں، اور سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جو اپنی زندگی میں قیامت کا زمانہ پائیں گے، یا وہ جو قبرستان کو سجدہ گاہ بنا لیں۔“
حكم دارالسلام: قوله: «إن من البيان سحرا» صحيح لغيره، وباقي الحديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف قيس.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا جرير يعني ابن حازم ، حدثنا سليمان الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة بن قيس ، عن عبد الله ، قال:" لعن الله المتوشمات والمتنمصات والمتفلجات، والمغيرات خلق الله"، ثم قال: الا العن من لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت امراة من بني اسد: إني لاظنه في اهلك! فقال: لها اذهبي فانظري، فذهبت فنظرت، فقالت: ما رايت فيهم شيئا، وما رايته في المصحف! قال: بلى، قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ الْمُتَوَشِّمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ، وَالْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ"، ثُمّ قَالَ: أَلَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ: إِنِّي لَأَظُنُّهُ فِي أَهْلِكَ! فَقَالَ: لَهَا اذْهَبِي فَانْظُرِي، فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ، فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ فِيهِمْ شَيْئًا، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ! قَالَ: بَلَى، قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ موچنے سے بالوں کو نوچنے والی، دانتوں کو باریک کرنے والی، دوسرے کے بالوں کو اپنے ساتھ ملانے والی اور جسم گودنے والی اور اللہ کی تخلیق کو بدلنے والی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہو، اور میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ اس پر بنو اسد کی ایک عورت کہنے لگی کہ اگر آپ کے گھر کی عورتیں یہ کام کرتی ہوں تو؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جا کر دیکھ لو، وہ عورت ان کے گھر چلی گئی، پھر آ کر کہنے لگی کہ مجھے تو وہاں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی، البتہ مجھے قرآن میں تو یہ حکم نہیں ملتا؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔