(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل دم امرئ مسلم، يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، إلا احد ثلاثة نفر: النفس بالنفس، والثيب الزاني، والتارك لدينه المفارق للجماعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا أَحَدَ ثَلَاثَةِ نَفَرٍ: النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو مسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں، اس کا خون حلال نہیں ہے، سوائے تین میں سے کسی ایک صورت کے، یا تو شادی شدہ ہو کر بدکاری کرے، یا قصاصا قتل کرنا پڑے، یا وہ شخص جو اپنے دین کو ہی ترک کر دے اور جماعت سے جدا ہو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، قال: قال عبد الله : انتهيت إلى ابي جهل يوم بدر وقد ضربت رجله، وهو صريع، وهو يذب الناس عنه بسيف له، فقلت: الحمد لله الذي اخزاك يا عدو الله! فقال: هل هو إلا رجل قتله قومه؟! قال: فجعلت اتناوله بسيف لي غير طائل، فاصبت يده، فندر سيفه، فاخذته فضربته به، حتى قتلته، قال: ثم خرجت حتى اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، كانما اقل من الارض، فاخبرته، فقال:" آلله الذي لا إله إلا هو؟" قال: فرددها ثلاثا، قال: قلت: آلله الذي لا إله إلا هو. قال: فخرج يمشي معي، حتى قام عليه، فقال:" الحمد لله الذي اخزاك يا عدو الله، هذا كان فرعون هذه الامة". قال: وزاد فيه ابي، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، قال: قال عبد الله : فنفلني سيفه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : انْتَهَيْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَوْمَ بَدْرٍ وَقَدْ ضُرِبَتْ رِجْلُهُ، وَهُوَ صَرِيعٌ، وَهُوَ يَذُبُّ النَّاسَ عَنْهُ بِسَيْفٍ لَهُ، فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْزَاكَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ! فَقَالَ: هَلْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ قَتَلَهُ قَوْمُهُ؟! قَالَ: فَجَعَلْتُ أَتَنَاوَلُهُ بِسَيْفٍ لِي غَيْرِ طَائِلٍ، فَأَصَبْتُ يَدَهُ، فَنَدَرَ سَيْفُهُ، فَأَخَذْتُهُ فَضَرَبْتُهُ بِهِ، حَتَّى قَتَلْتُهُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنَّمَا أُقَلُّ مِنَ الْأَرْضِ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ؟" قَالَ: فَرَدَّدَهَا ثَلَاثًا، قَالَ: قُلْتُ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ. قَالَ: فَخَرَجَ يَمْشِي مَعِي، حَتَّى قَامَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَخْزَاكَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ، هَذَا كَانَ فِرْعَوْنَ هَذِهِ الْأُمَّةِ". قَالَ: وَزَادَ فِيهِ أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَنَفَّلَنِي سَيْفَهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں غزوہ بدر میں ابوجہل کے پاس پہنچا تو وہ زخمی پڑا ہوا تھا اور اس کی ٹانگ کٹ چکی تھی، اور وہ لوگوں کو اپنی تلوار سے دور کر رہا تھا، میں نے اس سے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اے اللہ کے دشمن! اس نے تجھے رسوا کر دیا، وہ کہنے لگا کہ کیا کسی شخص کو کبھی اس کی اپنی قوم نے بھی قتل کیا ہے؟ میں اسے اپنی تلوار سے مارنے لگا جو کند تھی، وہ اس کے ہاتھ پر لگی اور اس کی تلوار گر پڑی، میں نے اس کی تلوار پکڑ لی اور اس سے اس پر وار کیا یہاں تک کہ میں نے اسے قتل کر دیا، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ابوجہل مارا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم کھا کر کہو جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں“، میں نے قسم کھا لی، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ چلتے ہوئے اس کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے کہ اے اللہ کے دشمن! اس نے تجھے رسوا کر دیا، یہ اس امت کا فرعون تھا۔“ اور دوسری سند سے یہ اضافہ بھی منقول ہے کہ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلوار مجھے انعام میں دے دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن ابن مسعود ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر، فقلت: قتلت ابا جهل، قال:" آلله الذي لا إله إلا هو؟" قال: قلت: آلله الذي لا إله إلا هو، فرددها ثلاثا، قال:" الله اكبر، الحمد لله الذي صدق وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده، انطلق فارنيه"، فانطلقنا، فإذا به، فقال:" هذا فرعون هذه الامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ، فَقُلْتُ: قَتَلْتُ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ:" آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ؟" قَالَ: قُلْتُ: آللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَرَدَّدَهَا ثَلَاثًا، قَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، انْطَلِقْ فَأَرِنِيهِ"، فَانْطَلَقْنَا، فَإِذَا بِهِ، فَقَالَ:" هَذَا فِرْعَوْنُ هَذِهِ الْأُمَّةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ ابوجہل مارا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم کھا کر کہو جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں“، میں نے قسم کھا لی، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: ”اللہ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تن تنہا تمام لشکروں کو شکست دے دی، میرے ساتھ چلو تاکہ میں بھی دیکھوں۔“ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی لاش کے پاس تشریف لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اس امت کا فرعون تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة، فمر على قوم من اليهود، فقال بعضهم لبعض: سلوه عن الروح؟ فقال بعضهم: لا تسالوه، فقالوا: يا محمد، ما الروح؟ قال: فقام، وهو متوكئ على عسيب، وانا خلفه، فظننت انه يوحى إليه، فقال:" ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85"، قال: فقال بعضهم: قد قلنا: لا تسالوه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ، فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، مَا الرُّوحُ؟ قَالَ: فَقَامَ، وَهُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلَى عَسِيبٍ، وَأَنَا خَلْفَهُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقَالَ:" وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85"، قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ قُلْنَا: لَا تَسْأَلُوهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کے کسی کھیت میں چل رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاٹھی ٹیکتے جا رہے تھے، چلتے چلتے یہودیوں کی ایک جماعت پر سے گزر ہوا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے متعلق سوال کرو، لیکن کچھ لوگوں نے انہیں سوال کرنے سے منع کیا، الغرض! انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق دریافت کیا اور کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! روح کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اپنی لاٹھی سے ٹیک لگا لی، میں سمجھ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے، چنانچہ وہ کیفیت ختم ہونے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾» [الإسراء: 85]”یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ روح تو میرے رب کا حکم ہے، اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“ یہ سن کر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ہم نے کہا تھا ناں کہ ان سے مت پوچھو۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ابن سمیہ کے سامنے جب بھی دو چیزیں پیش ہوئیں تو اس نے ان دونوں میں سے اس چیز کو اختیار کیا جو زیادہ رشد و ہدایت والی ہوتی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سالم الأشجعي لم يسمع من ابن مسعود .
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك بن حرب ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، والاسود ، عن عبد الله ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني لقيت امراة في البستان، فضممتها إلي وباشرتها وقبلتها، وفعلت بها كل شيء، غير اني لم اجامعها؟ قال فسكت عنه النبي صلى الله عليه وسلم، فنزلت هذه الآية:" إن الحسنات يذهبن السيئات، ذلك ذكرى للذاكرين سورة هود آية 114، قال: فدعاه النبي صلى الله عليه وسلم، فقراها عليه، فقال عمر: يا رسول الله، اله خاصة، ام للناس كافة؟ فقال:" بل للناس كافة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَقِيتُ امْرَأَةً فِي الْبُسْتَانِ، فَضَمَمْتُهَا إِلَيَّ وَبَاشَرْتُهَا وَقَبَّلْتُهَا، وَفَعَلْتُ بِهَا كُلَّ شَيْءٍ، غَيْرَ أَنِّي لَمْ أُجَامِعْهَا؟ قَالَ فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:" إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ، ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114، قَالَ: فَدَعَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَهُ خَاصَّةً، أَمْ لِلنَّاسِ كَافَّةً؟ فَقَالَ:" بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے باغ میں ایک عورت مل گئی، میں نے اسے اپنی طرف گھسیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسے بوسہ دے دیا اور خلوت کے علاوہ اس کے ساتھ سب ہی کچھ کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾»[هود: 114]”دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم اس کے ساتھ خاص ہے؟ فرمایا: ”نہیں! بلکہ میری امت کے ہر اس شخص کے لئے یہی حکم ہے جس سے ایسا عمل سرزد ہو جائے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2763، وهذا إسناد حسن من أجل ابن حرب.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى وهو مسند ظهره إلى قبة حمراء، قال:" الم ترضوا ان تكونوا ربع اهل الجنة؟" قلنا: بلى، قال:" الم ترضوا ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟" قالوا: بلى، قال:" والله إني لارجو ان تكونوا نصف اهل الجنة، وساحدثكم عن ذلك، عن قلة المسلمين في الناس يومئذ، ما هم يومئذ في الناس إلا كالشعرة البيضاء في الثور الاسود، او كالشعرة السوداء في الثور الابيض، ولن يدخل الجنة إلا نفس مسلمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى قُبَّةٍ حَمْرَاءَ، قَالَ:" أَلَمْ تَرْضَوْا أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" أَلَمْ تَرْضَوْا أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ:" وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ، عَنْ قِلَّةِ الْمُسْلِمِينَ فِي النَّاسِ يَوْمَئِذٍ، مَا هُمْ يَوْمَئِذٍ فِي النَّاسِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي الثَّوْرِ الْأَبْيَضِ، وَلَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ منیٰ کے میدان میں ہم لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ رنگ کے ایک خیمے کے ساتھ ٹیک لگا رکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش اور راضی ہو کہ تم تمام اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! پھر پوچھا: ”کیا ایک تہائی حصہ ہونے پر خوش ہو؟“ ہم نے پھر اثبات میں جواب دیا، فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کا نصف ہو گے اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اس دن مسلمانوں کی تعداد کم کیوں ہو گی؟ دراصل مسلمان اس دن لوگوں میں ایسے ہوں گے جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال، یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوتے ہیں، اور جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو مسلمان ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو همام ، عن عثمان بن حسان ، عن فلفلة الجعفي ، قال: فزعت فيمن فزع إلى عبد الله في المصاحف، فدخلنا عليه، فقال رجل من القوم: إنا لم ناتك زائرين، ولكن جئناك حين راعنا هذا الخبر!! فقال: إن" القرآن نزل على نبيكم صلى الله عليه وسلم من سبعة ابواب، على سبعة احرف، او قال: حروف، وإن الكتاب قبله كان ينزل من باب واحد، على حرف واحد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ فُلْفُلَةَ الْجُعْفِيِّ ، قَالَ: فَزِعْتُ فِيمَنْ فَزِعَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ فِي الْمَصَاحِفِ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّا لَمْ نَأْتِكَ زَائِرِينَ، وَلَكِنْ جِئْنَاكَ حِينَ رَاعَنَا هَذَا الْخَبَرُ!! فَقَالَ: إِنَّ" الْقُرْآنَ نَزَلَ عَلَى نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَبْعَةِ أَبْوَابٍ، عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، أَوْ قَالَ: حُرُوفٍ، وَإِنَّ الْكِتَابَ قبله كان ينزل من باب واحد، على حرف واحد".
فلفلہ جعفی کہتے ہیں کہ مصاحف قرآنی کے حوالے سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گھبرا کر جو لوگ حاضر ہوئے تھے، ان میں میں بھی تھا، ہم ان کے گھر میں داخل ہوئے اور ہم میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہم اس وقت آپ کی زیارت کے لئے حاضر نہیں ہوئے، ہم تو یہ خبر سن کر (کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ نسخوں کے علاوہ قرآن کریم کے باقی تمام نسخے تلف کر دئیے جائیں) گھبرائے ہوئے آپ کے پاس آئے ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ قرآن تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سات دروازوں سے سات حروف (قراءتوں) پر اترا ہے، جبکہ اس سے پہلے کی کتابیں ایک دروازے سے ایک حرف پر نازل ہوتی تھیں (اس لئے ہماری کتاب میں وہ گنجائش ہے جو دوسری کتابوں میں نہ تھی، لہٰذا ہمیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں)۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله ، قال:" اوتي نبيكم صلى الله عليه وسلم كل شيء إلا مفاتيح الغيب الخمس: إن الله عنده علم الساعة سورة لقمان آية 34".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" أُوتِيَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا مَفَاتِيحَ الْغَيْبِ الْخَمْسِ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ سورة لقمان آية 34".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کی کنجیاں دے دی گئی ہیں، سوائے پانچ چیزوں کے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ . . . . .﴾»[لقمان: 34]”قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے . . . . .“۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد يحتمل التحسين.
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان يعني ابن عيينة ، عن مسعر ، عن علقمة بن مرثد ، عن مغيرة اليشكري ، عن المعرور ، عن عبد الله ، قال: قالت ام حبيبة: اللهم امتعني بزوجي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وباخي معاوية، وبابي ابي سفيان، قال: فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوت الله عز وجل لآجال مضروبة، وآثار مبلوغة، وارزاق مقسومة، لا يتقدم منها شيء قبل حله، ولا يتاخر منها، لو سالت الله عز وجل ان ينجيك من عذاب القبر، وعذاب النار". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القردة والخنازير: هم مما مسخ، او شيء كان قبل ذلك؟ فقال:" لا، بل كان قبل ذلك، إن الله عز وجل لم يهلك قوما، فيجعل لهم نسلا ولا عاقبة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ الْيَشْكُرِيِّ ، عَنْ الْمَعْرُورِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ: اللَّهُمَّ أَمْتِعْنِي بِزَوْجِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِأَخِي مُعَاوِيَةَ، وَبِأَبِي أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعَوْتِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِآجَالٍ مَضْرُوبَةٍ، وَآثَارٍ مَبْلُوغَةٍ، وَأَرْزَاقٍ مَقْسُومَةٍ، لَا يَتَقَدَّمُ مِنْهَا شَيْءٌ قَبْلَ حِلِّهِ، وَلَا يَتَأَخَّرُ مِنْهَا، لَوْ سَأَلْتِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُنْجِيَكِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ: هُمْ مِمَّا مُسِخَ، أَوْ شَيْءٌ كَانَ قَبْلَ ذَلِكَ؟ فَقَالَ:" لَا، بَلْ كَانَ قَبْلَ ذَلِكَ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُهْلِكْ قَوْمًا، فَيَجْعَلَ لَهُمْ نَسْلًا وَلَا عَاقِبَةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا یہ دعا کر رہی تھیں کہ اے اللہ! مجھے اپنے شوہر نامدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنے والد ابوسفیان اور اپنے بھائی معاویہ سے فائدہ پہنچا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ دعا سن لی اور فرمایا کہ ”تم نے اللہ سے طے شدہ مدت، گنتی کے چند دن اور تقسیم شدہ رزق کا سوال کیا، ان میں سے کوئی چیز بھی اپنے وقت سے پہلے تمہیں نہیں مل سکتی اور اپنے وقت مقررہ سے مؤخر نہیں ہو سکتی، اگر تم اللہ سے یہ دعا کرتیں کہ وہ تمہیں عذاب جہنم اور عذاب قبر سے محفوظ فرما دے تو یہ زیادہ بہتر اور افضل ہوتا۔“ راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تذکرہ ہوا کہ بندر انسانوں کی مسخ شدہ شکل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس قوم کی شکل کو مسخ کیا اس کی نسل کو کبھی باقی نہیں رکھا، جبکہ بندر اور خنزیر تو پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔“ راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ تذکرہ ہوا کہ بندر انسانوں کی مسخ شدہ شکل ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جس قوم کی شکل کو مسخ کیا اس کی نسل کو کبھی باقی نہیں رکھا، جبکہ بندر اور خنزیر تو پہلے سے چلے آ رہے ہیں۔