(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن حميد بن هلال ، عن ابي قتادة ، عن اسير بن جابر ، قال: هاجت ريح حمراء بالكوفة، فجاء رجل ليس له هجير إلا: يا عبد الله بن مسعود ، جاءت الساعة!! قال: وكان متكئا، فجلس، فقال: إن الساعة لا تقوم حتى لا يقسم ميراث، ولا يفرح بغنيمة، قال: عدوا يجمعون لاهل الإسلام، ويجمع لهم اهل الإسلام، ونحى بيده نحو الشام، قلت: الروم تعني؟ قال: نعم، قال: ويكون عند ذاكم القتال ردة شديدة، قال: فيشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة، فيقتتلون حتى يحجز بينهم الليل، فيفيء هؤلاء وهؤلاء، كل غير غالب، وتفنى الشرطة، ثم يشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة، فيقتتلون حتى يحجز بينهم الليل، فيفيء هؤلاء وهؤلاء، كل غير غالب، وتفنى الشرطة، ثم يشترط المسلمون شرطة للموت لا ترجع إلا غالبة، فيقتتلون حتى يمسوا، فيفيء هؤلاء وهؤلاء، كل غير غالب، وتفنى الشرطة، فإذا كان اليوم الرابع، نهد إليهم بقية اهل الإسلام، فيجعل الله عز وجل الدبرة عليهم، فيقتلون مقتلة إما قال: لا يرى مثلها، وإما قال: لم نر مثلها، حتى إن الطائر ليمر بجنباتهم، فما يخلفهم حتى يخر ميتا، قال: فيتعاد بنو الاب كانوا مائة، فلا يجدونه بقي منهم إلا الرجل الواحد، فباي غنيمة يفرح؟ او اي ميراث يقاسم؟! قال: بينا هم كذلك، إذ سمعوا بناس اكثر من ذلك، قال: جاءهم الصريخ ان الدجال قد خلف في ذراريهم، فيرفضون ما في ايديهم، ويقبلون، فيبعثون عشرة فوارس طليعة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لاعلم اسماءهم، واسماء آبائهم، والوان خيولهم، هم خير فوارس على ظهر الارض يومئذ".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ ، قَالَ: هَاجَتْ رِيحٌ حَمْرَاءُ بِالْكُوفَةِ، فَجَاءَ رَجُلٌ لَيْسَ لَهُ هِجِّيرٌ إِلَّا: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، جَاءَتْ السَّاعَةُ!! قَالَ: وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَجَلَسَ، فَقَالَ: إِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى لَا يُقْسَمَ مِيرَاثٌ، وَلَا يُفْرَحَ بِغَنِيمَةٍ، قَالَ: عَدُوًّا يَجْمَعُونَ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، وَيَجْمَعُ لَهُمْ أَهْلُ الْإِسْلَامِ، وَنَحَّى بِيَدِهِ نَحْوَ الشَّامِ، قُلْتُ: الرُّومَ تَعْنِي؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَيَكُونُ عِنْدَ ذَاكُمْ الْقِتَالِ رِدَّةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَيَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجِزَ بَيْنَهُمْ اللَّيْلُ، فَيَفِيءَ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ، كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ، ثُمَّ يَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يَحْجِزَ بَيْنَهُمْ اللَّيْلُ، فَيَفِيءَ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ، كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ، ثُمَّ يَشْتَرِطُ الْمُسْلِمُونَ شُرْطَةً لِلْمَوْتِ لَا تَرْجِعُ إِلَّا غَالِبَةً، فَيَقْتَتِلُونَ حَتَّى يُمْسُوا، فَيَفِيءَ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ، كُلٌّ غَيْرُ غَالِبٍ، وَتَفْنَى الشُّرْطَةُ، فَإِذَا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ، نَهَدَ إِلَيْهِمْ بَقِيَّةُ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَيَجْعَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الدَّبْرَةَ عَلَيْهِمْ، فَيَقْتُلُونَ مَقْتَلَةً إِمَّا قَالَ: لَا يُرَى مِثْلُهَا، وَإِمَّا قَالَ: لَمْ نَرَ مِثْلَهَا، حَتَّى إِنَّ الطَّائِرَ لَيَمُرُّ بِجَنَبَاتِهِمْ، فَمَا يُخَلِّفُهُمْ حَتَّى يَخِرَّ مَيِّتًا، قَالَ: فَيَتَعَادُّ بَنُو الْأَبِ كَانُوا مِائَةً، فَلَا يَجِدُونَهُ بَقِيَ مِنْهُمْ إِلَّا الرَّجُلُ الْوَاحِدُ، فَبِأَيِّ غَنِيمَةٍ يُفْرَحُ؟ أَوْ أَيُّ مِيرَاثٍ يُقَاسَمُ؟! قَالَ: بَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ سَمِعُوا بِنَاسٍ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: جَاءَهُمْ الصَّرِيخُ أَنَّ الدَّجَّالَ قَدْ خَلَفَ فِي ذَرَارِيِّهِمْ، فَيَرْفُضُونَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ، وَيُقْبِلُونَ، فَيَبْعَثُونَ عَشَرَةَ فَوَارِسَ طَلِيعَةً، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ أَسْمَاءَهُمْ، وَأَسْمَاءَ آبَائِهِمْ، وَأَلْوَانَ خُيُولِهِمْ، هُمْ خَيْرُ فَوَارِسَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ يَوْمَئِذٍ".
یسیر بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ کوفہ میں سرخ آندھی آئی، ایک آدمی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا جس کی پکار صرف یہی تھی کہ اے عبداللہ بن مسعود! قیامت قریب آ گئی؟ اس وقت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تکیے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، یہ سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک میراث کی تقسیم رک نہ جائے اور مال غنیمت پر کوئی خوشی نہ ہو، ایک دشمن ہو گا جو اہل اسلام کے لئے اپنی جمعیت اکٹھی کرے گا اور اہل اسلام ان کے لئے اپنی جمعیت اکٹھی کریں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ہاتھ سے شام کی طرف اشارہ کیا، میں نے پوچھا کہ آپ کی مراد رومی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اور اس وقت نہایت سخت جنگ ہو گی اور مسلمانوں کی ایک جماعت یہ عہد کر کے نکلے گی کہ ہم لوگ مر جائیں گے لیکن غالب آئے بغیر واپس نہ آئیں گے، چنانچہ وہ جنگ کریں گے یہاں تک کہ ان کے درمیان رات حائل ہو جائے گی اور دونوں لشکر واپس آ جائیں گے، جبکہ مسلمانوں کی وہ جماعت کام آ چکی ہو گی، تاہم کسی ایک لشکر کو غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ تین دن تک اسی طرح ہوتا رہے گا، چوتھے دن باقی ماندہ تمام مسلمان دشمن پر حملہ کر دیں گے اور اللہ تعالیٰ دشمن پر شکست مسلط کر دیں گے اور اتنے آدمی قتل ہوں گے کہ اس کی نظیر نہیں ملے گی، حتی کہ اگر کوئی پرندہ ان کی نعشوں پر گزرے گا تو انہیں عبور نہیں کر سکے گا اور گر کر مر جائے گا، اس وقت اگر ایک آدمی کے سو بیٹے ہوئے تو واپسی پر ان میں سے صرف ایک باقی بچا ہو گا، تو کون سی غنیمت پر خوشی ہو گی اور کون سی میراث تقسیم ہو گی؟ اسی دوران وہ اس سے بھی ایک ہولناک خبر سنیں گے اور ایک چیخنے والا آئے گا اور کہے گا کہ ان کے پیچھے دجال ان کی اولاد میں گھس گیا، چنانچہ وہ لوگ یہ سنتے ہی اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو پھینک دیں گے اور دجال کی طرف متوجہ ہوں گے اور دس سواروں کو ہر اول دستہ کے طور پر بھیج دیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”میں ان کے اور ان کے باپوں کے نام اور ان کے گھوڑوں کے رنگ بھی جانتا ہوں، وہ اس وقت زمین پر بہترین شہسوار ہوں گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، عن سليمان ، عن ابي عثمان ، عن ابن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يمنعن احدكم اذان بلال او قال: نداء بلال من سحوره، فإنه يؤذن او قال: ينادي ليرجع قائمكم، ولينبه نائمكم، ثم ليس ان يقول هكذا او قال: هكذا حتى يقول هكذا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ أَوْ قَالَ: نِدَاءُ بِلَالٍ مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ قَالَ: يُنَادِي لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ، وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ، ثُمَّ لَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا أَوْ قَالَ: هَكَذَا حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے روک نہ دے کیونکہ وہ اس لئے جلدی اذان دے دیتے ہیں کہ قیام اللیل کرنے والے واپس آجائیں اور سونے والے بیدار ہو جائیں (اور سحری کھا لیں)، صبح صادق اس طرح نہیں ہوتی - راوی نے اپنا ہاتھ ملا کر بلند کیا - بلکہ اس طرح ہوتی ہے۔“ راوی نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو جدا کر کے دکھایا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما، قال: فقال رجل من الانصار إن هذه القسمة ما اريد بها وجه الله عز وجل، قال عبد الله: يا عدو الله، اما لاخبرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما قلت، قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فاحمر وجهه، وقال:" رحمة الله على موسى، قد اوذي باكثر من هذا فصبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ إِنَّ هَذِهِ الْقِسْمَةَ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: يَا عَدُوَّ اللَّهِ، أَمَا لَأُخْبِرَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا قُلْتَ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاحْمَرَّ وَجْهُهُ، وَقَالَ:" رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى، قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، ایک انصاری کہنے لگا کہ یہ تقسیم ایسی ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے دشمن! تو نے جو بات کہی ہے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ضرور دوں گا، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کر دی، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، پھر فرمایا: ”موسیٰ پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا داود ، وابن ابي زائدة ، المعنى، قالا: حدثنا داود ، عن الشعبي ، عن علقمة ، قال: قلت لابن مسعود : هل صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الجن منكم احد؟ فقال: ما صحبه منا احد، ولكنا قد فقدناه ذات ليلة، فقلنا: اغتيل؟ استطير؟ ما فعل؟ قال: فبتنا بشر ليلة بات بها قوم، فلما كان في وجه الصبح او قال: في السحر إذا نحن به يجيء من قبل حراء، فقلنا: يا رسول الله، فذكروا الذي كانوا فيه، فقال:" إنه اتاني داعي الجن، فاتيتهم، فقرات عليهم"، قال: فانطلق بنا، فاراني آثارهم وآثار نيرانهم. قال: وقال الشعبي: سالوه الزاد، قال ابن ابي زائدة: قال عامر: فسالوه ليلتئذ الزاد، وكانوا من جن الجزيرة. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فقال:" كل عظم ذكر اسم الله عليه يقع في ايديكم اوفر ما كان عليه لحما، وكل بعرة، او روثة علف لدوابكم، فلا تستنجوا بهما، فإنهما زاد إخوانكم من الجن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ ، وَابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ مَسْعُودٍ : هَلْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ مِنْكُمْ أَحَدٌ؟ فَقَالَ: مَا صَحِبَهُ مِنَّا أَحَدٌ، وَلَكِنَّا قَدْ فَقَدْنَاهُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقُلْنَا: اغْتِيلَ؟ اسْتُطِيرَ؟ مَا فَعَلَ؟ قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، فَلَمَّا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ أَوْ قَالَ: فِي السَّحَرِ إِذَا نَحْنُ بِهِ يَجِيءُ مِنْ قِبَلِ حِرَاءَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَكَرُوا الَّذِي كَانُوا فِيهِ، فَقَالَ:" إِنَّهُ أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ، فَأَتَيْتُهُمْ، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمْ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا، فَأَرَانِي آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ. قَالَ: وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: سَأَلُوهُ الزَّادَ، قَالَ ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ: قَالَ عَامِرٌ: فَسَأَلُوهُ لَيْلَتَئِذٍ الزَّادَ، وَكَانُوا مِنْ جِنِّ الْجَزِيرَةِ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَقَالَ:" كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا كَانَ عَلَيْهِ لَحْمًا، وَكُلُّ بَعْرَةٍ، أَوْ رَوْثَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا، فَإِنَّهُمَا زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ".
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا لیلۃ الجن کے موقع پر آپ میں سے کوئی صاحب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، ہم میں سے ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا، بلکہ ایک مرتبہ رات کو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا، ہم فکر مند ہو گئے کہ کہیں کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکے سے کہیں لے تو نہیں گیا؟ اور ہم پریشان تھے کہ یہ کیا ہو گیا؟ ہم نے وہ ساری رات - جو کسی بھی قوم کے لئے انتہائی پریشان کن ہو سکتی ہے - اسی طرح گذاری، جب صبح کا چہرہ دکھائی دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمیں غار حراء کی جانب سے آتے ہوئے نظر آئے، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی فکرمندی اور پریشانی کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میرے پاس جنات میں سے ایک جن دعوت لے کر آیا تھا، میں ان کے پاس چلا گیا اور انہیں قرآن کریم پڑھ کر سنایا، وہ مجھے لے گیا اور اس نے مجھے اپنے آثار اور اپنی آگ کے اثرات دکھائے، (امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے توشہ کی درخواست کی تھی)، وہ جزیرہ عرب کے جنات تھے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”ہر وہ ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور وہ تمہارے ہاتھوں میں آ جائے، اس پر جنات کے لئے پہلے سے زیادہ گوشت آ جاتا ہے، اور ہر وہ مینگنی یا لید جو تمہارے جانور کریں، ان سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ تمہارے جن بھائیوں کی خوراک ہے۔“
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں اور بیت اللہ کو اپنے بائیں ہاتھ رکھا اور منیٰ کو دائیں ہاتھ اور فرمایا: یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، قال: سمعت ذرا يحدث، عن وائل بن مهانة ، عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال للنساء:" تصدقن، فإنكن اكثر اهل النار"، فقالت امراة: ليست من علية النساء او من اعقلهن يا رسول الله، فيم؟ او لم؟ او بم؟ قال:" إنكن تكثرن اللعن، وتكفرن العشير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ذَرًّا يُحَدِّثُ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مَهَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِلنِّسَاءِ:" تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ"، فَقَالَتْ امْرَأَةٌ: لَيْسَتْ مِنْ عِلْيَةِ النِّسَاءِ أَوْ مِنْ أَعْقَلِهِنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَ؟ أَوْ لِمَ؟ أَوْ بِمَ؟ قَالَ:" إِنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ نسواں! صدقہ دیا کرو، کیونکہ تم جہنم میں اکثریت ہو۔“ ایک عورت - جو اونچی عورتوں میں سے نہ تھی - کھڑی ہو کر کہنے لگی: یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری و نافرمانی کرتی ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين من أجل وائل بن مهانة.
حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، حدثني الحكم ، عن ذر ، عن وائل بن مهانة ، من تيم الرباب، من اصحاب عبد الله، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: للنساء" تصدقن، فإنكن اكثر اهل النار" فقالت امراة، ليست من علية النساء فيم؟ وبم؟ ولم؟... فذكر الحديث.حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي الْحَكَمُ ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مَهَانَةَ ، مِنْ تَيْمِ الرِّبَابِ، مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلنِّسَاءِ" تَصَدَّقْنَ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ" فَقَالَتْ امْرَأَةٌ، لَيْسَتْ مِنْ عِلْيَةِ النِّسَاءِ فِيمَ؟ وَبِمَ؟ وَلِمَ؟... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ نسواں! صدقہ دیا کرو، کیونکہ تم جہنم میں اکثریت ہو۔“ ایک عورت - جو اونچی عورتوں میں سے نہ تھی - کھڑی ہو کر کہنے لگی: یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت ابا وائل يقول: سمعت عبد الله يقول: قلت: انت سمعته من عبد الله؟ قال: نعم، وقد رفعه، قال:" لا احد اغير من الله عز وجل، ولذلك حرم الفواحش ما ظهر منها وما بطن، ولا احد احب إليه المدح من الله عز وجل ولذلك مدح نفسه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ يَقُولُ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَقَدْ رَفَعَهُ، قَالَ:" لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ سے زیادہ کوئی شخص غیرت مند نہیں ہو سکتا، اسی لئے اس نے ظاہری اور باطنی فحش کاموں سے منع فرمایا ہے، اور اللہ سے زیادہ تعریف کو پسند کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے، اسی لئے اس نے اپنی تعریف خود کی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، انه سمع ابا وائل يحدث، ان رجلا جاء إلى ابن مسعود، فقال: إني قرات المفصل كله في ركعة، فقال عبد الله : هذا كهذ الشعر؟ لقد" عرفت النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن، قال: فذكر عشرين سورة من المفصل، سورتين، سورتين في كل ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِنِّي قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ كُلَّهُ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ؟ لَقَدْ" عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، قَالَ: فَذَكَرَ عِشْرِينَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ، سُورَتَيْنِ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ".
ابووائل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (بنو بجیلہ کا ایک آدمی) - جس کا نام نہیک بن سنان تھا - سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصلات پڑھ لیتا ہوں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھٹیا اشعار کی طرح؟ میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں، پھر انہوں نے مفصلات کی بیس رکعتیں ذکر کیں، ہر رکعت میں دو دو سورتیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، عن ابي عبيدة ، قال حجاج في حديثه: سمعت ابا عبيدة، عن ابيه عبد الله بن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" إذا قعد في الركعتين الاوليين كانه على الرضف، قلت لسعد: حتى يقوم؟ قال: حتى يقوم". قال حجاج: قال شعبة: كان سعد يحرك شفتيه بشيء، فقلت: حتى يقوم؟ قال: حتى يقوم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، قَالَ حَجَّاجٌ فِي حَدِيثِهِ: سَمِعْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا قَعَدَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ كَأَنَّهُ عَلَى الرَّضْفِ، قُلْتُ لِسَعْدٍ: حَتَّى يَقُومَ؟ قَالَ: حَتَّى يَقُومَ". قَالَ حَجَّاجٌ: قَالَ شُعْبَةُ: كَانَ سَعْدٌ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ بِشَيْءٍ، فَقُلْتُ: حَتَّى يَقُومَ؟ قَالَ: حَتَّى يَقُومَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ گویا گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، میں نے پوچھا کھڑے ہونے تک؟ فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ابن مسعود.