سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ اللہ نے جو بیماری بھی اتاری ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، جو جان لیتا ہے سو جان لیتا ہے، اور جو ناواقف رہتا ہے سو ناواقف رہتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم" إني ابرا إلى كل خليل من خلته، ولو كنت متخذا خليلا، لاتخذت ابا بكر خليلا، وإن صاحبكم خليل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خُلَّتِهِ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں ہر دوست کی دوستی سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، اور تمہارا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال سليمان : سمعت شقيقا ، يقول: كنا ننتظر عبد الله بن مسعود في المسجد يخرج علينا، فجاءنا يزيد بن معاوية يعني النخعي، قال: فقال: الا اذهب فانظر؟ فإن كان في الدار، لعلي ان اخرجه إليكم، فجاءنا، فقام علينا، فقال: إنه ليذكر لي مكانكم، فما آتيكم كراهية ان املكم، لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتخولنا بالموعظة في الايام، كراهية السآمة علينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ سُلَيْمَانُ : سَمِعْتُ شَقِيقًا ، يَقُولُ: كُنَّا نَنْتَظِرُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ فِي الْمَسْجِدِ يَخْرُجُ عَلَيْنَا، فَجَاءَنَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ يَعْنِي النَّخَعِيَّ، قَالَ: فَقَالَ: أَلَا أَذْهَبُ فَأَنْظُرَ؟ فَإِنْ كَانَ فِي الدَّارِ، لَعَلِّي أَنْ أُخْرِجَهُ إِلَيْكُمْ، فَجَاءَنَا، فَقَامَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيُذْكَرُ لِي مَكَانُكُمْ، فَمَا آتِيكُمْ كَرَاهِيَةَ أَنْ أُمِلَّكُمْ، لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ، كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
شقیق کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ مسجد میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا انتظار کر رہے تھے، اتنی دیر میں یزید بن معاویہ نخعی آ گئے، وہ کہنے لگے: میں جا کر دیکھوں؟ اگر وہ گھر میں ہوئے شاید میں انہیں آپ کے پاس لا سکوں؟ چنانچہ تھوڑی دیر میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں، میں آپ کے پاس صرف اس وجہ سے نہیں آیا کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصیحت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن يزيد ، عن ابي الكنود : اصبت خاتما يوما، فذكره، فرآه ابن مسعود في يده، فقال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حلقة الذهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْكَنُودِ : أَصَبْتُ خَاتَمًا يَوْمًا، فذكره، فرآه ابنُ مسعود في يده، فقال:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَلَقَةِ الذَّهَبِ".
ابوالکنود کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس پر نگاہ پڑ گئی، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے چھلے سے منع فرمایا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف منقطع، يزيد ضعيف ، ولم يسمع من أبى الكنود
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، عن ابن مسعود : انشق القمر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم شقتين، حتى نظروا إليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اشهدوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ : انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقَّتَيْنِ، حَتَّى نَظَرُوا إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اشْهَدُوا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا اور سب لوگوں نے اسے دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گواہ رہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابن ابي نجيح ، عن مجاهد ، عن ابي معمر ، عن عبد الله بن مسعود ،" دخل النبي صلى الله عليه وسلم، وحول الكعبة ستون وثلاث مائة نصب، فجعل يطعنها بعود كان بيده، ويقول: جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد سورة سبا آية 49، جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا سورة الإسراء آية 81.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ،" دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ كَانَ بِيَدِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ سورة سبأ آية 49، جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سورة الإسراء آية 81.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے، اس وقت خانہ کعبہ کے ارد گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی انہیں چبھوتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے: «﴿جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ﴾ [سبأ: 49] »”حق آ گیا اور باطل کسی چیز کو نہ پیدا کر سکتا ہے اور نہ لوٹا کر لا سکتا ہے“، نیز یہ کہ «﴿جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا﴾ [الإسراء: 81] »”حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا، بےشک باطل تو بھاگنے والا ہے ہی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: وليس منها من يقدمها، وقرئ على سفيان: سمعت يحيى الجابر ، عن ابي ماجد الحنفي ، قال: سمعت عبد الله ، يقول: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن السير بالجنازة، فقال:" متبوعة، وليست بتابعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: وَلَيْسَ مِنْهَا مَنْ يَقْدُمُهَا، وَقُرِئَ عَلَى سُفْيَانُ: سَمِعْتُ يَحْيَى الْجَابِرَ ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ الْحَنَفِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّيْرِ بِالْجِنَازَةِ، فَقَالَ:" مَتْبُوعَةٌ، وَلَيْسَتْ بِتَابِعَةٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی نے صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنازہ کو متبوع ہونا چاہئے نہ کہ تابع“(جنازے کو آگے اور چلنے والوں کو اس کے پیچھے ہونا چاہئے)۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ماجد الحنفي وضع يحيى الجابر
(حديث مرفوع) حدثنا حفص بن غياث ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن الاسود ، عن عبد الله ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى، قال: فخرجت علينا حية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقتلوها"، فابتدرناها، فسبقتنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى، قَالَ: فَخَرَجَتْ عَلَيْنَا حَيَّةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْتُلُوهَا"، فَابْتَدَرْنَاهَا، فَسَبَقَتْنَا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ کے میدان میں تھے کہ اچانک ایک سانپ نکل آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مار ڈالو“، ہم جلدی سے اس کی طرف بڑھے لیکن وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن إدريس ، قال: سمعت الاعمش يروي عن شقيق ، قال: كان عبد الله يخرج إلينا، فيقول: إني لاخبر بمكانكم، وما يمنعني ان اخرج إليكم إلا كراهية ان املكم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" يتخولنا بالموعظة في الايام، كراهية السآمة علينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يَرْوِي عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَخْرُجُ إِلَيْنَا، فَيَقُولُ: إِنَِّي لَأُخْبَرُ بِمَكَانِكُمْ، وَمَا يَمْنَعُنِي أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ إِلَّا كَرَاهِيَةُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ فِي الْأَيَّامِ، كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
شقیق کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں، میں آپ کے پاس صرف اس وجہ سے نہیں آیا کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصیحت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔