(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر بن مضر ، عن ابن الهاد ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عام غزوة تبوك قام من الليل يصلي، فاجتمع وراءه رجال من اصحابه يحرسونه، حتى إذا صلى وانصرف إليهم، فقال لهم:" لقد اعطيت الليلة خمسا، ما اعطيهن احد قبلي: اما انا فارسلت إلى الناس كلهم عامة، وكان من قبلي إنما يرسل إلى قومه، ونصرت على العدو بالرعب، ولو كان بيني وبينهم مسيرة شهر لملئ منه رعبا، واحلت لي الغنائم آكلها، وكان من قبلي يعظمون اكلها، كانوا يحرقونها، وجعلت لي الارض مساجد وطهورا، اينما ادركتني الصلاة تمسحت وصليت، وكان من قبلي يعظمون ذلك، إنما كانوا يصلون في كنائسهم وبيعهم، والخامسة، هي ما هي، قيل لي سل، فإن كل نبي قد سال، فاخرت مسالتي إلى يوم القيامة، فهي لكم ولمن شهد ان لا إله إلا الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنْ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ غَزْوَةِ تَبُوكَ قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يُصَلِّي، فَاجْتَمَعَ وَرَاءَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يَحْرُسُونَهُ، حَتَّى إِذَا صَلَّى وَانْصَرَفَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ لَهُمْ:" لَقَدْ أُعْطِيتُ اللَّيْلَةَ خَمْسًا، مَا أُعْطِيَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: أَمَّا أَنَا فَأُرْسِلْتُ إِلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ عَامَّةً، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي إِنَّمَا يُرْسَلُ إِلَى قَوْمِهِ، وَنُصِرْتُ عَلَى الْعَدُوِّ بِالرُّعْبِ، وَلَوْ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ مَسِيرَةُ شَهْرٍ لَمُلِئَ مِنْهُ رُعْبًا، وَأُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ آكُلُهَا، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي يُعَظِّمُونَ أَكْلَهَا، كَانُوا يُحْرِقُونَهَا، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسَاجِدَ وَطَهُورًا، أَيْنَمَا أَدْرَكَتْنِي الصَّلَاةُ تَمَسَّحْتُ وَصَلَّيْتُ، وَكَانَ مَنْ قَبْلِي يُعَظِّمُونَ ذَلِكَ، إِنَّمَا كَانُوا يُصَلُّونَ فِي كَنَائِسِهِمْ وَبِيَعِهِمْ، وَالْخَامِسَةُ، هِيَ مَا هِيَ، قِيلَ لِي سَلْ، فَإِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ قَدْ سَأَلَ، فَأَخَّرْتُ مَسْأَلَتِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَهِيَ لَكُمْ وَلِمَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز تہجد کے لئے بیدار ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بہت سے صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ حفاظت کے خیال سے جمع ہو گئے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”آج رات مجھے پانچ خوبیاں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں چنانچہ مجھے ساری انسانیت کی طرف عمومی طور پر پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے ایک مخصوص قوم کی طرف پیغمبر آیا کرتے تھے۔ دشمن پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ اگر میرے اور دشمن کے درمیان ایک مہینے کی مسافت بھی ہو تو وہ رعب سے بھرپور ہوجاتا ہے میرے لئے مال غنیمت کو کلی طور پر حلال قرار دے دیا گیا ہے جبکہ مجھ سے پہلے انبیاء کر ام (علیہم السلام) اسے کھانا بڑا گناہ سمجھتے تھے اس لئے وہ اسے جلادیتے تھے۔ پھر میرے لئے پوری زمین کو مسجد اور باعث پاکیزگی بنادیا گیا ہے جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے میں زمین ہی پر تیمم کر کے نماز پڑھ لوں گا مجھ سے پہلے انبیاء کر ام (علیہم السلام) اسے بہت بڑی بات سمجھتے تھے اس لئے وہ صرف اپنے گرجوں اور معبدوں میں ہی نماز پڑھتے تھے اور پانچویں خوبی سب سے بڑی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے کہا گیا آپ مانگیں کیونکہ ہر نبی نے مانگا ہے لیکن میں نے اپنا سوال قیامت کے دن تک مؤخر کر دیا ہے جس کا فائدہ تمہیں اور لاالہ الا اللہ کی گواہی دینے والے ہر شخص کو ہو گا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دروازے سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو گا وہ جنتی ہو گا چنانچہ وہاں سے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیماری متعدی ہونے، بدشگونی، مردے کی کھوپڑی کے کیڑے اور حسد کی کوئی حیثیت نہیں، البتہ نظر لگ جانا برحق ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله : «ولاحسد» ، وهذا إسناد ضعيف لضعف رشدين بن سعد.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن يزيد بن ابي حبيب ، عن عمرو بن الوليد ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، هل تحس بالوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، اسمع صلاصل، ثم اسكت عند ذلك، فما من مرة يوحى إلي إلا ظننت ان نفسي تفيض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ تُحِسُّ بِالْوَحْيِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، أَسْمَعُ صَلَاصِلَ، ثُمَّ أَسْكُتُ عِنْدَ ذَلِكَ، فَمَا مِنْ مَرَّةٍ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا ظَنَنْتُ أَنَّ نَفْسِي تَفِيضُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ!! کیا آپ کو وحی کا احساس ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! مجھے گھنٹیوں کی آواز محسوس ہوتی ہے اس وقت میں خاموش ہوجاتا ہوں اور جتنی مرتبہ بھی مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ہر مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب میری روح نکل جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، وعمرو بن الوليد مجهول. قوله : «أسمع صلاصل» له أصل فى الصحيح، خ:2 ، م:2333.
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة ، حدثنا ابن لهيعة ، عن الحارث بن يزيد ، عن جندب بن عبد الله ، عن سفيان بن عوف ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطلعت الشمس، فقال:" ياتي الله قوم يوم القيامة، نورهم كنور الشمس"، فقال ابو بكر: انحن هم يا رسول الله؟ قال:" لا، ولكم خير كثير ولكنهم الفقراء والمهاجرون الذين يحشرون من اقطار الارض". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال:" طوبى للغرباء، طوبى للغرباء طوبى للغرباء"، فقيل: من الغرباء يا رسول الله؟ قال:" ناس صالحون في ناس سوء كثير، من يعصيهم اكثر ممن يطيعهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" يَأْتِي اللَّهَ قَوْمٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، نُورُهُمْ كَنُورِ الشَّمْسِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَحْنُ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكُمْ خَيْرٌ كَثِيرٌ وَلَكِنَّهُمْ الْفُقَرَاءُ وَالْمُهَاجِرُونَ الَّذِينَ يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ:" طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ، طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ"، فَقِيلَ: مَنْ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" نَاسٌ صَالِحُونَ فِي نَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس وقت سورج طلوع ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ اس طرح آئیں گے کہ ان کا نور سورج کی روشنی کی طرح ہو گا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ!! کیا وہ ہم لوگ ہوں گے؟ فرمایا: ”نہیں تمہارے لئے خیر کثیر ہے لیکن یہ وہ فقراء مہاجرین ہوں گے جنہیں زمین کے کونے کونے سے جمع کر لیا جائے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”کہ خوشخبری ہے غرباء کے لئے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! غرباء سے کون لوگ مراد ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برے لوگوں کے جم غفیر میں تھوڑے سے نیک لوگ، جن کی بات ماننے والوں کی تعداد سے زیادہ نہ ماننے والوں کی تعداد ہو۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا حق نہ پہچانے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی اپنے حلہ میں متکبرانہ چال چلتا جا رہا تھا کہ اللہ نے زمین کو حکم دیا اس نے اسے پکڑ لیا اور اب وہ قیامت تک اس میں دھنستا ہی رہے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن فضيل سمع من عطاء بعد الاختلاط.
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني اسامة ، ان عمرو بن شعيب حدثه، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إني انزع في حوضي، حتى إذا ملاته لاهلي، ورد علي البعير لغيري فسقيته، فهل لي في ذلك من اجر؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" في كل ذات كبد حرى اجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ شُعَيْبٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَنْزِعُ فِي حَوْضِي، حَتَّى إِذَا مَلَأْتُهُ لِأَهْلِي، وَرَدَ عَلَيَّ الْبَعِيرُ لِغَيْرِي فَسَقَيْتُهُ، فَهَلْ لِي فِي ذَلِكَ مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا میں اپنے حوض میں پانی لا کر بھرتا ہوں جب اپنے گھروالوں کے لئے بھر لیتا ہوں تو کسی دوسرے آدمی کا اونٹ میرے پاس آتا ہے میں اسے پانی پلا دیتا ہوں تو کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر حرارت والے جگہ میں اجر ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے اسے نیا وضو کر لینا چاہئے اور جو عورت اپنی شرمگاہ کو چھوئے وہ بھی نیا وضو کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عف?ان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة ، عن ابي ايوب ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" وقت صلاة الظهر إذا زالت الشمس، وكان ظل الرجل كطوله، ما لم تحضر العصر، ووقت صلاة العصر ما لم تصفر الشمس، ووقت صلاة المغرب ما لم يغب الشفق، ووقت صلاة العشاء إلى نصف الليل، ووقت صلاة الصبح من طلوع الفجر ما لم تطلع الشمس، فإذا طلعت فامسك، فإنها تطلع بين قرني شيطان او مع قرني شيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفّ?انُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَقْتُ صَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا زَالَتْ الشَّمْسُ، وَكَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ كَطُولِهِ، مَا لَمْ تَحْضُرْ الْعَصْرُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعَصْرِ مَا لَمْ تَصْفَرَّ الشَّمْسُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ مَا لَمْ يَغِبْ الشَّفَقُ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، وَوَقْتُ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ طُلُوعِ الْفَجْرِ مَا لَمْ تَطْلُعْ الشَّمْسُ، فَإِذَا طَلَعَتْ فَأَمْسِكْ، فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ أَوْ مَعَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر کا وقت زوال شمس کے وقت ہوتا ہے جب کہ ہر آدمی کا سایہ اس کی لمبائی کے برابر ہو اور یہ اس وقت تک رہتا ہے جس تک عصر کا وقت نہ ہو جائے عصر کا وقت سورج کے پیلا ہونے سے پہلے تک ہے مغرب کا وقت غروب شفق سے پہلے تک ہے عشاء کا وقت رات کے پہلے نصف تک ہے فجر کا وقت طلوع فجر سے لے کر اس وقت تک رہتا ہے جب تک سورج طلوع نہ ہو جائے جب سورج طلوع ہو جائے تو نماز پڑھنے سے رک جاؤ کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے۔