سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں انہیں لکھ لیا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! میں نے پوچھا رضامندی اور ناراضگی دونوں حالتوں میں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں کیونکہ میری زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران سفر روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں جانب سے واپس جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب ، حدثنا حسين ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ليس لي مال، ولي يتيم؟ فقال:" كل من مال يتيمك، غير مسرف ولا مبذر، ولا متاثل مالا، ومن غير ان تقي مالك"، او قال:" تفدي مالك بماله". شك حسين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَيْسَ لِي مَالٌ، وَلِي يَتِيمٌ؟ فَقَالَ:" كُلْ مِنْ مَالِ يَتِيمِكَ، غَيْرَ مُسْرِفٍ وَلَا مُبَذِّرٍ، وَلَا مُتَأَثِّلٍ مَالًا، وَمِنْ غَيْرِ أَنْ تَقِيَ مَالَكَ"، أَوْ قَالَ:" تَفْدِيَ مَالَكَ بِمَالِهِ". شَكَّ حُسَيْنٌ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس تو مال نہیں ہے البتہ ایک یتیم بھتیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے یتیم بھتیجے کے مال میں سے تم کھا سکتے ہو کہ جو اسراف کے زمرے میں آئے یا یہ فرمایا: ”کہ اپنے مال کو اس کے مال کے بدلے فدیہ نہ بناؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبيدة بن حميد ابو عبد الرحمن ، حدثني عطاء بن السائب ، عن ابيه ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الله بن عمرو، في كم تقرا القرآن؟"، قال: قلت: في يومي وليلتي، قال: فقال لي:" ارقد وصل، وارقد، واقراه في كل شهر"، قال: فما زلت اناقصه ويناقصني، إلى ان قال:" اقراه في كل سبع ليال"، قال ابي: ولم افهم، وسقطت علي كلمة، قال: ثم قال: قلت: إني اصوم ولا افطر؟ قال: فقال لي:" صم وافطر، وصم ثلاثة ايام من كل شهر"، فما زلت اناقصه ويناقصني، حتى قال:" صم احب الصيام إلى الله عز وجل، صيام داود، صم يوما، وافطر يوما"، فقال عبد الله بن عمرو: لان اكون قبلت رخصة رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي من ان يكون لي حمر النعم، حسبته شك عبيدة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، فِي كَمْ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: فِي يَوْمِي وَلَيْلَتِي، قَالَ: فَقَالَ لِي:" ارْقُدْ وَصَلِّ، وَارْقُدْ، وَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ شَهْرٍ"، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ وَيُنَاقِصُنِي، إِلَى أَنْ قَالَ:" اقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعِ لَيَالٍ"، قَالَ أَبِي: وَلَمْ أَفْهَمْ، وَسَقَطَتْ عَلَيَّ كَلِمَةٌ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَصُومُ وَلَا أُفْطِرُ؟ قَالَ: فَقَالَ لِي:" صُمْ وَأَفْطِرْ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَمَا زِلْتُ أُنَاقِصُهُ وَيُنَاقِصُنِي، حَتَّى قَالَ:" صُمْ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، صِيَامَ دَاوُدَ، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا"، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ رُخْصَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي حُمْرُ النَّعَمِ، حَسِبْتُهُ شَكَّ عَبِيدَةُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمرو تم کتنے عرصے میں قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کیا ایک دن رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”سویا بھی کرو نماز بھی پڑھا کرو اور ہر مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید کمی کرواتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمی کرتے رہے حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر سات راتوں میں ایک قرآن پڑھا کرو (میرے والد کہتے ہیں کہ یہاں ایک کلمہ مجھ سے چھوٹ گیا ہے جسے میں سمجھ نہیں سکا) پھر میں نے عرض کیا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھتا ہوں کبھی ناغہ نہیں کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”روزہ بھی رکھا کرو اور ناغہ بھی کیا کرو اور ہر مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلسل کمی کرواتا رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کمی کرتے رہے حتیٰ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طریقے سے روزہ رکھ لیا کرو جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے اور سیدنا داؤدعلیہ السلام کا طریقہ ہے یعنی ایک دن روزہ رکھ لیا کرو۔ اور ایک دن ناغہ کر لیا کرو بعد میں سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اب مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیناسرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف، عبيدة بن حميد سمع من عطاء بن السائب بعد الاختلاط، قد تابعه حماد بن زيد عند أبى داود، وهو ممن سمع منه قديما.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ زکوٰۃ کے جانوروں کو اپنے پاس منگوانے کی اور زکوٰۃ سے بچنے کی کوئی حیثیت نہیں مسلمان سے زکوٰۃ ان کے علاقے ہی میں جا کروصول کی جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو سفيان الحرشي ، وكان ثقة فيما ذكر اهل بلاده، عن مسلم بن جبير مولى ثقيف، وكان مسلم رجلا يؤخذ عنه، وقد ادرك، وسمع عن عمرو بن حريش الزبيدي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت يا ابا محمد، إنا بارض لسنا نجد بها الدينار والدرهم، وإنما اموالنا المواشي، فنحن نتبايعها بيننا، فنبتاع البقرة بالشاة نظرة إلى اجل، والبعير بالبقرات، والفرس بالاباعر، كل ذلك إلى اجل، فهل علينا في ذلك من باس؟ فقال على الخبير: سقطت، امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابعث جيشا على إبل كانت عندي، قال: فحملت الناس عليها، حتى نفدت الإبل، وبقيت بقية من الناس، قال: فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، الإبل قد نفدت، وقد بقيت بقية من الناس لا ظهر لهم، قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتع علينا إبلا بقلائص من إبل الصدقة إلى محلها، حتى ننفذ هذا البعث"، قال: فكنت ابتاع البعير بالقلوصين والثلاث من إبل الصدقة إلى محلها، حتى نفذت ذلك البعث، قال: فلما حلت الصدقة اداها رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ الْحَرَشِيُّ ، وَكَانَ ثِقَةً فِيمَا ذَكَرَ أَهْلُ بِلَادِهِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَيْرٍ مَوْلَى ثَقِيفٍ، وَكَانَ مُسْلِمٌ رَجُلًا يُؤْخَذُ عَنْهُ، وَقَدْ أَدْرَكَ، وَسَمِعَ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْشٍ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّا بِأَرْضٍ لَسْنَا نَجِدُ بِهَا الدِّينَارَ وَالدِّرْهَمَ، وَإِنَّمَا أَمْوَالُنَا الْمَوَاشِي، فَنَحْنُ نَتَبَايَعُهَا بَيْنَنَا، فَنَبْتَاعُ الْبَقَرَةَ بِالشَّاةِ نَظِرَةً إِلَى أَجَلٍ، وَالْبَعِيرَ بِالْبَقَرَاتِ، وَالْفَرَسَ بِالْأَبَاعِرِ، كُلُّ ذَلِكَ إِلَى أَجَلٍ، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ بَأْسٍ؟ فَقَالَ عَلَى الْخَبِيرِ: سَقَطْتَ، أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبْعَثَ جَيْشًا عَلَى إِبِلٍ كَانَتْ عِنْدِي، قَالَ: فَحَمَلْتُ النَّاسَ عَلَيْهَا، حَتَّى نَفِدَتْ الْإِبِل، وَبَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْإِبِلُ قَدْ نَفِدَتْ، وَقَدْ بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ لَا ظَهْرَ لَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَعْ عَلَيْنَا إِبِلًا بِقَلَائِصَ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نُنَفِّذَ هَذَا الْبَعْثَ"، قَالَ: فَكُنْتُ أَبْتَاعُ الْبَعِيرَ بِالْقَلُوصَيْنِ وَالثَّلَاثِ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نَفَّذْتُ ذَلِكَ الْبَعْثَ، قَالَ: فَلَمَّا حَلَّتْ الصَّدَقَةُ أَدَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمرو بن حریش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم لوگ ایسے علاقے میں ہوتے ہیں جہاں دینار یا درہم نہیں چلتے ہم ایک وقت مقررہ تک کے لئے اونٹ اور بکر ی کے بدلے خریدو فروخت کر لیتے ہیں آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”تم نے ایک باخبر آدمی سے دریافت کیا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا اس امید پر کہ صدقہ کے اونٹ آجائیں گے اونٹ ختم ہو گئے اور کچھ لوگ باقی بچ گئے (جنہیں سواری نہ مل سکی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ہمارے لئے اس شرط پر اونٹ خرید کر لاؤ کہ صدقہ کے اونٹ پہنچنے پر وہ دے دیئے جائیں گے چنانچہ میں نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خریدا بعض اوقات تین کے بدلے بھی خریدا یہاں تک کہ میں فارغ ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی فرما دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: ذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في عقل الجنين إذا كان في بطن امه، بغرة عبد او امة، فقضى بذلك في امراة حمل بن مالك بن النابغة الهذلي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: ذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَقْلِ الْجَنِينِ إِذَا كَانَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ، بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، فَقَضَى بِذَلِكَ فِي امْرَأَةِ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيِّ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنین یعنی وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہو (اور کوئی شخص اسے ماردے) کی دیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غرہ یعنی غلام یا باندی کا فیصلہ فرمایا: ”ہے یہ فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ کی بیوی کے متعلق فرمایا: ”تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، ابن إسحاق مدلس، ولم يصرح هنا بالتحديث.
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا شغار في الإسلام".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا شِغَارَ فِي الْإِسْلَامِ".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں نکاح شغار (وٹے سٹے) کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: وذكر عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال:" قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في ولد المتلاعنين، انه يرث امه، وترثه امه، ومن قفاها به جلد ثمانين، ومن دعاه ولد زنا جلد ثمانين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَذَكَرَ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ:" قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَلَدِ الْمُتَلَاعِنَيْنِ، أَنَّهُ يَرِثُ أُمَّهُ، وَتَرِثُهُ أُمُّهُ، وَمَنْ قَفَاهَا بِهِ جُلِدَ ثَمَانِينَ، وَمَنْ دَعَاهُ وَلَدَ زِنًا جُلِدَ ثَمَانِينَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعان کر نے والوں کے بچے کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ وہ اپنی ماں کا وارث ہو گا اور اس کی ماں اسی کی وارث ہو گی اور جو شخص اس کی ماں پر تہمت لگائے گا اسے اسی کوڑوں کی سزا ہو گی اور جو شخص اس کی ماں پر تہمت لگائے کأ اسے اسی کوڑوں کی سزاہو گی اور جو شخص اسے والد الزنا کہہ کر پکارے گا اسے بھی اسی کوڑے مارے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس وقد عنعن.