(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني ابو سفيان الحرشي ، وكان ثقة فيما ذكر اهل بلاده، عن مسلم بن جبير مولى ثقيف، وكان مسلم رجلا يؤخذ عنه، وقد ادرك، وسمع عن عمرو بن حريش الزبيدي ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: قلت يا ابا محمد، إنا بارض لسنا نجد بها الدينار والدرهم، وإنما اموالنا المواشي، فنحن نتبايعها بيننا، فنبتاع البقرة بالشاة نظرة إلى اجل، والبعير بالبقرات، والفرس بالاباعر، كل ذلك إلى اجل، فهل علينا في ذلك من باس؟ فقال على الخبير: سقطت، امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ابعث جيشا على إبل كانت عندي، قال: فحملت الناس عليها، حتى نفدت الإبل، وبقيت بقية من الناس، قال: فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، الإبل قد نفدت، وقد بقيت بقية من الناس لا ظهر لهم، قال: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابتع علينا إبلا بقلائص من إبل الصدقة إلى محلها، حتى ننفذ هذا البعث"، قال: فكنت ابتاع البعير بالقلوصين والثلاث من إبل الصدقة إلى محلها، حتى نفذت ذلك البعث، قال: فلما حلت الصدقة اداها رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ الْحَرَشِيُّ ، وَكَانَ ثِقَةً فِيمَا ذَكَرَ أَهْلُ بِلَادِهِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ جُبَيْرٍ مَوْلَى ثَقِيفٍ، وَكَانَ مُسْلِمٌ رَجُلًا يُؤْخَذُ عَنْهُ، وَقَدْ أَدْرَكَ، وَسَمِعَ عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْشٍ الزُّبَيْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: قُلْتُ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّا بِأَرْضٍ لَسْنَا نَجِدُ بِهَا الدِّينَارَ وَالدِّرْهَمَ، وَإِنَّمَا أَمْوَالُنَا الْمَوَاشِي، فَنَحْنُ نَتَبَايَعُهَا بَيْنَنَا، فَنَبْتَاعُ الْبَقَرَةَ بِالشَّاةِ نَظِرَةً إِلَى أَجَلٍ، وَالْبَعِيرَ بِالْبَقَرَاتِ، وَالْفَرَسَ بِالْأَبَاعِرِ، كُلُّ ذَلِكَ إِلَى أَجَلٍ، فَهَلْ عَلَيْنَا فِي ذَلِكَ مِنْ بَأْسٍ؟ فَقَالَ عَلَى الْخَبِيرِ: سَقَطْتَ، أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبْعَثَ جَيْشًا عَلَى إِبِلٍ كَانَتْ عِنْدِي، قَالَ: فَحَمَلْتُ النَّاسَ عَلَيْهَا، حَتَّى نَفِدَتْ الْإِبِل، وَبَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْإِبِلُ قَدْ نَفِدَتْ، وَقَدْ بَقِيَتْ بَقِيَّةٌ مِنَ النَّاسِ لَا ظَهْرَ لَهُمْ، قَالَ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْتَعْ عَلَيْنَا إِبِلًا بِقَلَائِصَ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نُنَفِّذَ هَذَا الْبَعْثَ"، قَالَ: فَكُنْتُ أَبْتَاعُ الْبَعِيرَ بِالْقَلُوصَيْنِ وَالثَّلَاثِ مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ إِلَى مَحِلِّهَا، حَتَّى نَفَّذْتُ ذَلِكَ الْبَعْثَ، قَالَ: فَلَمَّا حَلَّتْ الصَّدَقَةُ أَدَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عمرو بن حریش رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ہم لوگ ایسے علاقے میں ہوتے ہیں جہاں دینار یا درہم نہیں چلتے ہم ایک وقت مقررہ تک کے لئے اونٹ اور بکر ی کے بدلے خریدو فروخت کر لیتے ہیں آپ کی اس بارے کیا رائے ہے؟ کیا اس میں کوئی حرج ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”تم نے ایک باخبر آدمی سے دریافت کیا ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کیا اس امید پر کہ صدقہ کے اونٹ آجائیں گے اونٹ ختم ہو گئے اور کچھ لوگ باقی بچ گئے (جنہیں سواری نہ مل سکی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ہمارے لئے اس شرط پر اونٹ خرید کر لاؤ کہ صدقہ کے اونٹ پہنچنے پر وہ دے دیئے جائیں گے چنانچہ میں نے دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ خریدا بعض اوقات تین کے بدلے بھی خریدا یہاں تک کہ میں فارغ ہو گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے اس کی ادائیگی فرما دی۔