(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، عن ابن مسعود ، قال: اكثرنا الحديث عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذات ليلة، ثم غدونا إليه، فقال:" عرضت علي الانبياء الليلة باممها، فجعل النبي يمر، ومعه الثلاثة، والنبي ومعه العصابة، والنبي ومعه النفر، والنبي ليس معه احد، حتى مر علي موسى معه كبكبة من بني إسرائيل، فاعجبوني، فقلت: من هؤلاء؟ فقيل لي: هذا اخوك موسى، معه بنو إسرائيل، قال: قلت: فاين امتي؟ فقيل لي: انظر عن يمينك، فنظرت، فإذا الظراب قد سد بوجوه الرجال، ثم قيل لي: انظر عن يسارك، فنظرت، فإذا الافق قد سد بوجوه الرجال، فقيل لي: ارضيت؟ فقلت: رضيت يا رب، رضيت يا رب، قال: فقيل لي: إن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فدا لكم ابي وامي، إن استطعتم ان تكونوا من السبعين الالف، فافعلوا، فإن قصرتم، فكونوا من اهل الظراب، فإن قصرتم، فكونوا من اهل الافق، فإني قد رايت ثم ناسا يتهاوشون"، فقام عكاشة بن محصن، فقال: ادع الله لي يا رسول الله، ان يجعلني من السبعين، فدعا له، فقام رجل آخر، فقال: ادع الله، يا رسول الله، ان يجعلني منهم، فقال:" قد سبقك بها عكاشة"، قال: ثم تحدثنا، فقلنا: من ترون هؤلاء السبعون الالف؟ قوم ولدوا في الإسلام، لم يشركوا بالله شيئا حتى ماتوا؟ فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هم الذين لا يكتوون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَكْثَرْنَا الْحَدِيثَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ لَيْلَةٍ، ثُمَّ غَدَوْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأَنْبِيَاءُ اللَّيْلَةَ بِأُمَمِهَا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ يَمُرُّ، وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى مَرَّ عَلَيَّ مُوسَى مَعَهُ كَبْكَبَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَأَعْجَبُونِي، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ فَقِيلَ لِي: هَذَا أَخُوكَ مُوسَى، مَعَهُ بَنُو إِسْرَائِيلَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ أُمَّتِي؟ فَقِيلَ لِيَ: انْظُرْ عَنْ يَمِينِكَ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الظِّرَابُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قِيلَ لِيَ: انْظُرْ عَنْ يَسَارِكَ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، فَقِيلَ لِي: أَرَضِيتَ؟ فَقُلْتُ: رَضِيتُ يَا رَبِّ، رَضِيتُ يَا رَبِّ، قَالَ: فَقِيلَ لِي: إِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِدًا لَكُمْ أَبِي وَأُمِّي، إِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِنَ السَّبْعِينَ الْأَلْفِ، فَافْعَلُوا، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الظِّرَابِ، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الْأُفُقِ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ ثَمَّ نَاسًا يَتَهَاوَشُونَ"، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يَجْعَلَنِي مِنَ السَّبْعِينَ، فَدَعَا لَهُ، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:" قَدْ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ"، قَالَ: ثُمَّ تَحَدَّثْنَا، فَقُلْنَا: مَنْ تَرَوْنَ هَؤُلَاءِ السَّبْعُونَ الْأَلْفُ؟ قَوْمٌ وُلِدُوا فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا حَتَّى مَاتُوا؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُمْ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے، جب صبح کو حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے سامنے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی امتوں کے ساتھ پیش کیا گیا، چنانچہ ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ صرف تین آدمی تھے، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک گروہ تھا، اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا، حتی کہ میرے پاس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گزر ہوا جن کے ساتھ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد تھی، جسے دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے لوگ ہیں، میں نے پوچھا کہ پھر میری امت کہاں ہے؟ مجھ سے کہا گیا کہ اپنی دائیں جانب دیکھئے، میں نے دائیں جانب دیکھا تو ایک ٹیلہ لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی بائیں جانب دیکھئے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو افق لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا کیا آپ راضی ہیں؟ میں نے کہا: پروردگار! میں راضی ہوں، میں خوش ہوں، پھر مجھ سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ستر ہزار ایسے بھی ہوں گے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اگر تم ستر ہزار والے افراد میں شامل ہو سکو تو ایسا ہی کرو، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو ٹیلے والوں میں شامل ہو جاؤ، اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو افق والوں میں شامل ہو جاؤ، کیونکہ میں نے وہاں بہت سے لوگوں کو ملتے ہوئے دیکھا ہے۔“ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم ان میں شامل ہو“، پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تم پر سبقت لے گئے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہو گئے اور لوگ یہ بحث کرنے لگے کہ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہونے والے یہ لوگ کون ہوں گے؟ بعض کہنے لگے کہ ہو سکتا ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہوں، بعض نے کہا کہ شاید اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے ہوں اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہ کیا ہو، اسی طرح کچھ اور آراء بھی لوگوں نے دیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ کر علاج نہیں کرتے، جھاڑ پھونک اور منتر نہیں کرتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحسن البصري وإن لم يسمع من عمران، قد تابعه العلاء بن زياد.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فلم يجدوا ماء، فاتي بتور من ماء، فوضع النبي صلى الله عليه وسلم فيه يده، وفرج بين اصابعه، قال: فرايت الماء يتفجر من بين اصابع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" حي على الوضوء، والبركة من الله"، قال الاعمش: فاخبرني سالم بن ابي الجعد، قال: قلت لجابر بن عبد الله: كم كان الناس يومئذ؟ قال: كنا الفا وخمس مائة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمْ يَجِدُوا مَاءً، فَأُتِيَ بِتَوْرٍ مِنْ مَاءٍ، فَوَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ يَدَهُ، وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْمَاءَ يَتَفَجَّرُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" حَيَّ عَلَى الْوُضُوءِ، وَالْبَرَكَةُ مِنَ اللَّهِ"، قَالَ الْأَعْمَشُ: فَأَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: كَمْ كَانَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: كُنَّا أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، پانی نہیں مل رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس میں ڈالا اور انگلیاں کشادہ کر کے کھول دیں، میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی کے چشمے بہہ پڑے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جا رہے تھے: ”وضو کے لئے آؤ، یہ برکت اللہ کی طرف سے ہے۔“ اعمش کہتے ہیں کہ مجھے سالم بن ابی الجعد نے بتایا کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا اس دن کتنے لوگ تھے؟ فرمایا: ہماری تعداد ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رجل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: كيف لي ان اعلم إذا احسنت، وإذا اسات؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا سمعت جيرانك يقولون: قد احسنت، فقد احسنت، وإذا سمعتهم يقولون: قد اسات، فقد اسات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ، وَإِذَا أَسَأْتُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا سَمِعْتَ جِيرَانَكَ يَقُولُونَ: قَدْ أَحْسَنْتَ، فَقَدْ أَحْسَنْتَ، وَإِذَا سَمِعْتَهُمْ يَقُولُونَ: قَدْ أَسَأْتَ، فَقَدْ أَسَأْتَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اپنی نیکی اور برائی کا کیسے پتہ چلے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اپنے پڑوسیوں کو اپنے متعلق یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا تو واقعی تم نے اچھا کام کیا، اور جب تم لوگوں کو اپنے متعلق یہ کہتے ہوئے سنو کہ تو نے برا کام کیا تو تم نے واقعی برا کام کیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، انبانا شريك ، عن سماك ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لعن الله آكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاتبه". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وقال:" ما ظهر في قوم الربا والزنا، إلا احلوا بانفسهم عقاب الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ آكِلَ الرِّبَا، وَمُوكِلَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَكَاتِبَهُ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَقَالَ:" مَا ظَهَرَ فِي قَوْمٍ الرِّبَا وَالزِّنَا، إِلَّا أَحَلُّوا بِأَنْفُسِهِمْ عِقَابَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”سود کھانے والے، کھلانے والے، سودی معاملے پر گواہ بننے والے اور اسے تحریر کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو“، نیز یہ کہ ”جس قوم میں سود اور زنا کا غلبہ ہو جائے، وہ لوگ اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کر لیتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، م: 1597، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن زكريا ، عن إسرائيل ، عن ابي فزارة ، عن ابي زيد مولى عمرو بن حريث، عن ابن مسعود ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة لقي الجن، فقال:" امعك ماء؟" فقلت: لا، فقال:" ما هذا في الإداوة؟" قلت: نبيذ، قال:" ارنيها، تمرة طيبة، وماء طهور"، فتوضا منها، ثم صلى بنا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي فَزَارَةَ ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ لَقِيَ الْجِنَّ، فَقَالَ:" أَمَعَكَ مَاءٌ؟" فَقُلْتُ: لَا، فَقَالَ:" مَا هَذَا فِي الْإِدَاوَةِ؟" قُلْتُ: نَبِيذٌ، قَالَ:" أَرِنِيهَا، تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ"، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، ثُمَّ صَلَّى بِنَا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں لیلۃ الجن کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”عبداللہ! کیا تمہارے پاس پانی ہے؟“ میں نے عرض کیا کہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس برتن میں کیا ہے؟“ میں نے عرض کیا: نبیذ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اسے میرے ہاتھوں پر ڈالو“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا اور فرمایا: ”اے عبداللہ بن مسعود! یہ پینے کی چیز بھی ہے اور طہارت بخش بھی ہے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی سے وضو کر کے نماز پڑھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، اخبرنا ابو بكر ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، قال: قال عبد الله : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من جعل لله ندا، جعله الله في النار". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقال: وقال: واخرى اقولها، لم اسمعها منه:" من مات لا يجعل لله ندا، ادخله الله الجنة، وإن هذه الصلوات كفارات لما بينهن ما اجتنب المقتل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ جَعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، جَعَلَهُ اللَّهُ فِي النَّارِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وقَالَ: وقَالَ: وَأُخْرَى أَقُولُهَا، لَمْ أَسْمَعْهَا مِنْهُ:" مَنْ مَاتَ لَا يَجْعَلُ لِلَّهِ نِدًّا، أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَإِنَّ هَذِهِ الصَّلَوَاتِ كَفَّارَاتٌ لِمَا بَيْنَهُنَّ مَا اجْتُنِبَ الْمَقْتَلُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں ہیں جن میں سے ایک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور دوسری میں اپنی طرف سے کہتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ ”جو شخص اس حال میں مر جائے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہوگا“، اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا، اور یہ نمازیں اپنے درمیانی وقت کے لئے کفارہ بن جاتی ہیں بشرطیکہ آدمی قتل و قتال سے بچتا رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، انبانا ابو بكر ، عن عاصم ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني فرطكم على الحوض، وإني سانازع رجالا، فاغلب عليهم، فاقول: يا رب اصحابي، فيقال: لا تدري ما احدثوا بعدك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَإِنِّي سَأُنَازَعُ رِجَالًا، فَأُغْلَبُ عَلَيْهِمْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أَصْحَابِي، فَيُقَالُ: لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں حوض کوثر پر تمہارا انتظار کروں گا، مجھ سے اس موقع پر کچھ لوگوں کے بارے جھگڑا کیا جائے گا اور میں مغلوب ہو جاؤں گا، میں عرض کروں گا: پروردگار! میرے ساتھی؟ ارشاد ہوگا کہ ”آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا چیزیں ایجاد کر لی تھیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن، خ: 6576 ، م: 2297.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں روزہ بھی رکھتے تھے اور افطار بھی فرماتے تھے، دوران سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازوں کی دو رکعتیں پڑھتے تھے، ان پر اضافہ نہیں فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبدالسلام ضعيف جدا ، منكر الحديث.
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، قال: سمعت عاصما يحدث، عن زر ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ عَاصِمًا يُحَدِّثُ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف جھوٹی نسبت کر کے کوئی بات بیان کرے اسے چاہئے کہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔“