(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن عمران بن حصين ، عن ابن مسعود ، قال: اكثرنا الحديث عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، ذات ليلة، ثم غدونا إليه، فقال:" عرضت علي الانبياء الليلة باممها، فجعل النبي يمر، ومعه الثلاثة، والنبي ومعه العصابة، والنبي ومعه النفر، والنبي ليس معه احد، حتى مر علي موسى معه كبكبة من بني إسرائيل، فاعجبوني، فقلت: من هؤلاء؟ فقيل لي: هذا اخوك موسى، معه بنو إسرائيل، قال: قلت: فاين امتي؟ فقيل لي: انظر عن يمينك، فنظرت، فإذا الظراب قد سد بوجوه الرجال، ثم قيل لي: انظر عن يسارك، فنظرت، فإذا الافق قد سد بوجوه الرجال، فقيل لي: ارضيت؟ فقلت: رضيت يا رب، رضيت يا رب، قال: فقيل لي: إن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فدا لكم ابي وامي، إن استطعتم ان تكونوا من السبعين الالف، فافعلوا، فإن قصرتم، فكونوا من اهل الظراب، فإن قصرتم، فكونوا من اهل الافق، فإني قد رايت ثم ناسا يتهاوشون"، فقام عكاشة بن محصن، فقال: ادع الله لي يا رسول الله، ان يجعلني من السبعين، فدعا له، فقام رجل آخر، فقال: ادع الله، يا رسول الله، ان يجعلني منهم، فقال:" قد سبقك بها عكاشة"، قال: ثم تحدثنا، فقلنا: من ترون هؤلاء السبعون الالف؟ قوم ولدوا في الإسلام، لم يشركوا بالله شيئا حتى ماتوا؟ فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" هم الذين لا يكتوون، ولا يسترقون، ولا يتطيرون، وعلى ربهم يتوكلون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: أَكْثَرْنَا الْحَدِيثَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَاتَ لَيْلَةٍ، ثُمَّ غَدَوْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْأَنْبِيَاءُ اللَّيْلَةَ بِأُمَمِهَا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ يَمُرُّ، وَمَعَهُ الثَّلَاثَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ النَّفَرُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى مَرَّ عَلَيَّ مُوسَى مَعَهُ كَبْكَبَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَأَعْجَبُونِي، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ فَقِيلَ لِي: هَذَا أَخُوكَ مُوسَى، مَعَهُ بَنُو إِسْرَائِيلَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ أُمَّتِي؟ فَقِيلَ لِيَ: انْظُرْ عَنْ يَمِينِكَ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الظِّرَابُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، ثُمَّ قِيلَ لِيَ: انْظُرْ عَنْ يَسَارِكَ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا الْأُفُقُ قَدْ سُدَّ بِوُجُوهِ الرِّجَالِ، فَقِيلَ لِي: أَرَضِيتَ؟ فَقُلْتُ: رَضِيتُ يَا رَبِّ، رَضِيتُ يَا رَبِّ، قَالَ: فَقِيلَ لِي: إِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِدًا لَكُمْ أَبِي وَأُمِّي، إِنْ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِنَ السَّبْعِينَ الْأَلْفِ، فَافْعَلُوا، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الظِّرَابِ، فَإِنْ قَصَّرْتُمْ، فَكُونُوا مِنْ أَهْلِ الْأُفُقِ، فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ ثَمَّ نَاسًا يَتَهَاوَشُونَ"، فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يَجْعَلَنِي مِنَ السَّبْعِينَ، فَدَعَا لَهُ، فَقَامَ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ:" قَدْ سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ"، قَالَ: ثُمَّ تَحَدَّثْنَا، فَقُلْنَا: مَنْ تَرَوْنَ هَؤُلَاءِ السَّبْعُونَ الْأَلْفُ؟ قَوْمٌ وُلِدُوا فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا حَتَّى مَاتُوا؟ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" هُمْ الَّذِينَ لَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ، وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں دیر تک باتیں کرتے رہے، جب صبح کو حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات میرے سامنے مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی امتوں کے ساتھ پیش کیا گیا، چنانچہ ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ صرف تین آدمی تھے، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک چھوٹی سی جماعت تھی، ایک نبی گزرے تو ان کے ساتھ ایک گروہ تھا، اور کسی نبی کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا، حتی کہ میرے پاس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گزر ہوا جن کے ساتھ بنی اسرائیل کی بہت بڑی تعداد تھی، جسے دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ کے بھائی موسیٰ ہیں اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے لوگ ہیں، میں نے پوچھا کہ پھر میری امت کہاں ہے؟ مجھ سے کہا گیا کہ اپنی دائیں جانب دیکھئے، میں نے دائیں جانب دیکھا تو ایک ٹیلہ لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا کہ اپنی بائیں جانب دیکھئے، میں نے بائیں جانب دیکھا تو افق لوگوں کے چہروں سے بھرا ہوا نظر آیا، پھر مجھ سے کہا گیا کیا آپ راضی ہیں؟ میں نے کہا: پروردگار! میں راضی ہوں، میں خوش ہوں، پھر مجھ سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ستر ہزار ایسے بھی ہوں گے جو بلا حساب کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”تم پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اگر تم ستر ہزار والے افراد میں شامل ہو سکو تو ایسا ہی کرو، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو ٹیلے والوں میں شامل ہو جاؤ، اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو افق والوں میں شامل ہو جاؤ، کیونکہ میں نے وہاں بہت سے لوگوں کو ملتے ہوئے دیکھا ہے۔“ یہ سن کر سیدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! تم ان میں شامل ہو“، پھر ایک اور آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عکاشہ تم پر سبقت لے گئے“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور اپنے گھر میں داخل ہو گئے اور لوگ یہ بحث کرنے لگے کہ بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہونے والے یہ لوگ کون ہوں گے؟ بعض کہنے لگے کہ ہو سکتا ہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہوں، بعض نے کہا کہ شاید اس سے مراد وہ لوگ ہوں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے ہوں اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہ کیا ہو، اسی طرح کچھ اور آراء بھی لوگوں نے دیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو داغ کر علاج نہیں کرتے، جھاڑ پھونک اور منتر نہیں کرتے، بدشگونی نہیں لیتے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحسن البصري وإن لم يسمع من عمران، قد تابعه العلاء بن زياد.