سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ فرمایا: تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ بطوروتر کے ایک رکعت اور ملا لو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کی نماز دو دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور جب صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو اور خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایک رکعت وتر پڑھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عمر ، حدثني كثير يعني ابن زيد ، عن المطلب بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر , انه كان واقفا بعرفات، فنظر إلى الشمس حين تدلت مثل الترس للغروب، فبكى، واشتد بكاؤه، فقال له رجل عنده: يا ابا عبد الرحمن، قد وقفت معي مرارا لم تصنع هذا! فقال: ذكرت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بمكاني هذا، فقال:" ايها الناس، إنه لم يبق من دنياكم فيما مضى منها إلا كما بقي من يومكم هذا فيما مضى منه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي كَثِيرٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ كَانَ وَاقِفًا بِعَرَفَاتٍ، فَنَظَرَ إِلَى الشَّمْسِ حِينَ تَدَلَّتْ مِثْلَ التُّرْسِ لِلْغُرُوبِ، فَبَكَى، وَاشْتَدَّ بُكَاؤُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ عِنْدَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَدْ وَقَفْتَ مَعِي مِرَارًا لِمَ تَصْنَعُ هَذَا! فَقَالَ: ذَكَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ بِمَكَانِي هَذَا، فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ دُنْيَاكُمْ فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ ایک مرتبہ میدان عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے انہوں نے سورج کو دیکھا جو غروب کے لئے ڈھال کی طرح لٹک آیا تھا وہ اسے دیکھ کر رونے لگے اور خوب روئے ایک آدمی نے پوچھا کہ اے ابو عبدالرحمن آپ کے ساتھ مجھے کئی مرتبہ وقوف کا موقع ملا ہے لیکن کبھی آپ نے ایسا نہیں کیا؟ انہوں نے فرمایا: کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد آگئی وہ بھی اسی جگہ پر وقوف کئے ہوئے تھے انہوں نے فرمایا: تھا لوگو! دنیا کی جتنی زندگی گزر چکی ہے اس کے بقیہ حصے کی نسبت صرف اتنی ہی ہے جتنی اس دن کے بقیہ حصے کی گزرے ہوئے دن کے ساتھ ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، المطلب بن عبدالله مدلس، وقد عنعن .
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عمر ، حدثنا مالك يعني ابن انس ، عن قطن بن وهب ، عن يحنس , ان مولاة لابن عمر اتته، فقالت: عليك السلام يا ابا عبد الرحمن، قال: وما شانك؟ قالت: اردت الخروج إلى الريف، فقال لها: اقعدي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يصبر على لاوائها وشدتها احد إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ أَنَسٍ ، عَنْ قَطَنِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ يُحَنَّسَ , أَنَّ مَوْلَاةً لِابْنِ عُمَرَ أَتَتْهُ، فَقَالَتْ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: وَمَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى الرِّيفِ، فَقَالَ لَهَا: اقْعُدِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقَولَ:" لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
یوحنس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک باندی ان کے پاس آگئی اور کہنے لگی اے ابوعبدالرحمن آپ کو سلام ہو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے پوچھا کیا مطلب؟ اس نے کہا کہ میں کسی سرسبز و شاداب علاقے میں جانا چاہتی ہوں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: بیٹھ جاؤ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مدینہ منورہ کی تکالیف اور سختیوں پر صبر کرے میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، حدثني سالم بن عبد الله ، ان عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" إذا قام إلى الصلاة يرفع يديه، حتى إذا كانتا حذو منكبيه كبر، ثم إذا اراد ان يركع رفعهما حتى يكونا حذو منكبيه، كبر وهما كذلك، ركع، ثم إذا اراد ان يرفع صلبه رفعهما حتى يكونا حذو منكبيه، ثم قال:" سمع الله لمن حمده"، ثم يسجد، ولا يرفع يديه في السجود، ويرفعهما في كل ركعة وتكبيرة كبرها قبل الركوع، حتى تنقضي صلاته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، حَتَّى إِذَا كَانَتَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ كَبَّرَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، كَبَّرَ وَهُمَا كَذَلِكَ، رَكَعَ، ثُمَّ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْفَعَ صُلْبَهُ رَفَعَهُمَا حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، ثُمَّ يَسْجُدُ، وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي السُّجُودِ، وَيَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ كَبَّرَهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ، حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ وہ کندھوں کے برابر آجاتے پھر تکبیر کہتے جب رکوع میں جاتے تو پھر اپنے ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ وہ کندھوں کے برابر آ جائے پھر تکبیر کہتے اور رکوع میں چلے جاتے جب اپنی پشت کو بلند کرنا چاہتے تو پھر اپنے ہاتھ اتنے بلند کرتے کہ وہ کندھوں کے برابرآجاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور سجدے میں چلے جاتے لیکن سجدے میں رفع یدین نہیں کرتے تھے البتہ ہر رکعت میں اور رکوع سے پہلے ہر تکبیر میں رفع یدین کرتے تھے یہاں تک کہ نماز مکمل ہوجاتی تھی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ فرمایا: تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ بطور وتر کے ایک رکعت اور ملا لو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے گویا اس کے اہل خانہ اور مال تباہ و برباد ہو گیا۔
(حديث قدسي) حدثنا يحيى بن ابي بكير , حدثنا زهير بن محمد ، عن موسى بن جبير ، عن نافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر ، انه سمع نبي الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن آدم صلى الله عليه وسلم لما اهبطه الله تعالى إلى الارض، قالت الملائكة: اي رب، اتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء، ونحن نسبح بحمدك ونقدس لك؟ قال: إني اعلم ما لا تعلمون , قالوا: ربنا نحن اطوع لك من بني آدم , قال الله تعالى للملائكة: هلموا ملكين من الملائكة، حتى يهبط بهما إلى الارض، فننظر كيف يعملان , قالوا: ربنا هاروت , وماروت , فاهبطا إلى الارض، ومثلت لهما الزهرة امراة من احسن البشر، فجاءتهما، فسالاها نفسها، فقالت: لا والله، حتى تكلما بهذه الكلمة من الإشراك , فقالا: والله لا نشرك بالله ابدا , فذهبت عنهما، ثم رجعت بصبي تحمله، فسالاها نفسها، فقالت: لا والله، حتى تقتلا هذا الصبي، فقالا: والله لا نقتله ابدا , فذهبت، ثم رجعت بقدح خمر تحمله، فسالاها نفسها، فقالت: لا والله حتى تشربا هذا الخمر , فشربا، فسكرا، فوقعا عليها، وقتلا الصبي، فلما افاقا، قالت المراة: والله ما تركتما شيئا مما ابيتماه علي إلا قد فعلتما حين سكرتما، فخيرا بين عذاب الدنيا والآخرة، فاختارا عذاب الدنيا".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ آدَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَهْبَطَهُ اللَّهُ تَعَالَى إِلَى الْأَرْضِ، قَالَتْ الْمَلَائِكَةُ: أَيْ رَبِّ، أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ، وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ؟ قَالَ: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ , قَالُوا: رَبَّنَا نَحْنُ أَطْوَعُ لَكَ مِنْ بَنِي آدَمَ , قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلْمَلَائِكَةِ: هَلُمُّوا مَلَكَيْنِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ، حَتَّى يُهْبَطَ بِهِمَا إِلَى الْأَرْضِ، فَنَنْظُرَ كَيْفَ يَعْمَلَانِ , قَالُوا: رَبَّنَا هَارُوتُ , وَمَارُوتُ , فَأُهْبِطَا إِلَى الْأَرْضِ، وَمُثِّلَتْ لَهُمَا الزُّهَرَةُ امْرَأَةً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ، فَجَاءَتْهُمَا، فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، حَتَّى تَكَلَّمَا بِهَذِهِ الْكَلِمَةِ مِنَ الْإِشْرَاكِ , فَقَالَا: وَاللَّهِ لَا نُشْرِكُ بِاللَّهِ أَبَدًا , فَذَهَبَتْ عَنْهُمَا، ثُمَّ رَجَعَتْ بِصَبِيٍّ تَحْمِلُهُ، فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، حَتَّى تَقْتُلَا هَذَا الصَّبِيَّ، فَقَالَا: وَاللَّهِ لَا نَقْتُلُهُ أَبَدًا , فَذَهَبَتْ، ثُمَّ رَجَعَتْ بِقَدَحِ خَمْرٍ تَحْمِلُهُ، فَسَأَلَاهَا نَفْسَهَا، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى تَشْرَبَا هَذَا الْخَمْرَ , فَشَرِبَا، فَسَكِرَا، فَوَقَعَا عَلَيْهَا، وَقَتَلَا الصَّبِيَّ، فَلَمَّا أَفَاقَا، قَالَتْ الْمَرْأَةُ: وَاللَّهِ مَا تَرَكْتُمَا شَيْئًا مِمَّا أَبَيْتُمَاهُ عَلَيَّ إِلَّا قَدْ فَعَلْتُمَا حِينَ سَكِرْتُمَا، فَخُيِّرَا بَيْنَ عَذَابِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، فَاخْتَارَا عَذَابَ الدُّنْيَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارا تو فرشتے کہنے لگے اے پروردگار کیا آپ زمین میں اس شخص کو اپنا نائب بنا رہے ہیں جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزی کرے گا جب کہ ہم آپ کی تحمید کے ساتھ آپ کی تسبیح اور تقدیس بیان کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: تم دو فرشتوں کو لے آؤ تاکہ زمین پر اتارآ جائے اور ہم دیکھیں کہ وہ کیا کام کرتے ہیں؟ فرشتوں نے ہاروت اور ماروت کو پیش کیا اور ان دونوں کو زمین پرا تار دیا گیا۔
اس کے بعد '' زہرہ " نامی سیارے کو ایک انتہائی خوبصورت عورت کی شکل میں ان کے پاس بھیجا گیا وہ ان دونوں کے پاس آئی وہ دونوں اس سے اپنے آپ کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگے اس نے کہا بخدا! ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم یہ شرکیہ جملہ نہ کہو، ہاروت اور ماروت بولے بخدا ہم اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہ کر یں گے۔ یہ سن کروہ واپس چلی گئی اور کچھ دیر بعد ایک بچے کو اٹھائے ہوئے واپس آگئی انہوں نے پھر اس سے وہی تقاضا کیا اس نے کہا کہ جب تک اس بچے کو قتل نہیں کرتے اس وقت تک یہ نہیں ہو سکتا وہ دونوں کہنے لگے کہ ہم تو اسے کسی صورت میں قتل نہیں کر یں گے۔ وہ پھر واپس چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد ہی شراب کا ایک پیالہ اٹھائے چلی آئی انہوں نے حسب سابق اس سے وہی تقاضا کیا لیکن اس نے کہا کہ جب تک یہ شراب نہ پیو گے اس وقت ایسا نہیں ہو سکتا ان دونوں نے شراب پی لی اور نشے میں آ کر اس سے بدکاری بھی کی اور بچے کو بھی قتل کر دیا اور جب انہیں افاقہ ہوا تو وہ کہنے لگی کہ تم نے جن دو کاموں کو کرنے سے انکار کیا تھا نشے میں مد ہوش ہونے کے بعد تم نے اس میں سے ایک کام کو بھی نہ چھوڑا پھر انہیں دنیا کی سزا اور آخرت کے عذاب میں اختیار دیا گیا تو انہوں نے دنیا کی سزا کو اختیار کر لیا۔
فائدہ۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ومتنه باطل، والصحيح أن هذا الحديث لا تصح نسبته إلى النبى ﷺ ، وإنما هو من قصص كعب الأحبار، أخرجه عبد الرزاق فى تفسيره : 53/1 و إسناده صحيح .