(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا الاوزاعي ، عن ايوب بن موسى ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان النبي صلى الله عليه وسلم:" صلى صلاة الخوف بإحدى الطائفتين ركعة وسجدتين، والطائفة الاخرى مواجهة العدو، ثم انصرفت الطائفة التي مع النبي صلى الله عليه وسلم، واقبلت الطائفة الاخرى، فصلى بها النبي صلى الله عليه وسلم ركعة وسجدتين، ثم سلم النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قام كل رجل من الطائفتين، فركع لنفسه ركعة وسجدتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى صَلَاةَ الْخَوْفِ بِإِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ، وَالطَّائِفَةُ الْأُخْرَى مُوَاجِهَةُ الْعَدُوِّ، ثُمَّ انْصَرَفَتْ الطَّائِفَةُ الَّتِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَقْبَلَتْ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى، فَصَلَّى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ الخوف اس طرح پڑھائی ہے کہ ایک گروہ کو اپنے پیچھے کھڑا کر کے ایک رکوع اور دو سجدے کروائے دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس گروہ نے ایک رکعت پڑھی تھی وہ چلا گیا اور دوسرا گروہ آگیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایک رکوع اور دو سجدے کروائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا اس کے بعد دونوں گروہوں کے ہر آدمی نے کھڑے ہو کر خود ہی ایک رکعت دو سجدوں کے ساتھ پڑھ لی۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ نزع کی کیفیت طاری ہونے سے پہلے تک بھی قبول فرما لیتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، عن شريح بن عبيد الحضرمي ، انه سمع الزبير بن الوليد يحدث، عن عبد الله بن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا غزا، او سافر، فادركه الليل، قال:" يا ارض، ربي وربك الله، اعوذ بالله من شرك، وشر ما فيك، وشر ما خلق فيك، وشر ما دب عليك، اعوذ بالله من شر كل اسد واسود، وحية وعقرب، ومن شر ساكن البلد، ومن شر والد وما ولد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ عُبَيْدٍ الْحَضْرَمِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ الزُّبَيْرَ بْنَ الْوَلِيدِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا غَزَا، أَوْ سَافَرَ، فَأَدْرَكَهُ اللَّيْلُ، قَالَ:" يَا أَرْضُ، رَبِّي وَرَبُّكِ اللَّهُ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكِ، وَشَرِّ مَا فِيكِ، وَشَرِّ مَا خُلِقَ فِيكِ، وَشَرِّ مَا دَبَّ عَلَيْكِ، أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ كُلِّ أَسَدٍ وَأَسْوَدَ، وَحَيَّةٍ وَعَقْرَبٍ، وَمِنْ شَرِّ سَاكِنِ الْبَلَدِ، وَمِنْ شَرِّ وَالِدٍ وَمَا وَلَدَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی سفریا غزوہ میں ہوتے اور رات کا وقت آجاتا تو یہ دعا فرماتے کہ اے زمین میرا اور تیرا رب اللہ ہے میں تیرے شر تجھ میں موجود شر تیرے اندر پیدا کی گئی چیزوں کے شر اور تجھ پر چلنے والوں کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں میں ہر شیر اور کالی چیز سے سانپ اور بچھو سے اہلیان شہر کے شر سے اور والد اور اولاد کے شر سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا عمر بن عمرو ابو عثمان الاحموسي ، حدثني المخارق بن ابي المخارق ، عن عبد الله بن عمر ، انه سمعه يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" حوضي كما بين عدن , وعمان، ابرد من الثلج، واحلى من العسل، واطيب ريحا من المسك، اكوابه مثل نجوم السماء، من شرب منه شربة لم يظما بعدها ابدا، اول الناس عليه ورودا صعاليك المهاجرين"، قال قائل: ومن هم يا رسول الله؟ قال:" الشعثة رءوسهم، الشحبة وجوههم، الدنسة ثيابهم، لا يفتح لهم السدد، ولا ينكحون المتنعمات الذين يعطون كل الذي عليهم، ولا ياخذون الذي لهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَمْرٍو أَبُو عُثْمَانَ الْأُحْمُوسِيُّ ، حَدَّثَنِي الْمُخَارِقُ بْنُ أَبِي الْمُخَارِق ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" حَوْضِي كَمَا بَيْنَ عَدَنَ , وَعَمَّانَ، أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ، وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، وَأَطْيَبُ رِيحًا مِنَ الْمِسْكِ، أَكْوَابُهُ مِثْلُ نُجُومِ السَّمَاءِ، مَنْ شَرِبَ مِنْهُ شَرْبَةً لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا أَبَدًا، أَوَّلُ النَّاسِ عَلَيْهِ وُرُودًا صَعَالِيكُ الْمُهَاجِرِينَ"، قَالَ قَائِلٌ: وَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الشَّعِثَةُ رُءُوسُهُمْ، الشَّحِبَةُ وُجُوهُهُمْ، الدَّنِسَةُ ثِيَابُهُمْ، لَا يُفْتَحُ لَهُمْ السُّدَدُ، وَلَا يَنْكِحُونَ الْمُتَنَعِّمَاتِ الَّذِينَ يُعْطُونَ كُلَّ الَّذِي عَلَيْهِمْ، وَلَا يَأْخُذُونَ الَّذِي لَهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرا حوض عدن اور عمان کے درمیانی فاصلے جتنا بڑا ہے اس کا پانی برف سے زیادہ ٹھنڈا شہد سے زیادہ شریں اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے اس کے آبخورے آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں جو شخص اس کا ایک گھونٹ پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا اور سب سے پہلے اس حوض پر آنے والے پھکڑ مہاجرین ہوں گے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہوں گے؟ فرمایا: پراگندہ بال دھنسے ہوئے چہروں اور میلے کچیلے کپڑوں والے جن کے لئے دنیا میں دروازے نہیں کھولے جاتے ناز و نعمت میں پلی ہوئی لڑکیوں سے ان کا رشتہ قبول نہیں کیا جاتا اور جو اپنی ہر ذمہ داری پوری کرتے ہیں اور اپنا حق وصول نہیں کرتے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہہ کرنماز شروع کرتے وقت اور رکوع سجدہ کرتے وقت کندھوں کے برابر رفع یدین کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون رفع اليدين عند السجود، وهذا إسناد ضعيف .
(حديث مرفوع) حدثنا الحكم بن نافع ، حدثنا ابو بكر يعني ابن ابي مريم , عن ضمرة بن حبيب ، قال: قال عبد الله بن عمر امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ان آتيه بمدية , وهي الشفرة، فاتيته بها، فارسل بها، فارهفت، ثم اعطانيها، وقال:" اغد علي بها"، ففعلت، فخرج باصحابه إلى اسواق المدينة، وفيها زقاق خمر قد جلبت من الشام، فاخذ المدية مني، فشق ما كان من تلك الزقاق بحضرته، ثم اعطانيها، وامر اصحابه الذين كانوا معه ان يمضوا معي، وان يعاونوني، وامرني ان آتي الاسواق كلها، فلا اجد فيها زق خمر إلا شققته، ففعلت، فلم اترك في اسواقها زقا إلا شققته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ آتِيَهُ بِمُدْيَةٍ , وَهِيَ الشَّفْرَةُ، فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَأَرْسَلَ بِهَا، فَأُرْهِفَتْ، ثُمَّ أَعْطَانِيهَا، وَقَالَ:" اغْدُ عَلَيَّ بِهَا"، فَفَعَلْتُ، فَخَرَجَ بِأَصْحَابِهِ إِلَى أَسْوَاقِ الْمَدِينَةِ، وَفِيهَا زِقَاقُ خَمْرٍ قَدْ جُلِبَتْ مِنَ الشَّامِ، فَأَخَذَ الْمُدْيَةَ مِنِّي، فَشَقَّ مَا كَانَ مِنْ تِلْكَ الزِّقَاقِ بِحَضْرَتِهِ، ثُمَّ أَعْطَانِيهَا، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ أَنْ يَمْضُوا مَعِي، وَأَنْ يُعَاوِنُونِي، وَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْأَسْوَاقَ كُلَّهَا، فَلَا أَجِدُ فِيهَا زِقَّ خَمْرٍ إِلَّا شَقَقْتُهُ، فَفَعَلْتُ، فَلَمْ أَتْرُكْ فِي أَسْوَاقِهَا زِقًّا إِلَّا شَقَقْتُهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چھری لانے کا حکم دیا میں لے آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تیز کرنے کے لئے بھیج دیا اس کے بعد وہ چھری مجھے دیتے ہوئے فرمایا: کہ یہ چھری صبح کے وقت میرے پاس لے کر آنا میں نے ایسا ہی کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے بازاروں میں نکلے جہاں شام سے درآمد کئے گئے شراب کے مشکیزے لٹک رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے چھری لی اور جو مشکیزہ بھی سامنے نظر آیا اسے چاک کر دیا اس کے بعد وہ چھری مجھے عطاء فرمائی اور اپنے ساتھ موجود صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ کو میرے ساتھ جانے اور میرے ساتھ تعاون کرنے کا حکم دیا اور مجھ سے فرمایا: کہ میں سارے بازاروں کا چکر لگاؤں اور جہاں کہیں بھی شراب کا کوئی مشکیزہ پاؤں اسے چاک کر دوں چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور بازاروں میں کوئی مشکیزہ ایسا نہ چھوڑا جسے میں نے چاک نہ کر دیا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم الغساني .
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عياش ، حدثنا محمد بن مطرف ، حدثنا زيد بن اسلم ، انه قال: إن عبد الله بن عمر : اتى ابن مطيع، فقال: اطرحوا لابي عبد الرحمن وسادة، فقال: ما جئت لاجلس عندك، ولكن جئت اخبرك ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، سمعته يقول:" من نزع يدا من طاعة، او فارق الجماعة، مات ميتة الجاهلية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ : أَتَى ابْنَ مُطِيعٍ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: مَا جِئْتُ لِأَجْلِسَ عِنْدَكَ، وَلَكِنْ جِئْتُ أُخْبِرُكَ مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ نَزَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، أَوْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، مَاتَ مِيتَةَ الْجَاهِلِيَّةِ".
زید بن اسلم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عبداللہ بن مطیع کے یہاں گیا، اس نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خوش آمدید کہا اور لوگوں کو حکم دیا کہ انہیں تکیہ پیش کرو، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ میں آپ کو ایک حدیث سنانے آیاہوں جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص صحیح حکمران وقت سے ہاتھ کھینچتا ہے قیامت کے دن اس کی کوئی حجت قبول نہ ہو گی اور جو شخص " جماعت " کو چھوڑ کر مرگیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ ارشادنبوی منقول ہے کہ سوائے دو آدمیوں کے کسی اور پر حسد (رشک) کرنا جائز نہیں ہے ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن کی دولت دی ہو اور وہ رات دن اس کی تلاوت میں مصروف رہتاہو اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال و دولت عطاء فرمایا: ہو اور اسے راہ حق میں لٹانے پر مسلط کر دیا ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا عبد الله بن سالم ، حدثني العلاء بن عتبة الحمصي ، او اليحصبي، عن عمير بن هانئ العنسي ، سمعت عبد الله بن عمر , يقول: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قعودا، فذكر الفتن، فاكثر ذكرها، حتى ذكر فتنة الاحلاس، فقال قائل: يا رسول الله، وما فتنة الاحلاس؟ قال:" هي فتنة هرب وحرب، ثم فتنة السراء، دخلها او دخنها من تحت قدمي رجل من اهل بيتي، يزعم انه مني، وليس مني، إنما وليي المتقون، ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع، ثم فتنة الدهيماء، لا تدع احدا من هذه الامة إلا لطمته لطمة، فإذا قيل انقطعت تمادت، يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا، حتى يصير الناس إلى فسطاطين، فسطاط إيمان لا نفاق فيه، وفسطاط نفاق لا إيمان فيه، إذا كان ذاكم فانتظروا الدجال من اليوم او غد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَالِمٍ ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عُتْبَةَ الْحِمْصِيُّ ، أَوْ الْيَحْصُبِيُّ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ هَانِئٍ الْعَنْسِيِّ ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُعُودًا، فَذَكَرَ الْفِتَنَ، فَأَكْثَرَ ذِكْرَهَا، حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ:" هِيَ فِتْنَةُ هَرَبٍ وَحَرَبٍ، ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ، دَخَلُهَا أَوْ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي، وَلَيْسَ مِنِّي، إِنَّمَا وَلِيِّيَ الْمُتَّقُونَ، ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كَوَرِكٍ عَلَى ضِلَعٍ، ثُمَّ فِتْنَةُ الدُّهَيْمَاءِ، لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطَمَتْهُ لَطْمَةً، فَإِذَا قِيلَ انْقَطَعَتْ تَمَادَتْ، يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا، حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ، فُسْطَاطُ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ، وَفُسْطَاطُ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ، إِذَا كَانَ ذَاكُمْ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنَ الْيَوْمِ أَوْ غَدٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتنوں کا تذکر ہ فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاصی تفصیل سے ان کا ذکر فرمایا: اور درمیان میں " فتنہ اجلاس " کا بھی ذکر کیا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ!! فتنہ احلاس سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد بھاگنے اور جنگ کرنے کا فتنہ ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ سراء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کہ اس کا دھواں میرے اہل بیت میں سے ایک آدمی کے قدموں کے نیچے سے اٹھے گا اس کا گمان یہ ہو گا کہ وہ مجھ سے ہے، حالانکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہ ہو گا میرے دوست تو متقی لوگ ہیں پھر لوگ ایک ایسے آدمی پرا تفاق کر لیں گے جو پسلی پر کو ل ہے کی مانند ہو گا۔
اس کے بعدفتنہ دھیما ہو گا جو اس امت کے ہر آدمی پر ایک طمانچہ جڑے بغیر نہ چھوڑے گا لوگ اس کے متعلق جب کہیں گے کہ یہ فتنہ ختم ہو گیا تو وہ اور بڑھ کر سامنے آئے گا اس زمانے میں ایک آدمی صبح کو مؤمن اور شام کو کافر ہو گا یہاں تک کہ لوگ خیموں میں تقسیم ہو جائیں گے ایک خیمہ ایمان کا ہو گا جس میں نفاق نامی کوئی چیز نہ ہو گی اور دوسراخیمہ نفاق کا ہو گا جس میں ایمان نامی کوئی چیز نہ ہو گی جب تم پر ایسا وقت آ جائے تودجال کا انتظار کرو کہ وہ اسی دن یا اگلے دن نکل آتا ہے۔
فائدہ۔ اس حدیث کی مکمل وضاحت کے لئے ہماری کتاب " فتنہ دجال قرآن و حدیث کی روشنی میں " کا مطالعہ فرمائیے۔