(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا ابي ، سمعت يونس ، عن الزهري ، عن حمزة بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اتيت وانا نائم بقدح من لبن فشربت منه حتى جعل اللبن يخرج من اظفاري، ثم ناولت فضلي عمر بن الخطاب"، فقال: يا رسول الله، فما اولته؟ قال:" العلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، سَمِعْتُ يُونُسَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أُتِيتُ وَأَنَا نَائِمٌ بِقَدَحٍ مِنْ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّى جَعَلَ اللَّبَنُ يَخْرُجُ مِنْ أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا أَوَّلْتَهُ؟ قَالَ:" الْعِلْمُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اسے اتنا پیا کہ میرے ناخنوں سے دودھ نکلنے لگا، پھر میں نے اپنا پس خوردہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علم۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، قال: كنت ابيع الإبل بالبقيع، فابيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وابيع بالدراهم وآخذ الدنانير، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يريد ان يدخل حجرته، فاخذت بثوبه، فسالته، فقال:" إذا اخذت واحدا منهما بالآخر، فلا يفارقنك وبينك وبينه بيع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ، فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ، وَأَبِيعُ بِالدَّرَاهِمِ وَآخُذُ الدَّنَانِيرَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَدْخُلَ حُجْرَتَهُ، فَأَخَذْتُ بِثَوْبِهِ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" إِذَا أَخَذْتَ وَاحِدًا مِنْهُمَا بِالْآخَرِ، فَلَا يُفَارِقَنَّكَ وَبَيْنَكَ وَبَيْنَهُ بَيْعٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں جنت البقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا، اگر دینار کے بدلے بیچتا تو میں خریدار سے درہم لے لیتا اور دراہم کے بدلے بیچتا تو اس سے دینار لے لیتا، ایک دن میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے میں داخل ہو رہے تھے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پکڑ کر یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے کے بدلے وصول کرو تو اس وقت تک اپنے ساتھی سے جدا نہ ہو جب تک تمہارے اور اس کے درمیان بیع کا کوئی معاملہ باقی ہو“۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لتفرد سماك بن حرب برفعه
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا سليمان التيمي ، عن ابي مجلز ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" سجد في الركعة الاولى من صلاة الظهر، فراى اصحابه انه قرا تنزيل السجدة"، قال: ولم اسمعه من ابي مجلز.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَجَدَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الظُّهْرِ، فَرَأَى أَصْحَابُهُ أَنَّهُ قَرَأَ تَنْزِيلُ السَّجْدَةِ"، قَالَ: وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ أَبِي مِجْلَزٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھاتے ہوئے پہلی رکعت میں سجدہ تلاوت کیا, صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورت سجدہ کی تلاوت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات رجال الشيخين إلا أن سليمان بن طرخان التيمي قد صرح فى آخر الحديث بأنه لم يسمع من أبى مجلز: لاحق بن حميد، فهو منقطع .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نفلی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرق کو جا رہے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا سعيد بن ابي عروبة ، عن معمر ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابن عمر ، قال:" اسلم غيلان بن سلمة الثقفي وتحته عشر نسوة في الجاهلية، واسلمن معه، فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يختار منهن اربعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" أَسْلَمَ غَيْلَانُ بْنُ سَلَمَةَ الثَّقَفِيُّ وَتَحْتَهُ عَشَرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَأَسْلَمْنَ مَعَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْتَارَ مِنْهُنَّ أَرْبَعًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی نے جس وقت اسلام قبول کیا، ان کے نکاح میں دس بیویاں تھیں،اور ان سب نے بھی ان کے ہمراہ اسلام قبول کر لیا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ان میں سے چار کو منتخب کر لو (اور باقی چھ کو طلاق دے دو)۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات إلا أن معمرا أخطأ فيه كما سلف بيانه بالرواية رقم: 4609، ويزيد بن هارون سمع من سعيد بن أبى عروبة قبل الاختلاط
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن سماك بن حرب ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، قال: كنت ابيع الإبل بالبقيع، فابيع بالدنانير وآخذ مكانها الورق، وابيع بالورق فآخذ مكانها الدنانير، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فوجدته خارجا من بيت حفصة، فسالته عن ذلك، فقال:" لا باس به بالقيمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ، فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ مَكَانَهَا الْوَرِقَ، وَأَبِيعُ بِالْوَرِقِ فَآخُذُ مَكَانَهَا الدَّنَانِيرَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُهُ خَارِجًا مِنْ بَيْتِ حَفْصَةَ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" لَا بَأْسَ بِهِ بِالْقِيمَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں جنت البقیع میں اونٹ بیچا کرتا تھا، اگر دینار کے بدلے بیچتا تو میں خریدار سے درہم لے لیتا اور دراہم کے بدلے بیچتا تو اس سے دینارلے لیتا، ایک دن میں یہ مسئلہ معلوم کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر کے باہرپایا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر قیمت کے بدلے میں ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔“
سیدنا ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے)”لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا اور انہیں غافلوں میں لکھ دے گا۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! خرید و فروخت میں لوگ مجھے دھوکہ دے دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یوں کہہ لیا کرو کہ اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے“۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ ہم نے ایک زمانہ وہ دیکھا ہے جب ہماری نظروں میں درہم و دینار والا اپنے غریب مسلمان بھائی سے زیادہ حقدار نہ ہوتا تھا اور اب ہم یہ زمانہ دیکھ رہے ہیں کہ جس میں دینار و درہم ایک مسلمان بھائی سے زیادہ عزیز ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى جناب، وشهر بن حوشب كثير الأوهام.
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لئن انتم اتبعتم اذناب البقر، وتبايعتم بالعينة، وتركتم الجهاد في سبيل الله، ليلزمنكم الله مذلة في اعناقكم، ثم لا تنزع منكم حتى ترجعون إلى ما كنتم عليه، وتتوبون إلى الله".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَئِنْ أَنْتُمْ اتَّبَعْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَتَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، لَيُلْزِمَنَّكُمْ اللَّهُ مَذَلَّةً فِي أَعْنَاقِكُمْ، ثُمَّ لَا تُنْزَعُ مِنْكُمْ حَتَّى تَرْجِعُونَ إِلَى مَا كُنْتُمْ عَلَيْهِ، وَتَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ".
اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم نے جہاد کو ترک کر دیا گائے کی دمیں پکڑنے لگے عمدہ اور بڑھیاچیزیں خریدنے لگے تو اللہ تم پر مصائب کو نازل فرمائے گا اور اس وقت تک انہیں دور نہیں کرے گا جب تک تم لوگ توبہ کر کے دین کی طرف واپس نہ آجاؤ گے۔
حكم دارالسلام: طرفه الثاني حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب وشهر بن حوشب .