(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شيبان ، عن منصور ، عن سعد بن عبيدة ، قال: جلست انا ومحمد الكندي إلى عبد الله بن عمر، ثم قمت من عنده، فجلست إلى سعيد بن المسيب، قال: فجاء صاحبي وقد اصفر وجهه، وتغير لونه، فقال: قم إلي، قلت: الم اكن جالسا معك الساعة؟ فقال سعيد: قم إلى صاحبك، قال: فقمت إليه، فقال: الم تسمع إلى ما قال ابن عمر ؟ قلت: وما قال؟ قال: اتاه رجل، فقال: يا ابا عبد الرحمن، اعلي جناح ان احلف بالكعبة؟ قال: ولم تحلف بالكعبة؟ إذا حلفت بالكعبة فاحلف برب الكعبة، فإن عمر كان إذا حلف، قال: كلا وابي، فحلف بها يوما عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تحلف بابيك ولا بغير الله، فإنه من حلف بغير الله فقد اشرك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: جَلَسْتُ أَنَا وَمُحَمَّدٌ الْكِنْدِيُّ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ثُمَّ قُمْتُ مِنْ عِنْدِهِ، فَجَلَسْتُ إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، قَالَ: فَجَاءَ صَاحِبِي وَقَدْ اصْفَرَّ وَجْهُهُ، وَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ، فَقَالَ: قُمْ إِلَيَّ، قُلْتُ: أَلَمْ أَكُنْ جَالِسًا مَعَكَ السَّاعَةَ؟ فَقَالَ سَعِيدٌ: قُمْ إِلَى صَاحِبِكَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ ؟ قُلْتُ: وَمَا قَالَ؟ قَالَ: أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَعَلَيَّ جُنَاحٌ أَنْ أَحْلِفَ بِالْكَعْبَةِ؟ قَالَ: وَلِمَ تَحْلِفُ بِالْكَعْبَةِ؟ إِذَا حَلَفْتَ بِالْكَعْبَةِ فَاحْلِفْ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ، فَإِنَّ عُمَرَ كَانَ إِذَا حَلَفَ، قَالَ: كَلَّا وَأَبِي، فَحَلَفَ بِهَا يَوْمًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَحْلِفْ بِأَبِيكَ وَلَا بِغَيْرِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ".
سعد بن عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور محمد کندی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تھوڑی دیر بعد میں وہاں سے اٹھا اور جا کر سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے پاس بیٹھ گیا، اتنی دیر میں میرا ساتھی آیا، اس کے چہرے کا رنگ متغیر اور پیلا زرد ہو رہا تھا، اس نے آتے ہی کہا کہ میرے ساتھ چلو، میں نے کہا: ابھی میں تمہارے ساتھ ہی تو بیٹھا ہوا تھا، سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہنے لگے کہ تم اپنے ساتھی کے ساتھ جاؤ، چنانچہ میں اٹھ کھڑا ہوا، اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی بات سنی؟ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے ابوعبدالرحمن! اگر میں خانہ کعبہ کی قسم کھاؤں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ انہوں نے فرمایا کہ تمہیں خانہ کعبہ کی قسم کھانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر تم خانہ کعبہ کی قسم ہی کھانا چاہتے ہو تو رب کعبہ کی قسم کھاؤ، کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ «كلا وابي» کہہ کر قسم کھایا کرتے تھے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی انہوں نے یہی قسم کھا لی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے باپ یا کسی غیر اللہ کی قسم نہ کھاؤ کیونکہ غیر اللہ کی قسم کھانے والاشرک کرتا ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب حضرموت کے سمندر سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر لے جائے گی، ہم نے پوچھا: یا رسول اللہ! پھر آپ اس وقت کے لئے ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”ملک شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا (وہاں چلے جانا)۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلتا ہے (کپڑے زمین پر گھستے جاتے ہیں) اللہ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہ فرمائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن زيد ، عن بشر بن حرب ، سمعت ابن عمر ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم عند حجرة عائشة يقول:" ينصب لكل غادر لواء يوم القيامة، ولا غدرة اعظم من غدرة إمام عامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ يَقُولُ:" يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قریب یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور سربراہ مملکت کے دھوکے سے بڑھ کر کسی کا دھوکہ نہ ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي يحيى ، عن ابن عباس ، ان رجلين اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فسال رسول الله صلى الله عليه وسلم المدعي البينة، فلم يكن له بينة، فاستحلف المطلوب، فحلف بالله الذي لا إله إلا هو، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت قد فعلت، ولكن غفر لك بإخلاصك قول لا إله إلا الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُدَّعِيَ الْبَيِّنَةَ، فَلَمْ يَكُنْ لَهُ بَيِّنَةٌ، فَاسْتَحْلَفَ الْمَطْلُوبَ، فَحَلَفَ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ قَدْ فَعَلْتَ، وَلَكِنْ غُفِرَ لَكَ بِإِخْلَاصِكَ قَوْلَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ دو آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا جھگڑا لے کر آئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کا تقاضا کیا، اس کے پاس گواہ نہیں تھے، اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی علیہ سے قسم کا مطالبہ کیا، اس نے یوں قسم کھائی کہ اس اللہ کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے قسم کھالی لیکن تمہارے «لا اله الا الله» کہنے میں اخلاص کی برکت سے تمہارے سارے گناہ معاف ہو گئے۔
حدثنا حسن ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بمثله، إلا انه قال:" اخبرني جبريل صلى الله عليه وسلم انك قد فعلت، ولكن الله غفر لك".حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" أَخْبَرَنِي جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّكَ قَدْ فَعَلْتَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ غَفَرَ لَكَ".
گزشتہ حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے وہ کام تو کیا ہے لیکن «لا اله الا الله» کہنے کی برکت سے تمہاری بخشش ہو گئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين ثابت البناني وبين ابن عمر .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، عن بيان ، عن وبرة ، عن سعيد بن جبير ، قال: خرج علينا عبد الله بن عمر ، ونحن نرجو ان يحدثنا حديثا، او حديثا حسنا، فبدرنا رجل منا، يقال له الحكم، فقال: يا ابا عبد الرحمن، ما تقول في القتال في الفتنة؟ قال: ثكلتك امك! وهل تدري ما الفتنة؟! إن محمدا صلى الله عليه وسلم كان" يقاتل المشركين، فكان الدخول فيهم او في دينهم فتنة، وليس كقتالكم على الملك!!".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَنَحْنُ نَرْجُو أَنْ يُحَدِّثَنَا حَدِيثًا، أَوْ حَدِيثًا حَسَنًا، فَبَدَرَنَا رَجُلٌ مِنَّا، يُقَالُ لَهُ الْحَكَمُ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا تَقُولُ فِي الْقِتَالِ فِي الْفِتْنَةِ؟ قَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ! وَهَلْ تَدْرِي مَا الْفِتْنَةُ؟! إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يُقَاتِلُ الْمُشْرِكِينَ، فَكَانَ الدُّخُولُ فِيهِمْ أَوْ فِي دِينِهِمْ فِتْنَةً، وَلَيْسَ كَقِتَالِكُمْ عَلَى الْمُلْكِ!!".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمارے پاس تشریف لائے، ہمیں امید تھی کہ وہ ہم سے عمدہ احادیث بیان کریں گے لیکن ہم سے پہلے ہی ایک آدمی ”جس کا نام حکم تھا“ بول پڑا اور کہنے لگا، اے ابوعبدالرحمن! فتنہ کے ایام میں قتال کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے فرمایا: تیری ماں تجھے روئے، کیا تجھے معلوم ہے کہ فتنہ کیا چیز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین سے قتال کیا کرتے تھے، ان میں یا ان کے دین میں داخل ہونا فتنہ تھا، ایسا نہیں تھا جیسے آج تم حکومت کی خاطر قتال کرتے ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن البهي ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لعائشة:" ناوليني الخمرة من المسجد"، فقالت: إني قد احدثت، فقال:" اوحيضتك في يدك!؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَهِيِّ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَائِشَةَ:" نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ أَحْدَثْتُ، فَقَالَ:" أَوَحَيْضَتُكِ فِي يَدِكِ!؟".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”مجھے مسجد سے چٹائی پکڑانا،“ وہ کہنے لگیں کہ میرا وضو نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔“
حكم دارالسلام: الحديث متنه صحيح ، وفي إسناده اضطراب .
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: سئل كم اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: مرتين، فقالت عائشة لقد علم ابن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد" اعتمر ثلاثة سوى العمرة التي قرنها بحجة الوداع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سُئِلَ كَمْ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَرَّتَيْنِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ لَقَدْ عَلِمَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ" اعْتَمَرَ ثَلَاثَةً سِوَى الْعُمْرَةِ الَّتِي قَرَنَهَا بِحَجَّةِ الْوَدَاعِ".
مجاہد رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ انہوں نے کہا دو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا تو فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو معلوم بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو عمرہ کیا تھا، اس کے علاوہ تین عمرے کئے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا زهير ، حدثنا يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن عبد الله بن عمر ، قال: كنت في سرية من سرايا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحاص الناس حيصة، وكنت فيمن حاص، فقلنا: كيف نصنع وقد فررنا من الزحف وبؤنا بالغضب؟! ثم قلنا: لو دخلنا المدينة فبتنا، ثم قلنا: لو عرضنا انفسنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن كانت له توبة، وإلا ذهبنا، فاتيناه قبل صلاة الغداة، فخرج، فقال:" من القوم؟" قال: فقلنا: نحن الفرارون! قال:" لا، بل انتم العكارون، انا فئتكم، وانا فئة المسلمين"، قال: فاتيناه حتى قبلنا يده.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كُنْتُ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، وَكُنْتُ فِيمَنْ حَاصَ، فَقُلْنَا: كَيْفَ نَصْنَعُ وَقَدْ فَرَرْنَا مِنَ الزَّحْفِ وَبُؤْنَا بِالْغَضَبِ؟! ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ فَبِتْنَا، ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ عَرَضْنَا أَنْفُسَنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ كَانَتْ لَهُ تَوْبَةٌ، وَإِلَّا ذَهَبْنَا، فَأَتَيْنَاهُ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَخَرَجَ، فَقَالَ:" مَنْ الْقَوْمُ؟" قَالَ: فَقُلْنَا: نَحْنُ الْفَرَّارُونَ! قَالَ:" لَا، بَلْ أَنْتُمْ الْعَكَّارُونَ، أَنَا فِئَتُكُمْ، وَأَنَا فِئَةُ الْمُسْلِمِينَ"، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُ حَتَّى قَبَّلْنَا يَدَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں شریک تھا، لوگ دوران جنگ گھبرا کر بھاگنے لگے، ان میں میں بھی شامل تھا، بعد میں ہم لوگ سوچنے لگے کہ اب کیا ہو گا؟ ہم تو میدان جنگ سے پشت پھیر کر بھاگے اور اللہ کا غضب لے کر لوٹے ہیں، پھر ہم کہنے لگے کہ مدینہ منورہ چل کر رات وہیں گزارتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہو جائیں گے، اگر تو یہ قبول ہو گئی تو بہت اچھا ورنہ دوبارہ قتال کے لئے روانہ ہو جائیں گے، چنانچہ ہم لوگ نماز فجر سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”کون لوگ ہو؟“ ہم نے عرض کیا فرار ہو کر بھاگنے والے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کر نے والے ہو، میں تمہاری ایک جماعت ہوں اور میں مسلمانوں کی ایک پوری جماعت ہوں“، پھر ہم نے آگے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو بوسہ دیا۔