عبداللہ بن مقدام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو صفا مروہ کے درمیان سعی میں عام رفتار سے چلتے ہوئے دیکھا، تو ان سے پوچھا: اے ابوعبدالرحمن! آپ تیز کیوں نہیں چل رہے؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں اپنی رفتار تیز بھی فرمائی اور نہیں بھی فرمائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حجاج مدلس، وقد عنعن، وعبدالملك، الطائفي لم يوثقه غير ابن حبان، وعبدالله بن مقدام لم يرو عنه غير عبدالملك، ولا يؤثر توثيقه عن أحد.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن عبد الملك بن ابي غنية ، اخبرنا ابو جناب ، عن شهر بن حوشب ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لئن تركتم الجهاد، واخذتم باذناب البقر، وتبايعتم بالعينة، ليلزمنكم الله مذلة في رقابكم، لا تنفك عنكم حتى تتوبوا إلى الله وترجعوا على ما كنتم عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ ، أخبرنا أَبُو جَنَابٍ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَئِنْ تَرَكْتُمْ الْجِهَادَ، وَأَخَذْتُمْ بِأَذْنَابِ الْبَقَرِ، وَتَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، لَيُلْزِمَنَّكُمْ اللَّهُ مَذَلَّةً فِي رِقَابِكُمْ، لَا تَنْفَكُّ عَنْكُمْ حَتَّى تَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ وَتَرْجِعُوا عَلَى مَا كُنْتُمْ عَلَيْهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم نے جہاد کو ترک کر دیا، گائے کی دمیں پکڑنے لگے، عمدہ اور بڑھیا چیزیں خریدنے لگے، تو اللہ تم پر مصائب کو نازل فرمائے گا اور اس وقت تک انہیں دور نہیں کرے گا جب تک تم لوگ توبہ کر کے دین کی طرف واپس نہ آ جاؤ گے۔“
حكم دارالسلام: حسن بطرقه، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے برسر منبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر کے آئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا عبد الملك ، سمعت سعيد بن جبير ، قال: سالت ابن عمر ، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، المتلاعنين يفرق بينهما؟ قال: سبحان الله! نعم، إن اول من سال عن ذلك فلان، قال: يا رسول الله،" ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة، كيف يصنع؟ إن سكت، سكت على امر عظيم، وإن تكلم فمثل ذلك؟ فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يجبه، فقام لحاجته، فلما كان بعد ذلك، اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، قال: فانزل الله تعالى هذه الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 حتى ختم الآيات، فدعا الرجل، فتلاهن عليه، وذكره بالله تعالى، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: والذي بعثك بالحق، ما كذبت عليها، ثم دعا المراة، فوعظها وذكرها، واخبرها بان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: والذي بعثك بالحق، إنه لكاذب، فدعا الرجل، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم دعا بالمراة، فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَيْنِ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَال: سُبْحَانَ اللَّهِ! نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانٌ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ تَكَلَّمَ فَمِثْلُ ذَلِكَ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَامَ لِحَاجَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ، فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَذَكَّرَهُ بِاللَّهِ تَعَالَى، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَا الْمَرْأَةَ، فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا بِأَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَدَعَا الرَّجُلَ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ دَعَا بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کی جائے گی؟ انہوں نے میرا سوال سن کر سبحان اللہ کہا اور فرمایا: لعان کے متعلق سب سے پہلے فلاں بن فلاں نے سوال کیا تھا، اس نے عرض کیا تھا، یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو بدکاری کرتا ہوا دیکھتا ہے، وہ بولتا ہے تو بہت بڑی بات کہتا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو اتنی بڑی بات پر خاموش رہتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے سکوت فرمایا، کچھ ہی عرصے بعد وہ شخص دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے جو سوال پوچھا تھا، میں اس میں مبتلا ہو گیا ہوں، اس پر اللہ نے سورہ نور کی یہ آیات «والذين يرمون ازواجهم ...... ان كان من الصدقين» تک نازل فرمائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلا کر اس کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی، پھر ان آیات کے مطابق مرد سے لعان کا آغاز کرتے ہوئے اسے وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے، وہ کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میں آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، دوسرے نمبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو رکھا اسے بھی وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے، وہ کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، یہ جھوٹا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے اس کا آغاز کیا اور اس نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، پھر عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن مسلم الخباط ، عن ابن عمر ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتلقى الركبان، او يبيع حاضر لباد، ولا يخطب احدكم على خطبة اخيه حتى ينكح او يدع، ولا صلاة بعد العصر حتى تغيب الشمس، ولا بعد الصبح حتى ترتفع الشمس او تضحي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْخَبَّاطِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، أَوْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَا يَخْطُبْ أَحَدُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ حَتَّى يَنْكِحَ أَوْ يَدَعَ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ أَوْ تُضْحِيَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تاجر سوار ہو کر آنے والوں سے، باہر باہر ہی مل لیں، یا کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے بیع کرے، یا کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح بھیجے تا وقتیکہ نکاح نہ ہو جائے یا رشتہ چھوٹ نہ جائے، اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور نماز فجر کے بعد سورج کے بلند ہو جانے تک کوئی نفل نماز نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا ابن ابي ذئب ، عن الحارث بن عبد الرحمن ، عن حمزة بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: كانت تحتي امراة احبها، وكان عمر يكرهها، فامرني ان اطلقها، فابيت، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن عند عبد الله بن عمر امراة كرهتها له، فامرته ان يطلقها، فابى، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا عبد الله،" طلق امراتك"، فطلقتها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ أُحِبُّهَا، وَكَانَ عُمَرُ يَكْرَهُهَا، فَأَمَرَنِي أَنْ أُطَلِّقَهَا، فَأَبَيْتُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ امْرَأَةً كَرِهْتُهَا لَهُ، فَأَمَرْتُهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَأَبَى، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ،" طَلِّقْ امْرَأَتَكَ"، فَطَلَّقْتُهَا.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، کہتے ہیں میری جو بیوی تھی، مجھے اس سے بڑی محبت تھی، لیکن وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے طلاق دے دو، میں نے اسے طلاق دینے میں لیت و لعل کی، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، اور عرض کیا، یا رسول اللہ!! عبداللہ بن عمر کے نکاح میں جو عورت ہے، مجھے وہ پسند نہیں ہے، میں اسے کہتا ہوں کہ اسے طلاق دے دے، تو وہ میری بات نہیں مانتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ عبداللہ! اپنی بیوی کو طلاق دے دو، چنانچہ میں نے اسے طلاق دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرني ابن ابي ذئب ، عن عثمان بن عبد الله بن سراقة ، قال: كنا في سفر ومعنا ابن عمر ، فسالته؟ فقال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا يسبح في السفر قبل الصلاة ولا بعدها، قال: وسالت ابن عمر عن بيع الثمار؟ فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة"، قلت: ابا عبد الرحمن، وما تذهب العاهة؟ ما العاهة؟ قال: طلوع الثريا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ ، فَسَأَلْتُهُ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ؟ فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ"، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ؟ مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: طُلُوعُ الثُّرَيَّا.
عبداللہ بن سراقہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، میں نے ان سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرائض سے پہلے یا بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے (سنتیں مراد ہیں)۔ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پھلوں کی بیع کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «عاهه» کے ختم ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے، میں نے ان سے «عاهه» کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ثریا ستارہ کا طلوع ہونا (جو کہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اب اس پھل پر کوئی آفت نہیں آئے گی)۔ ابن سری کہتے ہیں کہ خراسان کوئی عقلمندوں کا شہر نہیں ہے، اگر کچھ ہو بھی تو صرف اس شہر ”مرو“ میں ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وبهز ، قالا: حدثنا شعبة ، عن جبلة ، سمعت ابن عمر يحدث، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحنتمة"، قلت له: ما الحنتمة؟ قال: الجرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَبَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَبَلَةَ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَنْتَمَةِ"، قُلْتُ لَهُ: مَا الْحَنْتَمَةُ؟ قَالَ: الْجَرَّةُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «حنتمه» سے منع فرمای ہے، کسی نے پوچھا: وہ کیا چیز ہے؟ فرمایا: ”وہ مٹکا جو نبیذ (یا شراب کشید کرنے کے لئے) استعمال ہوتا ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلتا ہے (کپڑے زمین پر گھستے جاتے ہیں) اللہ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہ فرمائے گا۔“