(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرني ابن ابي ذئب ، عن عثمان بن عبد الله بن سراقة ، قال: كنا في سفر ومعنا ابن عمر ، فسالته؟ فقال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" لا يسبح في السفر قبل الصلاة ولا بعدها، قال: وسالت ابن عمر عن بيع الثمار؟ فقال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الثمار حتى تذهب العاهة"، قلت: ابا عبد الرحمن، وما تذهب العاهة؟ ما العاهة؟ قال: طلوع الثريا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، قَالَ: كُنَّا فِي سَفَرٍ وَمَعَنَا ابْنُ عُمَرَ ، فَسَأَلْتُهُ؟ فَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَا يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا بَعْدَهَا، قَالَ: وَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ؟ فَقَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تَذْهَبَ الْعَاهَةُ"، قُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَمَا تَذْهَبُ الْعَاهَةُ؟ مَا الْعَاهَةُ؟ قَالَ: طُلُوعُ الثُّرَيَّا.
عبداللہ بن سراقہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں تھے، ہمارے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، میں نے ان سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں فرائض سے پہلے یا بعد میں نماز نہیں پڑھتے تھے (سنتیں مراد ہیں)۔ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پھلوں کی بیع کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے «عاهه» کے ختم ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے، میں نے ان سے «عاهه» کا مطلب پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ثریا ستارہ کا طلوع ہونا (جو کہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اب اس پھل پر کوئی آفت نہیں آئے گی)۔ ابن سری کہتے ہیں کہ خراسان کوئی عقلمندوں کا شہر نہیں ہے، اگر کچھ ہو بھی تو صرف اس شہر ”مرو“ میں ہو گا۔