(حديث مرفوع) حدثنا يزيد ، اخبرنا عبد الملك ، سمعت سعيد بن جبير ، قال: سالت ابن عمر ، فقلت: يا ابا عبد الرحمن، المتلاعنين يفرق بينهما؟ قال: سبحان الله! نعم، إن اول من سال عن ذلك فلان، قال: يا رسول الله،" ارايت لو ان احدنا راى امراته على فاحشة، كيف يصنع؟ إن سكت، سكت على امر عظيم، وإن تكلم فمثل ذلك؟ فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يجبه، فقام لحاجته، فلما كان بعد ذلك، اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الذي سالتك عنه قد ابتليت به، قال: فانزل الله تعالى هذه الآيات في سورة النور: والذين يرمون ازواجهم سورة النور آية 6 حتى ختم الآيات، فدعا الرجل، فتلاهن عليه، وذكره بالله تعالى، واخبره ان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقال: والذي بعثك بالحق، ما كذبت عليها، ثم دعا المراة، فوعظها وذكرها، واخبرها بان عذاب الدنيا اهون من عذاب الآخرة، فقالت: والذي بعثك بالحق، إنه لكاذب، فدعا الرجل، فشهد اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، والخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، ثم دعا بالمراة، فشهدت اربع شهادات بالله إنه لمن الكاذبين، والخامسة ان غضب الله عليها إن كان من الصادقين، ثم فرق بينهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، الْمُتَلَاعِنَيْنِ يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا؟ قَال: سُبْحَانَ اللَّهِ! نَعَمْ، إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَأَلَ عَنْ ذَلِكَ فُلَانٌ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ أَحَدَنَا رَأَى امْرَأَتَهُ عَلَى فَاحِشَةٍ، كَيْفَ يَصْنَعُ؟ إِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى أَمْرٍ عَظِيمٍ، وَإِنْ تَكَلَّمَ فَمِثْلُ ذَلِكَ؟ فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُجِبْهُ، فَقَامَ لِحَاجَتِهِ، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي سَأَلْتُكَ عَنْهُ قَدْ ابْتُلِيتُ بِهِ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَاتِ فِي سُورَةِ النُّورِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ سورة النور آية 6 حَتَّى خَتَمَ الْآيَاتِ، فَدَعَا الرَّجُلَ، فَتَلَاهُنَّ عَلَيْهِ، وَذَكَّرَهُ بِاللَّهِ تَعَالَى، وَأَخْبَرَهُ أَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، مَا كَذَبْتُ عَلَيْهَا، ثُمَّ دَعَا الْمَرْأَةَ، فَوَعَظَهَا وَذَكَّرَهَا، وَأَخْبَرَهَا بِأَنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ، فَقَالَتْ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، إِنَّهُ لَكَاذِبٌ، فَدَعَا الرَّجُلَ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الصَّادِقِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، ثُمَّ دَعَا بِالْمَرْأَةِ، فَشَهِدَتْ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنْ الْكَاذِبِينَ، وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ فَرَّقَ بَيْنَهُمَا".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمن! کیا لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کی جائے گی؟ انہوں نے میرا سوال سن کر سبحان اللہ کہا اور فرمایا: لعان کے متعلق سب سے پہلے فلاں بن فلاں نے سوال کیا تھا، اس نے عرض کیا تھا، یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو بدکاری کرتا ہوا دیکھتا ہے، وہ بولتا ہے تو بہت بڑی بات کہتا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو اتنی بڑی بات پر خاموش رہتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے سکوت فرمایا، کچھ ہی عرصے بعد وہ شخص دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے جو سوال پوچھا تھا، میں اس میں مبتلا ہو گیا ہوں، اس پر اللہ نے سورہ نور کی یہ آیات «والذين يرمون ازواجهم ...... ان كان من الصدقين» تک نازل فرمائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بلا کر اس کے سامنے ان آیات کی تلاوت کی، پھر ان آیات کے مطابق مرد سے لعان کا آغاز کرتے ہوئے اسے وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے، وہ کہنے لگا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میں آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، دوسرے نمبر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو رکھا اسے بھی وعظ و نصیحت کی اور فرمایا کہ دنیا کی سزا آخرت کے عذاب سے ہلکی ہے، وہ کہنے لگی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، یہ جھوٹا ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد سے اس کا آغاز کیا اور اس نے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر اللہ کی لعنت نازل ہو، پھر عورت کی طرف متوجہ ہوئے اور اس نے بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دی کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہا کہ اگر وہ سچا ہو تو اس پر اللہ کا غضب نازل ہو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی۔