(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني منصور ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما منكم من احد إلا وقد وكل به قرينه من الجن، وقرينه من الملائكة"، قالوا: وإياك يا رسول الله؟ قال:" وإياي، ولكن الله اعانني عليه، فلا يامرني إلا بحق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهِ قَرِينُهُ مِنَ الْجِنِّ، وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ"، قَالُوا: وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" وَإِيَّايَ، وَلَكِنَّ اللَّهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ، فَلَا يَأْمُرُنِي إِلَّا بِحَقٍّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص کے ساتھ جنات میں سے ایک ہم نشین اور ایک ہم نشین ملائکہ میں سے مقرر کیا گیا ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ”ہاں! لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی اس لئے اب وہ مجھے صرف حق بات کا ہی حکم دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، ان مجاهدا اخبره، ان ابا عبيدة اخبره، عن ابيه ، قال: كنا جلوسا في مسجد الخيف ليلة عرفة قبل يوم عرفة، إذ سمعنا حس الحية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقتلوا"، قال: فقمنا، قال: فدخلت شق جحر، فاتي بسعفة فاضرم فيها نارا، واخذنا عودا، فقلعنا عنها بعض الجحر، فلم نجدها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" دعوها، وقاها الله شركم، كما وقاكم شرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّ مُجَاهِدًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا فِي مَسْجِدِ الْخَيْفِ لَيْلَةَ عَرَفَةَ قَبْلَ يَوْمِ عَرَفَةَ، إِذْ سَمِعْنَا حِسَّ الْحَيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْتُلُوا"، قَالَ: فَقُمْنَا، قَالَ: فَدَخَلَتْ شَقَّ جُحْرٍ، فَأُتِيَ بِسَعَفَةٍ فَأُضْرِمَ فِيهَا نَارًا، وَأَخَذْنَا عُودًا، فَقَلَعْنَا عَنْهَا بَعْضَ الْجُحْرِ، فَلَمْ نَجِدْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهَا، وَقَاهَا اللَّهُ شَرَّكُمْ، كَمَا وَقَاكُمْ شَرَّهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ شب عرفہ میں - جو یوم عرفہ سے پہلے تھی - مسجد خیف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمیں سانپ کی آواز محسوس ہوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دو“، ہم کھڑے ہوئے تو وہ ایک بل کے سوراخ میں گھس گیا، ایک چنگاری لا کر اس بل کو آگ لگا دی گئی، پھر ہم نے ایک لکڑی لے کر اس سے اس بل کو کریدنا شروع کیا تو وہ سانپ ہمیں نہ ملا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھوڑو، اللہ نے اسے تمہارے شر سے بچا لیا جیسے تمہیں اس کے شر سے بچا لیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا إسماعيل هو ابن ابي خالد ، حدثني قيس ، عن ابن مسعود ، قال: كنا" نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس لنا نساء، فقلنا: يا رسول الله، الا نستخصي؟! فنهانا عن ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ هُوَ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنَّا" نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَنَا نِسَاءٌ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَسْتَخْصِي؟! فَنَهَانَا عَنْ ذَلِكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کرتے تھے، ہمارے ساتھ عورتیں نہیں ہوتی تھیں، ایک مرتبہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرما دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا إسماعيل ، حدثني قيس ، عن ابن مسعود ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا حسد إلا في اثنين رجل آتاه الله مالا، فسلطه على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله حكمة، فهو يقضي بها، ويعلمها الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا، وَيُعَلِّمُهَا النَّاسَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد نبوی منقول ہے کہ ”سوائے دو آدمیوں کے کسی اور پر حسد (رشک) کرنا جائز نہیں ہے، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال و دولت عطا فرمایا ہو اور اسے راہ حق میں لٹانے پر مسلط کر دیا ہو، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے دانائی عطا فرمائی ہو اور وہ اس کے ذریعے لوگوں کے فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني ابي ، عن ابي يعلى ، عن ربيع بن خثيم ، عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه خط خطا مربعا، وخط خطا وسط الخط المربع، وخطوطا إلى جنب الخط الذي وسط الخط المربع، وخط خارج من الخط المربع، قال:" هل تدرون ما هذا؟"، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" هذا الإنسان، الخط الاوسط، وهذه الخطوط التي إلى جنبه الاعراض تنهشه من كل مكان، إن اخطاه هذا، اصابه هذا، والخط المربع الاجل المحيط به، والخط الخارج الامل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي يَعْلَى ، عَنْ رَبِيْعِ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ خَطَّ خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخُطُوطًا إِلَى جَنْبِ الْخَطِّ الَّذِي وَسَطَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، وَخَطٌّ خَارِجٌ مِنَ الْخَطِّ الْمُرَبَّعِ، قَالَ:" هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" هَذَا الْإِنْسَانُ، الْخَطُّ الْأَوْسَطُ، وَهَذِهِ الْخُطُوطُ الَّتِي إِلَى جَنْبِهِ الْأَعْرَاضُ تَنْهَشُهُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، إِنْ أَخْطَأَهُ هَذَا، أَصَابَهُ هَذَا، وَالْخَطُّ الْمُرَبَّعُ الْأَجَلُ الْمُحِيطُ بِهِ، وَالْخَطُّ الْخَارِجُ الْأَمَلُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چوکور خط کھینچا، اس کے درمیان ایک اور لکیر کھینچی اور اس درمیان والی لکیر کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں اور ایک لکیر اس چوکور خط کے باہر کھینچی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، فرمایا: ”اس درمیان والی لکیر سے مراد انسان ہے، اس کے دائیں بائیں جو لکیریں ہیں، وہ بیماریاں ہیں جو انسان کو ڈستی رہتی ہیں، اگر یہ چوک جائے تو وہ نشانے پر لگ جاتی ہے اور چوکور خط سے مراد انسان کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئے ہے اور بیرونی لکیر سے مراد امید ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابن مسعود ، ان رجلا اصاب من امراة قبلة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يساله عن كفارتها، فانزل الله عز وجل: واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات سورة هود آية 114، فقال: يا رسول الله، الي هذه؟ فقال:" لمن عمل كذا من امتي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنْ كَفَّارَتِهَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ سورة هود آية 114، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِي هَذِهِ؟ فَقَالَ:" لِمَنْ عَمِلَ كَذَا مِنْ أُمَّتِي".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کو بوسہ دے دیا، پھر نادم ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کفارہ دریافت کرنے کے لئے آیا، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾ [هود: 114] »”دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں“، اس نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم میرے ساتھ خاص ہے؟ فرمایا: ”نہیں، بلکہ میری امت کے ہر اس شخص کے لئے یہی حکم ہے جس سے ایسا عمل سرزد ہو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يمنعن احدكم اذان بلال عن سحوره، فإنه يؤذن او قال: ينادي ليرجع قائمكم، وينتبه نائمكم، ليس ان يقول هكذا وضم يده ورفعها، ولكن حتى يقول هكذا"، وفرق يحيى بين السبابتين، قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث لم اسمعه من احد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ عَنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ أَوْ قَالَ: يُنَادِي لِيَرْجِعَ قَائِمُكُمْ، وَيَنْتَبِهَ نَائِمُكُمْ، لَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا وَضَمَّ يَدَهُ وَرَفَعَهَا، وَلَكِنْ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا"، وَفَرَّقَ يَحْيَى بَيْنَ السَّبَّابَتَيْنِ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ أَحَدٍ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے روک نہ دے کیونکہ وہ اس لئے جلدی اذان دے دیتے ہیں کہ قیام اللیل کرنے والے واپس آ جائیں اور سونے والے بیدار ہو جائیں (اور سحری کھا لیں) صبح صادق اس طرح نہیں ہوتی، (راوی نے اپنا ہاتھ ملا کر بلند کیا)، بلکہ اس طرح ہوتی ہے“، راوی نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیوں کو جدا کر کے دکھایا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”آگاہ رہو، بہت زیادہ بحث مباحثہ کرنے والے ہلاک ہو گئے“، یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ گویا گرم پتھر پر بیٹھے ہوں، میں نے پوچھا کھڑے ہونے تک؟ فرمایا: ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثنا جامع بن شداد ،، عن عبد الرحمن بن ابي علقمة ، قال: سمعت ابن مسعود ، يقول: اقبل النبي صلى الله عليه وسلم من الحديبية ليلا، فنزلنا دهاسا من الارض، فقال:" من يكلؤنا؟"، فقال بلال: انا، قال:" إذا تنام"، قال: لا، فنام حتى طلعت الشمس، فاستيقظ فلان وفلان، فيهم عمر، فقال: اهضبوا، فاستيقظ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" افعلوا ما كنتم تفعلون"، فلما فعلوا، قال:" هكذا، فافعلوا لمن نام منكم او نسي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ ،، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: أَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحُدَيْبِيَةِ لَيْلًا، فَنَزَلْنَا دَهَاسًا مِنَ الْأَرْضِ، فَقَالَ:" مَنْ يَكْلَؤُنَا؟"، فَقَالَ بِلَالٌ: أَنَا، قَالَ:" إِذًا تَنَامَ"، قَالَ: لَا، فَنَامَ حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ، فَاسْتَيْقَظَ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، فِيهِمْ عُمَرُ، فَقَالَ: اهْضِبُوا، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" افْعَلُوا مَا كُنْتُمْ تَفْعَلُونَ"، فَلَمَّا فَعَلُوا، قَالَ:" هَكَذَا، فَافْعَلُوا لِمَنْ نَامَ مِنْكُمْ أَوْ نَسِيَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ سے رات کو واپس آ رہے تھے، ہم نے ایک نرم زمین پر پڑاؤ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری خبر گیری کون کرے گا؟ (فجر کے لئے کون جگائے گا؟)“ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم بھی سو گئے تو؟“ انہوں نے عرض کیا: نہیں سوؤں گا، اتفاق سے ان کی بھی آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ سورج نکل آیا اور فلاں فلاں صاحب بیدار ہو گئے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے سب کو اٹھایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے اور فرمایا: ”اسی طرح کرو جیسے کرتے تھے“(نماز حسب معمول پڑھ لو)، جب لوگ ایسا کر چکے تو فرمایا کہ ”اگر تم میں سے کوئی شخص سو جائے یا بھول جائے تو ایسے ہی کیا کرو۔“