مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 1773
Save to word اعراب
حدثنا جرير ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، عن عبد المطلب بن ربيعة ، قال: دخل العباس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إنا لنخرج فنرى قريشا تحدث، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد. وهو مكرر ما قبله.
حدیث نمبر: 1774
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني عبد الملك بن عمير ، حدثنا عبد الله بن الحارث ، حدثنا العباس ، قال: قلت للنبي صلى الله عليه وسلم: ما اغنيت عن عمك، فقد كان يحوطك ويغضب لك، قال:" هو في ضحضاح من النار، ولولا انا لكان في الدرك الاسفل من النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَغْنَيْت عَنْ عَمِّكَ، فَقَدْ كَانَ يَحُوطُكَ وَيَغْضَبُ لَكَ، قَالَ:" هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنَ النَّارَ، وَلَوْلَا أَنَا لَكَانَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ".
ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے چچا ابوطالب آپ کا بہت دفاع کیا کرتے تھے، آپ کی وجہ سے انہیں کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا: وہ جہنم کے اوپر والے حصے میں ہیں، اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوتے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3883، م: 209.
حدیث نمبر: 1775
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، اخبرني كثير بن عباس بن عبد المطلب ، عن ابيه العباس ، قال: شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حنينا، قال: فلقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم، وما معه إلا انا وابو سفيان بن الحارث بن عبد المطلب، فلزمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم نفارقه، وهو على بغلة شهباء، وربما قال معمر: بيضاء، اهداها له فروة بن نعامة الجذامي، فلما التقى المسلمون والكفار، ولى المسلمون مدبرين، وطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يركض بغلته قبل الكفار، قال العباس: وانا آخذ بلجام بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم اكفها، وهو لا يالو ما اسرع نحو المشركين، وابو سفيان بن الحارث آخذ بغرز رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا عباس ناد يا اصحاب السمرة"، قال: وكنت رجلا صيتا، فقلت باعلى صوتي: اين اصحاب السمرة؟ قال: فوالله لكان عطفتهم حين سمعوا صوتي عطفة البقر على اولادها، فقالوا: يا لبيك يا لبيك يا لبيك، واقبل المسلمون فاقتتلوا هم والكفار، فنادت الانصار يقولون: يا معشر الانصار، ثم قصرت الداعون على بني الحارث بن الخزرج، فنادوا يا بني الحارث بن الخزرج، قال: فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على بغلته، كالمتطاول عليها إلى قتالهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هذا حين حمي الوطيس"، قال: ثم اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم حصيات، فرمى بهن وجوه الكفار، ثم قال:" انهزموا ورب الكعبة، انهزموا ورب الكعبة"، قال فذهبت انظر، فإذا القتال على هيئته فيما ارى، قال: فوالله ما هو إلا ان رماهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بحصياته، فما زلت ارى حدهم كليلا، وامرهم مدبرا، حتى هزمهم الله، قال: وكاني انظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم يركض خلفهم على بغلته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، عَنْ أَبِيهِ الْعَبَّاسِ ، قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا مَعَهُ إِلَّا أَنَا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَزِمْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ نُفَارِقْهُ، وَهُوَ عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ، وَرُبَّمَا قَالَ مَعْمَرٌ: بَيْضَاءَ، أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نَعَامَةَ الْجُذَامِيُّ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ، وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ، وَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا، وَهُوَ لَا يَأْلُو مَا أَسْرَعَ نَحْوَ الْمُشْرِكِينَ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذٌ بِغَرْزِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبَّاسُ نَادِ يَا أَصْحَابَ السَّمُرَةِ"، قَالَ: وَكُنْتُ رَجُلًا صَيِّتًا، فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ؟ قَالَ: فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا: يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ، وَأَقْبَلَ الْمُسْلِمُونَ فَاقْتَتَلُوا هُمْ وَالْكُفَّارُ، فَنَادَتْ الْأَنْصَارُ يَقُولُونَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ قَصَّرَتْ الدَّاعُونَ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَنَادَوْا يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَ: فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ، كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ"، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ، فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ:" انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ"، قَالَ فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ، فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَصَيَاتِهِ، فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا، وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا، حَتَّى هَزَمَهُمْ اللَّهُ، قَالَ: وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ خَلْفَهُمْ عَلَى بَغْلَتِهِ.
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ حنین کے موقع پر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میرے اورابوسفیان بن حارث کے علاوہ کوئی نہ تھا، ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چمٹے رہے اور کسی صورت جدا نہ ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر سوار تھے جو انہیں فروہ بن نعامہ الجذامی نے ہدیہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ جب مسلمان اور کفار آمنے سامنے ہوئے تو ابتدائی طور پر مسلمان پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ایڑ لگا کر اپنے خچر پر کفار کی طرف بڑھنے لگے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑ رکھی تھی اور میں اسے آگے جانے سے روک رہا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی طرف تیزی سے بڑھنے میں کوئی کوتاہی نہ کر رہے تھے،ابوسیفان بن حارث نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی رکاب تھام رکھی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا رخ دیکھ کر فرمایا: عباس! یا اصحاب السمرۃ کہہ کر مسلمانوں کو پکارو۔ میری آواز طبعی طور پر اونچی تھی اس لئے میں نے اونچی آواز سے پکار کر کہا: این اصحاب السمرۃ؟ واللہ! یہ آواز سنتے ہی مسلمان ایسے پلٹے جیسے گائے اپنی اولاد کی طرف واپس پلٹتی ہے، اور لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے اور کفار پر جا پڑے۔ ادھر انصار نے اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہوئے کہا: اے گروہ انصار! پھر منادی کرنے والوں نے صرف بنو حارث بن خزرج کا نام لے کر انہیں پکارا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کیفیت کو اپنے خچر پر سوار ملاحظہ فرمایا اور ایسا محسوس ہوا کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی آگے بڑھ کر قتال میں شریک ہونا چاہتے ہیں، تو فرمایا: اب گھمسان کا رن پڑا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کفار کے چہروں پر انہیں پھینکتے ہوئے فرمایا: رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہو گئی، رب کعبہ کی قسم! انہیں شکست ہو گئی۔ میں جائزہ لینے کے لئے آگے بڑھا تو میرا خیال یہ تھا کہ لڑائی تو ابھی اسی طرح جاری ہے، لیکن واللہ! جیسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کنکریاں پھینکیں تو مجھے محسوس ہوا کہ ان کی تیزی سستی میں تبدیل ہو رہی ہے، اور ان کا معاملہ پشت پھیر کر بھاگنے کے قریب ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ نے انہیں شکست سے دو چار کر دیا، اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں اب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خچر پر سوار ان کی طرف ایڑ لگا کر جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1757.
حدیث نمبر: 1776
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمعت الزهري مرة او مرتين، فلم احفظه، عن كثير بن عباس ، قال: كان عباس وابو سفيان معه، يعني النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فخطبهم، وقال:" الآن حمي الوطيس" وقال:" ناد يا اصحاب سورة البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، فَلَمْ أَحْفَظْهُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ عَبَّاسٌ وَأَبُو سُفْيَانَ مَعَهُ، يعني النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَطَبَهُمْ، وَقَالَ:" الْآنَ حَمِيَ الْوَطِيسُ" وَقَالَ:" نَادِ يَا أَصْحَابَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور سیدناابوسفیان رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا، اور فرمایا کہ اب گھمسان کا رن پڑا ہے۔ اور فرمایا: یہ آواز لگاؤ: یا اصحاب سورۃ البقرۃ۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1757.
حدیث نمبر: 1777
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا جرير بن عبد الحميد ابو عبد الله ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن عبد الله بن الحارث ، عن عبد المطلب بن ربيعة ، قال: دخل العباس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إنا لنخرج فنرى قريشا تحدث، فإذا راونا سكتوا، فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودر عرق بين عينيه، ثم قال:" والله لا يدخل قلب امرئ إيمان حتى يحبكم لله ولقرابتي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: دَخَلَ الْعَبَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَخْرُجُ فَنَرَى قُرَيْشًا تَحَدَّثُ، فَإِذَا رَأَوْنَا سَكَتُوا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَرَّ عِرْقٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" وَاللَّهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِئٍ إِيمَانٌ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ وَلِقَرَابَتِي".
عبدالمطلب بن ربیعہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم لوگ باہر نکلتے ہیں اور دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ قریش کے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں لیکن ہمیں دیکھ کر وہ خاموش ہو جاتے ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اور دونوں آنکھوں کے درمیان موجود رگ پھول گئی، پھر فرمایا: اللہ کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ کی رضا کے لئے اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرنے لگے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد.
حدیث نمبر: 1778
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن إدريس يعني الشافعي ، حدثنا عبد العزيز بن محمد ، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم ، عن عامر بن سعد ، عن عباس بن عبد المطلب ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا رسولا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ يَعْنِي الشَّافِعِيَّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا رَسُولًا".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہو گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 34.
حدیث نمبر: 1779
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث بن سعيد ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث ، عن عامر بن سعد ، عن العباس بن عبد المطلب ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" ذاق طعم الإيمان من رضي بالله ربا، وبالإسلام دينا، وبمحمد نبيا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر مان کر راضی اور مطمئن ہو گیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 34.
حدیث نمبر: 1780
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا بكر بن مضر القرشي ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث ، عن عامر بن سعد ، عن العباس بن عبد المطلب ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إذا سجد العبد سجد معه سبعة آراب: وجهه، وكفاه، وركبتاه، وقدماه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ الْقُرَشِيُّ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِذَا سَجَدَ الْعَبْدُ سَجَدَ مَعَهُ سَبْعَةُ آرَابٍ: وَجْهُهُ، وَكَفَّاهُ، وَرُكْبَتَاهُ، وَقَدَمَاهُ".
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان سجدہ کرتا ہے تو اس کے ساتھ سات ہڈیاں سجدہ کرتی ہیں: چہرہ، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور دونوں گھٹنے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 491.
حدیث نمبر: 1781
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، انبانا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، ان عمر دعاه... فذكر الحديث، قال: فبينا انا عنده إذ جاء حاجبه يرفا، فقال: هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , والزبير , وسعد يستاذنون؟ قال: نعم، فادخلهم، فلبث قليلا، ثم جاءه، فقال: هل لك في علي , وعباس يستاذنان؟ قال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا , قال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا لعلي، وهما يختصمان في الصوافي التي افاء الله على رسوله من اموال بني النضير، فقال الرهط: يا امير المؤمنين، اقض بينهما وارح احدهما من الآخر، قال عمر : اتئدوا، اناشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد نفسه؟ قالوا: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي وعلى العباس ، فقال: انشدكما بالله، اتعلمان ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال ذلك؟ قالا: نعم، قال: فإني احدثكم عن هذا الامر إن الله عز وجل كان خص رسوله في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم إلى قدير سورة الحشر آية 6 , فكانت هذه خاصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها دونكم، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، ثم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضه ابو بكر فعمل فيه بما عمل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ ، أَنَّ عُمَرَ دَعَاهُ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا عِنْدَهُ إِذْ جَاءَ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَالزُّبَيْرِ , وَسَعْدٍ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَدْخَلَهُمْ، فَلَبِثَ قَلِيلًا، ثُمَّ جَاءَهُ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ يَسْتَأْذِنَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا , قَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا لَعَلِيٍّ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِي الصَّوَافِي الَّتِي أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَمْوَالِ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الرَّهْطُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، قَالَ عُمَرُ : اتَّئِدُوا، أُنَاشِدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ نَفْسَهُ؟ قَالُوا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَلَى الْعَبَّاسِ ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ إِلَى قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 , فَكَانَتْ هَذِهِ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهُ أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهِ بِمَا عَمِلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام - جس کا نام یرفا تھا - اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس و سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا، اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «﴿وَمَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾ [الحشر: 6] » اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن واللہ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے، اور اس مال میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4033، م: 1757.
حدیث نمبر: 1782
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه محمد بن مسلم ، قال: اخبرني مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، فذكر الحديث، قال: فبينا انا جالس عنده اتاه حاجبه يرفا، فقال لعمر: هل لك في عثمان , وعبد الرحمن , وسعد , والزبير يستاذنون؟ قال: نعم، ائذن لهم، قال: فدخلوا فسلموا وجلسوا , قال: ثم لبث يرفا قليلا، فقال لعمر هل لك في علي , وعباس؟ فقال: نعم، فاذن لهما، فلما دخلا عليه جلسا، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين علي رضي الله عنه؟ فقال الرهط عثمان واصحابه: اقض بينهما , وارح احدهما من الآخر، فقال عمر رضي الله عنه: اتئدوا، فانشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض، هل تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" لا نورث ما تركنا صدقة"، يريد بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم نفسه؟ قال الرهط: قد قال ذلك، فاقبل عمر على علي , وعباس رضي الله عنهما، فقال: انشدكما بالله، هل تعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال ذلك؟ قالا: قد قال ذلك، فقال عمر: فإني احدثكم عن هذا الامر، إن الله عز وجل كان خص رسوله في هذا الفيء بشيء لم يعطه احدا غيره، فقال الله تعالى وما افاء الله على رسوله منهم فما اوجفتم سورة الحشر آية 6، فكانت هذه الآية خاصة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم والله ما احتازها، ولا استاثر بها عليكم، لقد اعطاكموها وبثها فيكم، حتى بقي منها هذا المال، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفق على اهله نفقة سنتهم من هذا المال، ثم ياخذ ما بقي منه، فيجعله مجعل مال الله، فعمل بذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم حياته، انشدكم الله، هل تعلمون ذلك؟ قالوا: نعم، قال لعلي , وعباس، فانشدكما بالله، هل تعلمان ذلك؟ قالا: نعم، ثم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقبضها ابو بكر رضي الله تعالى عنه، فعمل فيها بما عمل به فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانتم حينئذ، واقبل على علي , وعباس، تزعمان ان ابا بكر فيها كذا، والله يعلم إنه فيها لصادق بار راشد تابع للحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيُّ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَأُ، فَقَالَ لِعُمَرَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ , وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ , وَسَعْدٍ , وَالزُّبَيْرِ يَسْتَأْذِنُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ، ائْذَنْ لَهُمْ، قَالَ: فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا , قَالَ: ثُمَّ لَبِثَ يَرْفَأُ قَلِيلًا، فَقَالَ لِعُمَرَ هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَلَمَّا دَخَلَا عَلَيْهِ جَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟ فَقَالَ الرَّهْطُ عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ: اقْضِ بَيْنَهُمَا , وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: اتَّئِدُوا، فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَن َّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ"، يُرِيدُ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ؟ قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ ذَلِكَ؟ قَالَا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ سورة الحشر آية 6، فَكَانَتْ هَذِهِ الْآيَةُ خَاصَّةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، لَقَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ مِنْهُ، فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيَاتَهُ، أَنْشُدُكُمْ اللَّهَ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ لِعَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، فَأَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ، فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتُمْ حِينَئِذٍ، وَأَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ , وَعَبَّاسٍ، تَزْعُمَانِ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ فِيهَا كَذَا، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ.
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا، ابھی ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام - جس کا نام یرفا تھا - اندر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا سعد اور سیدنا زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم اجمعین اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: بلا لو، تھوڑی دیر بعد وہ غلام پھر آیا اور کہنے لگا کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا: انہیں بھی بلا لو۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اندر داخل ہوتے ہی فرمایا: امیر المومنین! میرے اور اس کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، اس وقت ان کا جھگڑا بنو نضیر سے حاصل ہونے والے مال فئی کے بارے میں تھا، لوگوں نے بھی کہا کہ امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے اور ہر ایک کو دوسرے سے راحت عطاء فرمائیے کیونکہ اب ان کا جھگڑا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین آسمان قائم ہیں، کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا، پھر انہوں نے سیدنا عباس و سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی تائید کی، اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں۔ اللہ نے یہ مال فئی خصوصیت کے ساتھ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا، کسی کو اس میں سے کچھ نہیں دیا تھا اور فرمایا تھا: «﴿وَمَا أَفَاءَ اللّٰهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ﴾ [الحشر: 6] » اور جو (مال) خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ اس لئے یہ مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خاص تھا، لیکن واللہ! انہوں نے تمہیں چھوڑ کر اسے اپنے لئے محفوظ نہیں کیا اور نہ ہی اس مال کو تم پر ترجیح دی، انہوں نے یہ مال بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دیا یہاں تک کہ یہ تھوڑا سا بچ گیا جس میں سے وہ اپنے اہل خانہ کو سال بھر کا نفقہ دیا کرتے تھے، اور اس میں سے بھی اگر کچھ بچ جاتا تو اسے اللہ کے راستہ میں تقسیم کر دیتے، اور وہ اپنی زندگی میں اسی طریقے پر عمل کرتے رہے، میں تم سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا تم بھی یہ بات جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں! پھر انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی یہی سوال پوچھا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کے مال کا ذمہ دار اور سرپرست میں ہوں، چنانچہ انہوں نے اس میں وہی طریقہ اختیار کیا جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے، اور اب تم (انہوں نے سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا) یہ سمجھتے ہو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ایسے تھے، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سچے، نیکوکار، راہ راست پر اور حق کی تابعداری کرنے والے تھے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3094، م: 1757.

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.