(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن عطاء ، عن ابن عباس ، اشهد على رسول الله صلى الله عليه وسلم،" صلى قبل الخطبة في العيد، ثم خطب فراى انه لم يسمع النساء، فاتاهن فذكرهن ووعظهن، وامرهن بالصدقة، فجعلت المراة تلقي الخرص، والخاتم، والشيء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" صَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ فِي الْعِيدِ، ثُمَّ خَطَبَ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ النِّسَاءَ، فَأَتَاهُنَّ فَذَكَّرَهُنَّ وَوَعَظَهُنَّ، وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْخُرْصَ، وَالْخَاتَمَ، وَالشَّيْءَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی، پھر خطبہ ارشاد فرمایا، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیال آیا کہ عورتوں کے کانوں تک تو آواز پہنچی ہی نہیں ہوگی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے پاس آکر انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کا حکم دیا، جس پر عورتیں اپنی بالیاں اور انگوٹھیاں وغیرہ اتار کر صدقہ دینے لگیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عاصم ، عن الشعبي ، عن ابن عباس , ان النبي صلى الله عليه وسلم،" شرب من دلو من زمزم قائما"، قال سفيان: كذا احسب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" شَرِبَ مِنْ دَلْوٍ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا"، قَالَ سَفْيَان: كَذَا أَحْسَبُ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے کنوئیں سے ڈول نکال کر اس کا پانی کھڑے کھڑے پی لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ابن جدعان ، عن عمرو بن حرملة ، عن ابن عباس , شرب النبي صلى الله عليه وسلم وابن عباس عن يمينه، وخالد بن الوليد عن شماله، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" الشربة لك، وإن شئت آثرت بها خالدا،" , قال: ما اوثر على رسول الله صلى الله عليه وسلم احدا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ جُدْعَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَرْمَلَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , شَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ يَمِينِهِ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ عَنْ شِمَالِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّرْبَةُ لَكَ، وَإِنْ شِئْتَ آثَرْتَ بِهَا خَالِدًا،" , قَالَ: مَا أُوثِرُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ پی رہے تھے، ابن عباس رضی اللہ عنہما دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بائیں جانب، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ ”پینے کا حق تو تمہارا ہے لیکن اگر تم چاہو تو میں خالد کو ترجیح دے کر یہ دے دوں؟“ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھوڑے ہوئے مشروب پر میں کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف، ابن جدعان ضعيف وعمرو بن حرملة مجهول. وأصل القصة فى استئذان الصغير الجالس على اليمين ثابت فى «الصحيحين» من حديث سهل بن سعد.
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن معمر ، عن عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن ابن ابي مليكة إن شاء الله، يعني ," استاذن ابن عباس على عائشة، فلم يزل بها بنو اخيها، قالت: اخاف ان يزكيني، فلما اذنت له، قال: ما بينك وبين ان تلقي الاحبة، إلا ان يفارق الروح الجسد، كنت احب ازواج رسول الله صلى الله عليه وسلم إليه، ولم يكن يحب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا طيبا، وسقطت قلادتك ليلة الابواء، فنزلت فيك آيات من القرآن، فليس مسجد من مساجد المسلمين، إلا يتلى فيه عذرك آناء الليل وآناء النهار، فقالت: دعني من تزكيتك يا ابن عباس، فوالله لوددت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، يَعْنِي ," اسْتَأْذَنَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَلَى عَائِشَةَ، فَلَمْ يَزَلْ بِهَا بَنُو أَخِيهَا، قَالَتْ: أَخَافُ أَنْ يُزَكِّيَنِي، فَلَمَّا أَذِنَتْ لَهُ، قَالَ: مَا بَيْنَكِ وَبَيْنَ أَنْ تَلْقَيْ الأَحِبَّةَ، إِلَّا أَنْ يُفَارِقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ، كُنْتِ أَحَبَّ أَزْوَاجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ، وَلَمْ يَكُنْ يُحِبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا طَيِّبًا، وَسَقَطَتْ قِلَادَتُكِ لَيْلَةَ الْأَبْوَاءِ، فَنَزَلَتْ فِيكِ آيَاتٌ مِنَ الْقُرْآنِ، فَلَيْسَ مَسْجِدٌ مِنْ مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا يُتْلَى فِيهِ عُذْرُكِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَقَالَتْ: دَعْنِي مِنْ تَزْكِيَتِكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ".
ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے مرض الوفات میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سے اندر آنے کی اجازت مانگی، ان کے پاس ان کے بھتیجے تھے، وہ کہنے لگیں: مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آ کر میری تعریفیں کریں گے، بہرحال! انہوں نے اجازت دے دی، انہوں نے اندر آکر کہا کہ آپ کے اور دیگر دوستوں کے درمیان ملاقات کا صرف اتنا ہی وقت باقی ہے جس میں روح جسم سے جدا ہو جائے، آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب رہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی چیز کو محبوب رکھتے تھے جو طیب ہو، لیلۃ الابواء کے موقع پر آپ کا ہار ٹوٹ کر گر پڑا تھا تو آپ کی شان میں قرآن کریم کی آیات نازل ہو گئی تھیں، اب مسلمانوں کی کوئی مسجد ایسی نہیں ہے جہاں پر دن رات آپ کے عذر کی تلاوت نہ ہوتی ہو، یہ سن کر وہ فرمانے لگیں: اے ابن عباس! اپنی ان تعریفوں کو چھوڑو، واللہ! میری تو خواہش ہے . . . (کہ میں برابر سرابر چھوٹ جاؤں)۔
(حديث موقوف) حدثنا سفيان ، عن ليث ، عن رجل ، عن ابن عباس ، انه قال لها:" إنما سميت ام المؤمنين لتسعدي، وإنه لاسمك قبل ان تولدي".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ لَهَا:" إِنَّمَا سُمِّيتِ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ لِتَسْعَدِي، وَإِنَّهُ لَاسْمُكِ قَبْلَ أَنْ تُولَدِي".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ آپ کا نام ام المومنین رکھا گیا تاکہ آپ کی خوش نصیبی ثابت ہو جائے، اور یہ نام آپ کا آپ کی پیدائش سے پہلے ہی طے ہو چکا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، ليث بن أبي سليم ضعيف وشيخه مجهول.
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عبد الكريم ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، إن شاء الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم،" نهى ان يتنفس في الإناء، او ينفخ فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، إِنْ شَاءَ اللَّهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" نَهَى أَنْ يُتَنَفَّسَ فِي الإِنَاءِ، أَوْ يُنْفَخَ فِيهِ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے یا اس میں پھونکیں مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن منصور ، عن سالم ، عن كريب ، عن ابن عباس , يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم:" لو ان احدهم إذا اتى اهله، قال: بسم الله، اللهم جنبني الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا، فقضي بينهما ولد ما ضره الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَقُضِيَ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ مَا ضَرَّهُ الشَّيْطَانُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس ملاقات کے لئے آ کر یہ دعا پڑھ لے: «بِسْمِ اللّٰهِ اللّٰهُمَّ جَنِّبْنِي الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا»”اللہ کے نام سے، اے اللہ! مجھے بھی شیطان سے محفوظ فرما دیجئے اور اس ملاقات کے نتیجے میں آپ جو اولاد ہمیں عطاء فرمائیں، اسے بھی شیطان سے محفوظ فرمائیے“، تو اگر ان کے مقدر میں اولاد ہوئی تو اس اولاد کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، حدثنا عبد العزيز بن رفيع ، قال: دخلت انا وشداد بن معقل على ابن عباس، فقال ابن عباس :" ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ما بين هذين اللوحين، ودخلنا على محمد بن علي ، فقال: مثل ذلك، قال: وكان المختار يقول: الوحي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَشَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :" مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مَا بَيْنَ هَذَيْنِ اللَّوْحَيْنِ، وَدَخَلْنَا عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: وَكَانَ الْمُخْتَارُ يَقُولُ: الْوَحْيُ".
عبدالعزیز بن رفیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور شداد بن معقل سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف وہی چیز چھوڑی ہے جو دو لوحوں کے درمیان ہے (یعنی قرآن کریم)، ہم محمد بن علی کے پاس گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا، بہتر ہوتا کہ وہ ”وحی“ کا لفظ استعمال کرتے (تاکہ حدیث کو بھی شامل ہو جاتا)۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: وقال موسى بن ابي عائشة : سمعت سعيد بن جبير ، يقول: قال ابن عباس :" كان إذا نزل على النبي صلى الله عليه وسلم قرآن يريد ان يحفظه، قال الله عز وجل: لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرآنه فإذا قراناه فاتبع قرآنه سورة القيامة آية 16 - 18".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: وَقَالَ مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ : سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ :" كَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرْآنٌ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ سورة القيامة آية 16 - 18".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن کریم کا نزول ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش ہوتی تھی کہ اسے ساتھ ساتھ یاد کرتے جائیں، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ o إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ o فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ﴾ [القيامة: 16-18] »”آپ اپنی زبان کو مت حرکت دیں کہ آپ جلدی کریں، اسے جمع کرنا اور پڑھنا ہماری ذمہ داری ہے، جب ہم پڑھ چکیں تب آپ پڑھا کریں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن عمرو ، قال: اخبرني كريب ، عن ابن عباس ، انه قال: لما صلى ركعتي الفجر، اضطجع حتى نفخ، فكنا نقول لعمرو إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" تنام عيناي ولا ينام قلبي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا صَلَّى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ، اضْطَجَعَ حَتَّى نَفَخَ، فَكُنَّا نَقُولُ لِعَمْرٍو إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنتیں پڑھ لیتے تو لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگتے، راوی کہتے ہیں کہ ہم عمرو سے کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔“