(حديث قدسي) حدثنا حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا هشام ، عن يحيى بن ابي كثير ، عن إبراهيم بن عبد الله بن قارظ ، ان اباه حدثه، انه دخل على عبد الرحمن بن عوف وهو مريض، فقال له عبد الرحمن : وصلتك رحم، إن النبي صلى الله عليه وسلم , قال:" قال الله عز وجل: انا الرحمن، وخلقت الرحم، وشققت لها من اسمي، فمن يصلها اصله، ومن يقطعها اقطعه، او قال من يبتها ابتته".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : وَصَلَتْكَ رَحِمٌ، إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا الرَّحْمَنُ، وَخَلَقْتُ الرَّحِمَ، وَشَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ يَصِلْهَا أَصِلْهُ، وَمَنْ يَقْطَعْهَا أَقْطَعْهُ، أَوْ قَالَ مَنْ يَبُتَّهَا أَبْتُتْهُ".
عبداللہ بن قارظ ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے ان کے یہاں گئے، وہ بیمار ہوگئے تھے، سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ تمہیں قرابت داری نے جوڑا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جو اسے توڑے گا میں اسے توڑ کر پاش پاش کر دوں گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، عبدالله بن قارظ لم يوجد له ترجمة، لكنه توبع.
نضربن شیبان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری ملاقات ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے ہوئی، میں نے ان سے کہا کہ اپنے والد صاحب کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اور وہ بھی ماہ رمضان کے بارے میں، انہوں نے کہا: اچھا، میرے والد صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزے فرض کئے ہیں، اور میں نے اس کا قیام سنت قرار دیا ہے، جو شخص ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور تراویح ادا کرے، وہ گناہوں سے اس طرح نکل جائے گا جیسے وہ بچہ جسے اس کی ماں نے آج ہی جنم دیا ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، النضر بن شيبان ضعيف ولم يصح سماع أبى سلمة من أبيه.
(حديث مرفوع) قال ابو عبد الرحمن: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده، حدثنا محمد بن يزيد ، عن إسماعيل بن مسلم ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابن عباس ، انه كان يذاكر عمر شان الصلاة، فانتهى إليهم عبد الرحمن بن عوف ، فقال: الا احدثكم بحديث سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: بلى، قال: فاشهد اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من صلى صلاة يشك في النقصان، فليصل حتى يشك في الزيادة". آخر احاديث عبد الرحمن بن عوف رضي الله عنه(حديث مرفوع) قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ كَانَ يُذَاكِرُ عُمَرَ شَأْنَ الصَّلَاةِ، فَانْتَهَى إِلَيْهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ ، فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ صَلَّى صَلَاةً يَشُكُّ فِي النُّقْصَانِ، فَلْيُصَلِّ حَتَّى يَشُكَّ فِي الزِّيَادَةِ". آخِرُ أَحَادِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے کسی مسئلے میں مذاکرہ کر رہے تھے، ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ سامنے سے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آتے ہوئے دکھائی دیئے، انہوں نے فرمایا کہ کیا میں آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں نہیں، چنانچہ انہوں نے یہ حدیث سنائی: ”جس شخص کو نماز کی رکعتوں میں کمی کا شک ہو جائے تو وہ نماز پڑھتا رہے یہاں تک کہ بیشی میں شک ہو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إسماعيل بن مسلم ضعيف جداً وقد تقدم من طريق آخر مطولاً بمعناه برقم: 1656 وهو حسن.
(حديث مرفوع) حدثنا زياد بن الربيع ابو خداش ، حدثنا واصل مولى ابي عيينة، عن بشار بن ابي سيف الجرمي ، عن الوليد بن عبد الرحمن ، عن عياض بن غطيف ، قال: دخلنا على ابي عبيدة بن الجراح نعوده من شكوى اصابه، وامراته تحيفة قاعدة عند راسه، قلت: كيف بات ابو عبيدة؟ قالت: والله لقد بات باجر، فقال ابو عبيدة : ما بت باجر وكان مقبلا بوجهه على الحائط، فاقبل على القوم بوجهه، فقال: الا تسالونني عما قلت؟ قالوا: ما اعجبنا، ما قلت: فنسالك عنه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" من انفق نفقة فاضلة في سبيل الله، فبسبع مائة، ومن انفق على نفسه واهله، او عاد مريضا، او ماز اذى، فالحسنة بعشر امثالها، والصوم جنة ما لم يخرقها، ومن ابتلاه الله ببلاء في جسده، فهو له حطة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو خِدَاشٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، عَنْ بَشَّارِ بْنِ أَبِي سَيْفٍ الْجَرْمِيِّ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غُطَيْفٍ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ نَعُودُهُ مِنْ شَكْوًى أَصَابَهُ، وَامْرَأَتُهُ تُحَيْفَةُ قَاعِدَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ، قُلْتُ: كَيْفَ بَاتَ أَبُو عُبَيْدَةَ؟ قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ بَاتَ بِأَجْرٍ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ : مَا بِتُّ بِأَجْرٍ وَكَانَ مُقْبِلًا بِوَجْهِهِ عَلَى الْحَائِطِ، فَأَقْبَلَ عَلَى الْقَوْمِ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونَنِي عَمَّا قُلْتُ؟ قَالُوا: مَا أَعْجَبَنَا، مَا قُلْتَ: فَنَسْأَلُكَ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فَاضِلَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَبِسَبْعِ مِائَةٍ، وَمَنْ أَنْفَقَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ، أَوْ عَادَ مَرِيضًا، أَوْ مَازَ أَذًى، فَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ يَخْرِقْهَا، وَمَنْ ابْتَلَاهُ اللَّهُ بِبَلَاءٍ فِي جَسَدِهِ، فَهُوَ لَهُ حِطَّةٌ".
عیاض بن غطیف کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے، ہم ان کی عیادت کے لئے گئے تو ان کی اہلیہ - جن کا نام تحیفہ تھا - ان کے سر کے قریب بیٹھی ہوئی تھیں، ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کی رات کیسی گذری؟ انہوں نے کہا: واللہ! انہوں نے ساری رات اجر و ثواب کے ساتھ گذاری ہے، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے ساری رات اجر کے ساتھ نہیں گذاری، پہلے ان کے چہرے کا رخ دیوار کی طرف تھا، اب انہوں نے اپنا چہرہ لوگوں کی طرف کر لیا اور فرمایا کہ میں نے جو بات کہی ہے، تم اس کے متعلق مجھ سے سوال نہیں کرتے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر تعجب ہوتا تو آپ سے سوال کرتے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص اللہ کی راہ میں اپنی زائد چیز خرچ کر دے اس کا ثواب سات سو گنا ہوگا، جو اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ پر خرچ کرے، کسی بیمار کی عیادت کرے یا کسی تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹا دے تو ہر نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہونگی، اور روزہ ڈھال ہے بشرطیکہ اسے انسان پھاڑ نہ دے، اور جس شخص کو اللہ جسمانی طور پر کسی آزمائش میں مبتلا کرے وہ اس کے لئے بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔“
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور اس کی ایسی صفات بیان فرمائیں جو مجھے اب یاد نہیں ہیں، البتہ اتنی بات یاد ہے کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت آج کی نسبت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ فرمایا: ”آج سے بہتر ہوگی۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله بن سراقة لم يوثقه غير ابن حبان والعجلي ولم يرو عنه غير عبدالله بن شقيق ولا يعرف سماع ابن سراقة من أبى عبيدة.
(حديث مرفوع) حدثنا عفان , وعبد الصمد ، قالا: حدثنا حماد بن سلمة ، انبانا خالد الحذاء ، عن عبد الله بن شقيق ، عن عبد الله بن سراقة ، عن ابي عبيدة بن الجراح ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إنه لم يكن نبي بعد نوح إلا وقد انذر الدجال قومه، وإني انذركموه"، قال: فوصفه لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" ولعله يدركه بعض من رآني، او سمع كلامي"، قالوا: يا رسول الله، كيف قلوبنا يومئذ امثلها اليوم؟ قال:" او خير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ , وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ بَعْدَ نُوحٍ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ الدَّجَّالَ قَوْمَهُ، وَإِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ"، قَالَ: فَوَصَفَهُ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" وَلَعَلَّهُ يُدْرِكُهُ بَعْضُ مَنْ رَآنِي، أَوْ سَمِعَ كَلَامِي"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ قُلُوبُنَا يَوْمَئِذٍ أَمِثْلُهَا الْيَوْمَ؟ قَالَ:" أَوْ خَيْرٌ".
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہر آنے والے نبی نے اپنی اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے، اور میں بھی تمہیں اس سے ڈرا رہا ہوں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اس کی کچھ صفات بیان فرمائیں، اور فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ مجھے دیکھنے والا یا میری باتیں سننے والا کوئی شخص اسے پا لے۔“ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس وقت ہمارے دلوں کی کیفیت کیا ہوگی؟ کیا آج کی طرح ہوں گے؟ فرمایا: ”بلکہ اس سے بھی بہتر کیفیت ہوگی۔“
سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخری کلام یہ تھا کہ ”حجاز میں جو یہودی آباد ہیں اور جزیرہ عرب میں جو اہل نجران آباد ہیں انہیں نکال دو، اور جان لو کہ بد ترین لوگ وہ ہیں جو اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے ہیں۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مسلمان نے کسی شخص کو پناہ دے دی، اس وقت امیر لشکر سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے، سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کی رائے یہ تھی کہ اسے پناہ نہ دی جائے، لیکن سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اسے پناہ دیں گے، کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”کوئی بھی شخص کسی بھی شخص کو مسلمانوں پر پناہ دے سکتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن . لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان بن عمرو ، حدثنا ابو حسبة مسلم بن اكيس مولى عبد الله بن عامر، عن ابي عبيدة بن الجراح ، قال: ذكر من دخل عليه فوجده يبكي، فقال: ما يبكيك يا ابا عبيدة؟ فقال: نبكي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوما ما يفتح الله على المسلمين، ويفيء عليهم حتى ذكر الشام، فقال:" إن ينسا في اجلك يا ابا عبيدة، فحسبك من الخدم ثلاثة خادم يخدمك، وخادم يسافر معك، وخادم يخدم اهلك ويرد عليهم , وحسبك من الدواب ثلاثة: دابة لرحلك، ودابة لثقلك، ودابة لغلامك"، ثم هذا انا انظر إلى بيتي قد امتلا رقيقا، وانظر إلى مربطي قد امتلا دواب وخيلا، فكيف القى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد هذا؟ وقد اوصانا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احبكم إلي، واقربكم مني من لقيني على مثل الحال الذي، فارقني عليها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو حِسْبَةَ مُسْلِمُ بْنُ أُكَيْسٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ ، قَالَ: ذَكَرَ مَنْ دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يَبْكِي، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ؟ فَقَالَ: نَبْكِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمًا مَا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَيُفِيءُ عَلَيْهِمْ حَتَّى ذَكَرَ الشَّامَ، فَقَالَ:" إِنْ يُنْسَأْ فِي أَجَلِكَ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، فَحَسْبُكَ مِنَ الْخَدَمِ ثَلَاثَةٌ خَادِمٌ يَخْدُمُكَ، وَخَادِمٌ يُسَافِرُ مَعَكَ، وَخَادِمٌ يَخْدُمُ أَهْلَكَ وَيَرُدُّ علَيْهِمْ , وَحَسْبُكَ مِنَ الدَّوَابِّ ثَلَاثَةٌ: دَابَّةٌ لِرَحْلِكَ، وَدَابَّةٌ لِثَقَلِكَ، وَدَابَّةٌ لِغُلَامِكَ"، ثُمَّ هَذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى بَيْتِي قَدْ امْتَلَأَ رَقِيقًا، وَأَنْظُرُ إِلَى مِرْبَطِي قَدْ امْتَلَأَ دَوَابَّ وَخَيْلًا، فَكَيْفَ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ هَذَا؟ وَقَدْ أَوْصَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَبَّكُمْ إِلَيَّ، وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّي مَنْ لَقِيَنِي عَلَى مِثْلِ الْحَالِ الَّذِي، فَارَقَنِي عَلَيْهَا".
ایک مرتبہ ایک صاحب سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملنے کے لئے آئے تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، انہوں نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات اور حاصل ہونے والے مال غنیمت کا تذکرہ کیا، اس دوران شام کا تذکرہ بھی ہوا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ابوعبیدہ! اگر تمہیں زندگی مل جائے تو صرف تین خادموں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک اپنے لئے، ایک اپنے ساتھ سفر کرنے کے لئے، اور ایک اپنے اہل خانہ کے لئے جو ان کی خدمت کرے اور ان کی ضروریات مہیا کرے، اور تین سواریوں کو اپنے لئے کافی سمجھنا، ایک جانور تو اپنی سواری کے لئے، ایک اپنے سامان اور بار برداری کے لئے، اور ایک اپنے غلام کے لئے۔“ لیکن اب میں اپنے گھر پر نظر ڈالتا ہوں تو یہ مجھے غلاموں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، میں اپنے اصطبل کی طرف نگاہ دوڑاتا ہوں تو وہ مجھے سواریوں اور گھوڑوں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس صورت میں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کس منہ سے کروں گا؟ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ وصیت فرمائی تھی کہ ”میری نگاہوں میں تم میں سب سے زیادہ محبوب اور میرے قریب ترین وہ شخص ہوگا جو مجھ سے اسی حال میں آکر ملاقات کرے جس کیفیت پر وہ مجھ سے جدا ہوا تھا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، مسلم بن أكيس مجهول، وروايته عن أبى عبيدة مرسلة.