(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن ابن سيرين ، سمعه من ابي العجفاء ، سمعت عمر ، يقول: لا تغلوا صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى في الآخرة، لكان اولاكم بها النبي صلى الله عليه وسلم،" ما انكح شيئا من بناته ولا نسائه فوق اثنتي عشرة وقية". واخرى تقولونها في مغازيكم: قتل فلان شهيدا، مات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته، او دف راحلته ذهبا وفضة، يبتغي التجارة، فلا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال محمد صلى الله عليه وسلم:" من قتل في سبيل الله، فهو في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، سَمِعَهُ مِنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ ، سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى فِي الْآخِرَةِ، لَكَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" مَا أَنْكَحَ شَيْئًا مِنْ بَنَاتِهِ وَلَا نِسَائِهِ فَوْقَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ وُقِيَّةً". وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا فِي مَغَازِيكُمْ: قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا، مَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ، أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا وَفِضَّةً، يَبْتَغِي التِّجَارَةَ، فَلَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیزیں دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب زیادہ حق دار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہو جائے یا طبعی طور پر فوت ہو جائے، تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہو گیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا ہو، جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہو گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، امله علي، عن قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد الغطفاني ، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري : ان عمر قام خطيبا، فحمد الله واثنى عليه، وذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وابا بكر، ثم قال: إني رايت رؤيا كان ديكا نقرني نقرتين، ولا ارى ذلك إلا لحضور اجلي، وإن ناسا يامرونني ان استخلف، وإن الله عز وجل لم يكن ليضيع خلافته ودينه، ولا الذي بعث به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن عجل بي امر فالخلافة شورى في هؤلاء الرهط الستة الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فايهم بايعتم له، فاسمعوا له واطيعوا، وقد عرفت ان رجالا سيطعنون في هذا الامر، وإني قاتلتهم بيدي هذه على الإسلام، فإن فعلوا، فاولئك اعداء الله الكفرة الضلال. وإني والله ما ادع بعدي شيئا هو اهم إلي من امر الكلالة، ولقد سالت نبي الله صلى الله عليه وسلم عنها، فما اغلظ لي في شيء قط ما اغلظ لي فيها، حتى طعن بيده او بإصبعه في صدري، او جنبي، وقال:" يا عمر تكفيك الآية التي نزلت في الصيف، التي في آخر سورة النساء"، وإني إن اعش اقض فيها قضية لا يختلف فيها احد يقرا القرآن، او لا يقرا القرآن. ثم قال:" اللهم إني اشهدك على امراء الامصار، فإني بعثتهم يعلمون الناس دينهم، وسنة نبيهم، ويقسمون فيهم فيئهم، ويعدلون عليهم، وما اشكل عليهم يرفعونه إلي". ثم قال: يا ايها الناس، إنكم تاكلون من شجرتين لا اراهما إلا خبيثتين، هذا الثوم والبصل، لقد كنت ارى الرجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم يوجد ريحه منه، فيؤخذ بيده حتى يخرج به إلى البقيع، فمن كان آكلهما لا بد، فليمتهما طبخا، قال: فخطب بها عمر يوم الجمعة، واصيب يوم الاربعاء، لاربع ليال بقين من ذي الحجة.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، أَمَلَّهُ عَلَيَّ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ الْغَطَفَانِيِّ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ : أَنَّ عُمَرَ قَامَ خَطِيبًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ رُؤْيَا كَأَنَّ دِيكًا نَقَرَنِي نَقْرَتَيْنِ، وَلَا أُرَى ذَلِكَ إِلَّا لِحُضُورِ أَجَلِي، وَإِنَّ نَاسًا يَأْمُرُونَنِي أَنْ أَسْتَخْلِفَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيُضِيعَ خِلَافَتَهُ وَدِينَهُ، وَلَا الَّذِي بَعَثَ بِهِ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ عَجِلَ بِي أَمْرٌ فَالْخِلَافَةُ شُورَى فِي هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ السِّتَّةِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ، فَأَيُّهُمْ بَايَعْتُمْ لَهُ، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا، وَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّ رِجَالًا سَيَطْعَنُونَ فِي هَذَا الْأَمْرِ، وَإِنِّي قَاتَلْتُهُمْ بِيَدِي هَذِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ فَعَلُوا، فَأُولَئِكَ أَعْدَاءُ اللَّهِ الْكَفَرَةُ الضُّلَّالُ. وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا هُوَ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَمْرِ الْكَلَالَةِ، وَلَقَدْ سَأَلْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا، فَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ قَطُّ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهَا، حَتَّى طَعَنَ بِيَدِهِ أَوْ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، أَوْ جَنْبِي، وَقَالَ:" يَا عُمَرُ تَكْفِيكَ الْآيَةُ الَّتِي نَزَلَتْ فِي الصَّيْفِ، الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ"، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا قَضِيَّةً لَا يَخْتَلِفُ فِيهَا أَحَدٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، أَوْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ. ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أُشْهِدُكَ عَلَى أُمَرَاءِ الْأَمْصَارِ، فَإِنِّي بَعَثْتُهُمْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ دِينَهُمْ، وَسُنَّةَ نَبِيِّهِمْ، وَيَقْسِمُونَ فِيهِمْ فَيْئَهُمْ، وَيُعَدِّلُونَ عَلَيْهِمْ، وَمَا أَشْكَلَ عَلَيْهِمْ يَرْفَعُونَهُ إِلَيَّ". ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ مِنْ شَجَرَتَيْنِ لَا أُرَاهُمَا إِلَّا خَبِيثَتَيْنِ، هَذَا الثُّومُ وَالْبَصَلُ، لَقَدْ كُنْتُ أَرَى الرَّجُلَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجَدُ رِيحُهُ مِنْهُ، فَيُؤْخَذُ بِيَدِهِ حَتَّى يُخْرَجَ بِهِ إِلَى الْبَقِيعِ، فَمَنْ كَانَ آكِلَهُمَا لَا بُدَّ، فَلْيُمِتْهُمَا طَبْخًا، قَالَ: فَخَطَبَ بِهَا عُمَرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَأُصِيبَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ، لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ کے لئے تشریف لائے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یاد تازہ کی، پھر فرمانے لگے کہ میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میری دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آ گیا ہے، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مرغے نے مجھے دو مرتبہ ٹھونگ ماری ہے۔ پھر فرمایا کہ لوگ مجھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنا خلیفہ مقرر کر دوں، اتنی بات تو طے ہے کہ اللہ اپنے دین کو نہ ضائع کرے گا اور نہ ہی اس خلافت کو جس کے ساتھ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا تھا، اب اگر میرا فیصلہ جلد ہو گیا تو میں مجلس شوری ان چھ افراد کی مقرر کر رہا ہوں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بوقت رحلت راضی ہو کر تشریف لے گئے تھے، جب تم ان میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو، تو ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ مسئلہ خلافت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں گے، بخدا! میں اپنے ان ہاتھوں سے اسلام کی مدافعت میں ان لوگوں سے قتال کر چکا ہوں، یہ لوگ دشمنان خدا، کافر اور گمراہ ہیں، اللہ کی قسم! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے بعد مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کسی مسئلہ میں آپ مجھ سے ناراض ہوئے ہوں، سوائے کلالہ کے مسئلہ کے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ انتہائی سخت ناراض ہوئے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھ کر فرمایا کہ تمہارے لئے اس مسئلے میں سورت نساء کی آخری آیت، جو گرمی میں نازل ہوئی تھی کافی ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو اس مسئلے کا ایساحل نکال کر جاؤں گا کہ اس آیت کو پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے سب ہی کے علم میں وہ حل آ جائے اور میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے مختلف شہروں میں امراء اور گورنر بھیجے ہیں وہ صرف اس لئے کہ وہ لوگوں کو دین سکھائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں لوگوں کے سامنے بیان کریں، ان میں مال غنیمت تقسیم کریں، ان میں انصاف کریں اور میرے سامنے ان کے وہ مسائل پیش کریں جن کا ان کے پاس کوئی حل نہ ہو۔ پھر فرمایا: لوگو! تم دو درختوں میں سے کھاتے ہو جنہیں میں گندہ سمجھتا ہوں (ایک لہسن اور دوسرا پیاز، جنہیں کچا کھانے سے منہ میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے)۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص کے منہ سے اس کی بدبو آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور یہی نہیں بلکہ اس کو جنت البقیع تک پہنچا کر لوگ واپس آتے تھے، اگر کوئی شخص انہیں کھانا ہی چاہتا ہے تو پکا کر ان کی بو مار دے۔ راوی کہتے ہیں کہ جمعہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا: اور ٢٦ ذی الحجہ بروز بدھ کو آپ پر قاتلانہ حملہ ہو گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سعيد بن أبى عروبة اختلط ، وقد توبع، م: 567
سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرچہ حج تمتع نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ پیلو کے درخرت کے نیچے رات گزاریں اور صبح کو اٹھ کر حج کی نیت کر لیں۔
حكم دارالسلام: صحيح، م: 1222، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن، ويأتي بإسناد صحيح من طريق شعبة برقم: 351
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدث کے بعد وضو کرتے ہوئے دیکھا، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وعاصم بن عبيد الله
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سماك ، قال: سمعت عياضا الاشعري ، قال: شهدت اليرموك، وعلينا خمسة امراء: ابو عبيدة بن الجراح، ويزيد بن ابي سفيان، وابن حسنة، وخالد بن الوليد، وعياض، وليس عياض هذا بالذي حدث سماكا، قال: وقال عمر " إذا كان قتال، فعليكم ابو عبيدة، قال: فكتبنا إليه: إنه قد جاش إلينا الموت، واستمددناه، فكتب إلينا: إنه قد جاءني كتابكم تستمدوني، وإني ادلكم على من هو اعز نصرا واحضر جندا، الله عز وجل، فاستنصروه، فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد نصر يوم بدر في اقل من عدتكم، فإذا اتاكم كتابي هذا، فقاتلوهم ولا تراجعوني"، قال: فقاتلناهم فهزمناهم، وقتلناهم اربع فراسخ، قال: واصبنا اموالا، فتشاوروا، فاشار علينا عياض ان نعطي عن كل راس عشرة، قال: وقال ابو عبيدة: من يراهني؟ فقال شاب: انا إن لم تغضب، قال: فسبقه، فرايت عقيصتي ابي عبيدة تنقزان وهو خلفه على فرس عربي.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عِيَاضًا الْأَشْعَرِيَّ ، قَالَ: شَهِدْتُ الْيَرْمُوكَ، وَعَلَيْنَا خَمْسَةُ أُمَرَاءَ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، وَابْنُ حَسَنَةَ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَعِيَاضٌ، وَلَيْسَ عِيَاضٌ هَذَا بِالَّذِي حَدَّثَ سِمَاكًا، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ " إِذَا كَانَ قِتَالٌ، فَعَلَيْكُمْ أَبُو عُبَيْدَةَ، قَالَ: فَكَتَبْنَا إِلَيْهِ: إِنَّهُ قَدْ جَاشَ إِلَيْنَا الْمَوْتُ، وَاسْتَمْدَدْنَاهُ، فَكَتَبَ إِلَيْنَا: إِنَّهُ قَدْ جَاءَنِي كِتَابُكُمْ تَسْتَمِدُّونِي، وَإِنِّي أَدُلُّكُمْ عَلَى مَنْ هُوَ أَعَزُّ نَصْرًا وَأَحْضَرُ جُنْدًا، اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَاسْتَنْصِرُوهُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نُصِرَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي أَقَلَّ مِنْ عِدَّتِكُمْ، فَإِذَا أَتَاكُمْ كِتَابِي هَذَا، فَقَاتِلُوهُمْ وَلَا تُرَاجِعُونِي"، قَالَ: فَقَاتَلْنَاهُمْ فَهَزَمْنَاهُمْ، وَقَتَلْنَاهُمْ أَرْبَعَ فَرَاسِخَ، قَالَ: وَأَصَبْنَا أَمْوَالًا، فَتَشَاوَرُوا، فَأَشَارَ عَلَيْنَا عِيَاضٌ أَنْ نُعْطِيَ عَنْ كُلِّ رَأْسٍ عَشْرَةً، قَالَ: وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ: مَنْ يُرَاهِنِّي؟ فَقَالَ شَابٌّ: أَنَا إِنْ لَمْ تَغْضَبْ، قَالَ: فَسَبَقَهُ، فَرَأَيْتُ عَقِيصَتَيْ أَبِي عُبَيْدَةَ تَنْقُزَانِ وَهُوَ خَلْفَهُ عَلَى فَرَسٍ عَرَبِيٍّ.
سیدنا عیاض اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں غزوہ یرموک میں موجود تھا، ہم پر پانچ امراء مقرر تھے، ابوعبیدہ بن الجراح، یزید بن ابی سفیان، ابن حسنہ، خالد بن ولید، عیاض بن غنم (یاد رہے کہ اس سے مراد خود راوی حدیث نہیں ہیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرما رکھا تھا کہ جب جنگ شروع ہو تو تمہارے سردار سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ ہوں گے، راوی کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مراسلہ میں لکھ کر بھیجا کہ موت ہماری طرف اچھل اچھل کر آ رہی ہے، ہمارے لئے کمک روانہ کیجئے، انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ میرے پاس تمہارا خط پہنچا جس میں تم نے مجھ سے امداد کی درخواست کی ہے، میں تمہیں ایسی ہستی کا پتہ بتاتا ہوں جس کی نصرت سب سے زیادہ مضبوط اور جس کے لشکر سب سے زیادہ حاضر باش ہوتے ہیں، وہ ہستی اللہ تبارک وتعالیٰ ہیں، ان ہی سے مدد مانگو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت غزوہ بدر کے موقع پر بھی کی گئی تھی جبکہ وہ تعداد میں تم سے بہت تھوڑے تھے، اس لئے جب تمہارے پاس میرا یہ خط پہنچے تو ان سے قتال شروع کر دو اور مجھ سے بار بار امداد کے لئے مت کہو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر ہم نے قتال شروع کیا تو مشرکین کو شرمناک ہزیمت سے دوچار کیا اور چار فرسخ تک انہیں قتل کرتے چلے گئے اور ہمیں مال غنیمت بھی حاصل ہوا، اس کے بعد مجاہدین نے باہم مشورہ کیا، سیدنا عیاض رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ہر مجاہد کو فی کس دس درہم دیئے جائیں، سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: میرے ساتھ اس کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ ایک نوجوان بولا: اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں کروں گا، یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا، میں نے سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے بالوں کی چوٹیوں کو دیکھا کہ وہ ہوا میں لہرا رہی تھیں اور وہ نوجوان ان کے پیچھے ایک عربی گھوڑے پر بیٹھا ہوا تھا۔
علی بن زید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، اس وقت میں نے ریشمی جبہ زیب تن کر رکھا تھا، سیدنا سالم رحمہ اللہ نے مجھ سے فرمایا کہ تم ان کپڑوں کا کیا کرو گے؟ میں نے اپنے والد کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ریشم وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد ابن جدعان، خ : 5835، م: 2069
(حديث مرفوع) حدثنا ابو المنذر اسد بن عمرو ، اراه عن حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قتل رجل ابنه عمدا، فرفع إلى عمر بن الخطاب ، فجعل عليه مائة من الإبل: ثلاثين حقة، وثلاثين جذعة، واربعين ثنية، وقال: لا يرث القاتل، ولولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يقتل والد بولده" لقتلتك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُنْذِرِ أَسَدُ بْنُ عَمْرٍو ، أُرَاهُ عَنِ حَجَّاجٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَتَلَ رَجُلٌ ابْنَهُ عَمْدًا، فَرُفِعَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ: ثَلَاثِينَ حِقَّةً، وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً، وَقَالَ: لَا يَرِثُ الْقَاتِلُ، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا يُقْتَلُ وَالِدٌ بِوَلَدِهِ" لَقَتَلْتُكَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنے بیٹے کو جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر مار ڈالا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں اور فرمایا: قاتل وارث نہیں ہوتا اور اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ کو بیٹے کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، حجاج بن أرطاة مدلس، وقد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، ويزيد ، عن يحيى بن سعيد ، عن عمرو بن شعيب ، قال: قال عمر : لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليس لقاتل شيء" لورثتك، قال: ودعا خال المقتول، فاعطاه الإبل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، وَيَزِيدُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ" لَوَرَّثْتُكَ، قَالَ: وَدَعَا خَالَ الْمَقْتُولِ، فَأَعْطَاهُ الْإِبِلَ.
ایک دوسری سند سے اسی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عمرو بن شيعب لم يدرك عمر
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عبد الله بن ابي نجيح ، وعمرو بن شعيب ، كلاهما، عن مجاهد بن جبر ، فذكر الحديث، وقال: اخذ عمر من الإبل ثلاثين حقة، وثلاثين جذعة، واربعين ثنية إلى بازل عامها، كلها خلفة، قال: ثم دعا اخا المقتول، فاعطاها إياه دون ابيه، وقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ليس لقاتل شيء".حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، وَعَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ جَبْرٍ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: أَخَذَ عُمَرُ مِنَ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً، وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعِينَ ثَنِيَّةً إِلَى بَازِلِ عَامِهَا، كُلُّهَا خَلِفَةٌ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا أَخَا الْمَقْتُولِ، فَأَعْطَاهَا إِيَّاهُ دُونَ أَبِيهِ، وَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ".
مجاہد سے گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر سو اونٹ دیت واجب قرار دی، تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس ثنیے، یعنی جو دوسرے سال میں لگے ہوں، اور سب کے سب حاملہ ہوں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مقتول کے بھائی کو بلایا اور دیت کے وہ اونٹ اس کے حوالے کر دئیے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قاتل کو کچھ نہیں ملے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مجاهد بن جبر لم يدرك عمر، وانظر ما قبله
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن عكرمة بن خالد ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: جاء العباس، وعلي إلى عمر يختصمان، فقال العباس: اقض بيني وبين هذا الكذا كذا، فقال الناس: افصل بينهما، افصل بينهما، قال: لا افصل بينهما، قد علما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لا نورث، ما تركنا صدقة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: جاء العباس، وَعَلِيٌّ إلى عمر يختصمان، فقال العباس: اقض بيني وبين هذا الكذا كذا، فقال الناس: افصل بينهما، افصل بينهما، قَالَ: لَا أَفْصِلُ بَيْنَهُمَا، قَدْ عَلِمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ".
مالک بن اوس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اپنا جھگڑا لے کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کرانے آئے، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور ان کے درمیان فلاں فلاں چیز کا فیصلہ کر دیجئے، لوگوں نے بھی کہا کہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیجئے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ان دونوں کے درمیان کوئی فیصلہ نہیں کروں گا کیونکہ یہ دونوں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ہمارے مال میں وراثت جاری نہیں ہوتی، ہم جو چھوڑ جاتے ہیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے۔“