(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب ، حدثنا يحيى ، عن عمران بن حطان فيما يحسب حرب: انه سال ابن عباس عن لبوس الحرير، فقال: سل عنه عائشة، فسال عائشة فقالت: سل ابن عمر، فسال ابن عمر، فقال: حدثني ابو حفص ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من لبس الحرير في الدنيا، فلا خلاق له في الآخرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ فِيمَا يَحْسِبُ حَرْبٌ: أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ لَبُوسِ الْحَرِيرِ، فَقَالَ: سَلْ عَنْهُ عَائِشَةَ، فَسَأَلَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: سَلْ ابْنَ عُمَرَ، فَسَأَلَ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَفْصٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ لَبِسَ الْحَرِيرَ فِي الدُّنْيَا، فَلَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ".
عمران بن حطان نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ریشمی لباس کی بابت سوال کیا، انہوں نے کہا کہ اس کا جواب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھو، عمران نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھو، انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد محترم کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يحيى بن حماد ، وعفان ، قالا: حدثنا ابو عوانة ، عن داود بن عبد الله الاودي ، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري ، حدثنا ابن عباس بالبصرة، قال: انا اول من اتى عمر حين طعن، فقال:" احفظ عني ثلاثا، فإني اخاف ان لا يدركني الناس: اما انا فلم اقض في الكلالة قضاء، ولم استخلف على الناس خليفة، وكل مملوك له عتيق، فقال له الناس: استخلف، فقال: اي ذلك افعل فقد فعله من هو خير مني، إن ادع إلى الناس امرهم، فقد تركه نبي الله عليه الصلاة والسلام، وإن استخلف، فقد استخلف من هو خير مني: ابو بكر، فقلت له: ابشر بالجنة، صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاطلت صحبته، ووليت امر المؤمنين فقويت، واديت الامانة، فقال: اما تبشيرك إياي بالجنة، فوالله لو ان لي، قال عفان: فلا والله الذي لا إله إلا هو، لو ان لي الدنيا بما فيها، لافتديت به من هول ما امامي قبل ان اعلم الخبر، واما قولك في امر المؤمنين، فوالله لوددت ان ذلك كفافا، لا لي ولا علي، واما ما ذكرت من صحبة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ بِالْبَصْرَةِ، قَالَ: أَنَا أَوَّلُ مَنْ أَتَى عُمَرَ حِينَ طُعِنَ، فَقَالَ:" احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ لَا يُدْرِكَنِي النَّاسُ: أَمَّا أَنَا فَلَمْ أَقْضِ فِي الْكَلَالَةِ قَضَاءً، وَلَمْ أَسْتَخْلِفْ عَلَى النَّاسِ خَلِيفَةً، وَكُلُّ مَمْلُوكٍ لَهُ عَتِيقٌ، فَقَالَ لَهُ النَّاسُ: اسْتَخْلِفْ، فَقَالَ: أَيَّ ذَلِكَ أَفْعَلُ فَقَدْ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، إِنْ أَدَعْ إِلَى النَّاسِ أَمْرَهُمْ، فَقَدْ تَرَكَهُ نَبِيُّ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، وَإِنْ أَسْتَخْلِفْ، فَقَدْ اسْتَخْلَفَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي: أَبُو بَكْرٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّةِ، صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَطَلْتَ صُحْبَتَهُ، وَوُلِّيتَ أَمْرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَوِيتَ، وَأَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ، فَقَالَ: أَمَّا تَبْشِيرُكَ إِيَّايَ بِالْجَنَّةِ، فَوَاللَّهِ لَوْ أَنَّ لِي، قَالَ عَفَّانُ: فَلَا وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَوْ أَنَّ لِي الدُّنْيَا بِمَا فِيهَا، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ هَوْلِ مَا أَمَامِي قَبْلَ أَنْ أَعْلَمَ الْخَبَرَ، وَأَمَّا قَوْلُكَ فِي أَمْرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَوَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافًا، لَا لِي وَلَا عَلَيَّ، وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَلِكَ".
حمید بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بصرہ میں ہمیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سنائی کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوئے تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے والا میں ہی تھا، انہوں نے فرمایا کہ میری تین باتیں یاد رکھو، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ لوگ جب تک آئیں گے اس وقت تک میں نہیں بچوں گا اور لوگ مجھے نہ پا سکیں گے، کلالہ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا، لوگوں پر اپنا نائب اور خلیفہ کسی کو نامزد نہیں کرتا اور میرا ہر غلام آزاد ہے۔ لوگوں نے ان سے عرض کیا کہ امیر المؤمنین! کسی کو اپنا خلفیہ نامزد کر دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ میں جس پہلو کو بھی اختیار کروں، اسے مجھ سے بہتر ذات نے اختیار کیا ہے، چنانچہ اگر میں لوگوں کا معاملہ ان ہی کے حوالے کر دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا اور اگر کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دوں تو مجھ سے بہتر ذات نے بھی اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا یعنی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو، آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا اور طویل موقع ملا، اس کے بعد آپ کو امیر المؤمنین بنایا گیا تو آپ نے اپنے مضبوط ہونے کا ثبوت پیش کیا اور امانت کو ادا کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ تم نے مجھے جنت کی جو بشارت دی ہے، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس دنیا ومافیہا کی نعمتیں اور خزانے ہوتے تو اصل صورت حال واضح ہونے سے پہلے اپنے سامنے پیش آنے والے ہولناک واقعات و مناظر کے فدئیے میں دے دیتا اور مسلمانوں پر خلافت کا جو تم نے ذکر کیا ہے تو بخدا! میری تمنا ہے کہ برابر سرابر چھوٹ جاؤں، نہ میرا کوئی فائدہ ہو اور نہ مجھ پر کوئی وبال ہو، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کا جو تم نے ذکر کیا ہے، وہ صحیح ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن عبد الرحمن بن عياش ، عن حكيم بن حكيم ، عن ابي امامة بن سهل ، قال: كتب عمر إلى ابي عبيدة بن الجراح: ان علموا غلمانكم العوم، ومقاتلتكم الرمي، فكانوا يختلفون إلى الاغراض، فجاء سهم غرب إلى غلام، فقتله، فلم يوجد له اصل، وكان في حجر خال له، فكتب فيه ابو عبيدة إلى عمر: إلى من ادفع عقله، فكتب إليه عمر : إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول:" الله ورسوله مولى من لا مولى له، والخال وارث من لا وارث له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ ، قَالَ: كَتَبَ عُمَرُ إِلَى أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ: أَنْ عَلِّمُوا غِلْمَانَكُمْ الْعَوْمَ، وَمُقَاتِلَتَكُمْ الرَّمْيَ، فَكَانُوا يَخْتَلِفُونَ إِلَى الْأَغْرَاضِ، فَجَاءَ سَهْمٌ غَرْبٌ إِلَى غُلَامٍ، فَقَتَلَهُ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ أَصْلٌ، وَكَانَ فِي حَجْرِ خَالٍ لَهُ، فَكَتَبَ فِيهِ أَبُو عُبَيْدَةَ إِلَى عُمَرَ: إِلَى مَنْ أَدْفَعُ عَقْلَهُ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں لکھا کہ اپنے لڑکوں کو تیرنا اور اپنے جنگجوؤں کو تیر اندازی کرنا سکھاؤ، چنانچہ مختلف چیزوں کو نشانہ بنا کر تیر اندازی سیکھنے لگے، اسی تناظر میں ایک بچے کو نامعلوم تیر لگا، جس سے وہ جاں بحق ہو گیا، اس کا صرف ایک ہی وارث تھا اور وہ تھا اس کا ماموں، سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں خط لکھا، انہوں نے جواباً لکھ بھیجا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس کا کوئی مولیٰ نہ ہو، اللہ و رسول اس کے مولیٰ ہیں اور جس کا کوئی وارث نہ ہو، ماموں ہی اس کا وارث ہو گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مال کی وراثت اسی کو ملے گی جسے ولاء ملے گی خواہ وہ باپ ہو یا بیٹا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عابس بن ربيعة ، قال: رايت عمر اتى الحجر، فقال:" اما والله إني لاعلم انك حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا اني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلك، ما قبلتك"، ثم دنا فقبله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ أَتَى الْحَجَرَ، فَقَالَ:" أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ، مَا قَبَّلْتُكَ"، ثُمَّ دَنَا فَقَبَّلَهُ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کے قریب آئے اور اس سے مخاطب ہو کر فرمایا: بخدا! میں جانتا ہوں کہ تو محض ایک پتھر ہے جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا، یہ کہہ کر آپ نے اسے قریب ہو کر بوسہ دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا دجين ابو الغصن بصري ، قال: قدمت المدينة فلقيت اسلم مولى عمر بن الخطاب، فقلت: حدثني عن عمر، فقال: لا استطيع، اخاف ان ازيد او انقص، كنا إذا قلنا لعمر : حدثنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: اخاف ان ازيد حرفا، او انقص، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من كذب علي، فهو في النار".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا دُجَيْنٌ أَبُو الْغُصْنِ بَصْرِيٌّ ، قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أَسْلَمَ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقُلْتُ: حَدِّثْنِي عَنْ عُمَرَ، فَقَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ أَوْ أَنْقُصَ، كُنَّا إِذَا قُلْنَا لِعُمَرَ : حَدِّثْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَخَافُ أَنْ أَزِيدَ حَرْفًا، أَوْ أَنْقُصَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ، فَهُوَ فِي النَّارِ".
دجین جن کی کنیت ابوالغصن تھی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ آیا، وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام اسلم سے ملاقات ہوئی، میں نے ان سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی حدیث سنانے کی فرمائش کی، انہوں نے معذرت کی اور فرمایا کہ مجھے کمی بیشی کا اندیشہ ہے، ہم بھی جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث سنائیے تو وہ یہی جواب دیتے تھے کہ مجھے اندیشہ کہ کہیں کچھ کمی بیشی نہ ہو جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص میری طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب کرتا ہے وہ جہنم میں ہو گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف دجين بن ثابت، ومتن الحديث متواتر
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا حماد بن زيد ، عن عمرو بن دينار مولى آل الزبير، عن سالم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال في سوق: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، بيده الخير، يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، كتب الله له بها الف الف حسنة، ومحا عنه بها الف الف سيئة، وبنى له بيتا في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ فِي سُوقٍ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ، وَمَحَا عَنْهُ بِهَا أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ، وَبَنَى لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص بازار میں یہ کلمات کہہ لے، «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ» اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہی بھی اسی کی ہے اور تمام تعریفات بھی اسی کی ہیں ہر طرح کی خیر اسی کے دست قدرت میں ہے، وہی زندگی اور موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا، دس لاکھ گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے لئے محل بنائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير منكر الحديث
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني ابو زميل ، حدثني ابن عباس ، حدثني عمر بن الخطاب ، قال: لما كان يوم خيبر، اقبل نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقولون: فلان شهيد، وفلان شهيد، حتى مروا برجل، فقالوا: فلان شهيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كلا، إني رايته يجر إلى النار في عباءة غلها، اخرج يا عمر فناد في الناس: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون"، فخرجت، فناديت: إنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ، أَقْبَلَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ: فُلَانٌ شَهِيدٌ، وَفُلَانٌ شَهِيدٌ، حَتَّى مَرُّوا بِرَجُلٍ، فَقَالُوا: فُلَانٌ شَهِيدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلَّا، إِنِّي رَأَيْتُهُ يُجَرُّ إِلَى النَّارِ فِي عَبَاءَةٍ غَلَّهَا، اخْرُجْ يَا عُمَرُ فَنَادِ فِي النَّاسِ: إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ"، فَخَرَجْتُ، فَنَادَيْتُ: إِنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا الْمُؤْمِنُونَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ سامنے سے آتے ہوئے دکھائی دیئے جو یہ کہہ رہے تھے کہ فلاں بھی شہید ہے، فلاں بھی شہید ہے، یہاں تک کہ ان کا گزر ایک آدمی پر ہوا، اس کے بارے بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ بھی شہید ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں! میں نے اسے جہنم میں دیکھا ہے کیونکہ اس نے مال غنیمت میں سے ایک چادر چوری کی تھی“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن خطاب! جا کر لوگوں میں منادی کر دو کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے“، چنانچہ میں نکل کر یہ منادی کرنے لگا کہ جنت میں صرف مومنین ہی داخل ہوں گے۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی موقع پر اپنے باپ کی قسم کھائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم کھاتا ہے، وہ شرک کرتا ہے۔