(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر بن الخطاب ، قال: حملت على فرس في سبيل الله، فاضاعه صاحبه، فاردت ان ابتاعه، وظننت انه بائعه برخص، فقلت: حتى اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" لا تبتعه، وإن اعطاكه بدرهم، فإن الذي يعود في صدقته، كالكلب يعود في قيئه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، قَالَ: حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَأَضَاعَهُ صَاحِبُهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَهُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ، فَقُلْتُ: حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" لَا تَبْتَعْهُ، وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ، فَإِنَّ الَّذِي يَعُودُ فِي صَدَقَتِهِ، َكَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے فی سبیل اللہ کسی شخص کو سواری کے لئے گھوڑا دے دیا، اس نے اسے ضائع کر دیا، میں نے سوچا کہ اسے خرید لیتا ہوں، کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ اسے سستا فروخت کر دے گا، لیکن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت خریدو اگرچہ وہ تمہیں پیسوں کے بدلے دے کیونکہ صدقہ دے کر رجوع کرنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کتا قے کر کے اسے دوبارہ چاٹ لے۔
(حديث مرفوع) قرات على عبد الرحمن ، عن مالك ، عن ابن شهاب ، عن ابي عبيد مولى ابن ازهر، انه قال: شهدت العيد مع عمر بن الخطاب ، فجاء فصلى، ثم انصرف، فخطب الناس، فقال:" إن هذين يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما: يوم فطركم من صيامكم، والآخر: يوم تاكلون فيه من نسككم".(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَجَاءَ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ:" إِنَّ هَذَيْنِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَالْآخَرُ: يَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ".
ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عید کے موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے آ کر پہلے نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف منہ پھیر کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں کے روزے سے منع فرمایا ہے، عیدالفطر کے دن تو اس لئے کہ اس دن تمہارے روزے ختم ہوتے ہیں اور عیدالاضحی کے دن اس لئے کہ تم اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھا سکو۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن يحيى بن ابي إسحاق ، عن سالم بن عبد الله ، قال: كان عمر رجلا غيورا، فكان إذا خرج إلى الصلاة اتبعته عاتكة ابنة زيد، فكان يكره خروجها، ويكره منعها، وكان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا استاذنتكم نساؤكم إلى الصلاة، فلا تمنعوهن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ عُمَرُ رَجُلًا غَيُورًا، فَكَانَ إِذَا خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّبَعَتْهُ عَاتِكَةُ ابْنَةُ زَيْدٍ، فَكَانَ يَكْرَهُ خُرُوجَهَا، وَيَكْرَهُ مَنْعَهَا، وَكَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَتْكُمْ نِسَاؤُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَا تَمْنَعُوهُنَّ".
سیدنا سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بڑے غیور طبع آدمی تھے، جب وہ نماز کے لئے نکلتے تو ان کے پیچھے پیچھے عاتکہ بنت زید بھی چلی جاتیں، انہیں ان کا نکلنا بھی پسند نہ تھا اور روکنا بھی پسند نہ تھا اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ جب تمہاری عورتیں تم سے نماز کے لئے مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انہیں مت روکو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، سالم بن عبدالله بن عمر لم يدرك جده، و فى الباب عن ابن عمر عند البخاري : 865، ومسلم: 442
(حديث موقوف) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن زيد بن اسلم ، عن ابيه ، عن عمر ، قال:" لولا آخر المسلمين، ما فتحت قرية إلا قسمتها، كما قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ:" لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ، مَا فُتِحَتْ قَرْيَةٌ إِلَّا قَسَمْتُهَا، كَمَا قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر بعد میں آنے والے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی اور شہر بھی مفتوح ہوتا، میں اسے فاتحین کے درمیان تقسیم کر دیتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم فرما دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا سلمة بن علقمة ، عن محمد بن سيرين ، قال: نبئت , عن ابي العجفاء السلمي ، قال: سمعت عمر ، يقول: الا لا تغلوا صدق النساء، الا لا تغلوا صدق النساء، فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا، او تقوى عند الله، كان اولاكم بها النبي صلى الله عليه وسلم، ما اصدق رسول الله صلى الله عليه وسلم امراة من نسائه، ولا اصدقت امراة من بناته، اكثر من ثنتي عشرة اوقية، وإن الرجل ليبتلى بصدقة امراته، وقال مرة: وإن الرجل ليغلي بصدقة امراته، حتى تكون لها عداوة في نفسه، وحتى يقول: كلفت إليك علق القربة، قال: وكنت غلاما عربيا مولدا، لم ادر ما علق القربة. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال: واخرى تقولونها لمن قتل في مغازيكم، او مات: قتل فلان شهيدا، ومات فلان شهيدا، ولعله ان يكون قد اوقر عجز دابته، او دف راحلته ذهبا، او ورقا يلتمس التجارة، لا تقولوا ذاكم، ولكن قولوا كما قال النبي، او كما قال محمد صلى الله عليه وسلم:" من قتل او مات في سبيل الله فهو في الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: نُبِّئْتُ , عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ السُّلَمِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ ، يَقُولُ: أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ، فَإِنَّهَا لَوْ كَانَتْ مَكْرُمَةً فِي الدُّنْيَا، أَوْ تَقْوَى عِنْدَ اللَّهِ، كَانَ أَوْلَاكُمْ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَصْدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ، وَلَا أُصْدِقَتْ امْرَأَةٌ مِنْ بَنَاتِهِ، أَكْثَرَ مِنْ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَّةً، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُبْتَلَى بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ، وَقَالَ مَرَّةً: وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُغْلِي بِصَدُقَةِ امْرَأَتِهِ، حَتَّى تَكُونَ لَهَا عَدَاوَةٌ فِي نَفْسِهِ، وَحَتَّى يَقُولَ: كَلِفْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ، قَالَ: وَكُنْتُ غُلَامًا عَرَبِيًّا مُوَلَّدًا، لَمْ أَدْرِ مَا عَلَقُ الْقِرْبَةِ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ: وَأُخْرَى تَقُولُونَهَا لِمَنْ قُتِلَ فِي مَغَازِيكُمْ، أَوَ مَاتَ: قُتِلَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَمَاتَ فُلَانٌ شَهِيدًا، وَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ قَدْ أَوْقَرَ عَجُزَ دَابَّتِهِ، أَوْ دَفَّ رَاحِلَتِهِ ذَهَبًا، أَوْ وَرِقًا يَلْتَمِسُ التِّجَارَةَ، لَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، وَلَكِنْ قُولُوا كَمَا قَالَ النَّبِيُّ، أَوْ كَمَا قَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قُتِلَ أَوْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ فِي الْجَنَّةِ".
ابوالعجفاء سلمی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو تکرار کے ساتھ یہ بات دہراتے ہوئے سنا کہ لوگو! اپنی بیویوں کے مہر زیادہ مت باندھا کرو، کیونکہ اگر یہ چیز دنیا میں باعث عزت ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ میں شمار ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ حقدار نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی یا بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا اور انسان اپنی بیوی کے حق مہر سے ہی آزمائش میں مبتلا ہوتا ہے، جو بعد میں اس کے لئے خود اپنی ذات سے دشمنی ثابت ہوتی ہے اور انسان یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ میں تو تمہارے پاس مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی تک لانے پر مجبور ہو گیا ہوں۔ ابوالعجفاء (جو کہ راوی ہیں) کہتے ہیں کہ میں چونکہ عرب کے ان غلاموں میں سے تھا جنہیں ”مولدین“ کہا جاتا ہے اس لئے مجھے اس وقت تک ”علق القربۃ“(مشکیزہ کا منہ باندھنے والی رسی) کا معنی معلوم نہیں تھا۔ پھر سیدنا رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص دوران جہاد مقتول ہو جائے یا طبعی طور پر فوت ہو جائے تو آپ لوگ یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی شہید ہو گیا، فلاں آدمی شہید ہو کر دنیا سے رخصت ہوا، حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس نے اپنی سواری کے پچھلے حصے میں یا کجاوے کے نیچے سونا چاندی چھپا رکھا ہو، جس سے وہ تجارت کا ارادہ رکھتا ہو، اس لئے تم کسی کے متعلق یقین کے ساتھ یہ مت کہو کہ وہ شہید ہے، البتہ یہ کہہ سکتے ہو کہ جو شخص اللہ کے راستہ میں مقتول یا فوت ہو جائے (وہ شہید ہے) اور جنت میں داخل ہو گا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ظاهر إسناده الانقطاع بين محمد بن سيرين وبين أبى العجفاء لكن قد وصل الإسناد بتصريح ابن سيرين بالسماع من أبى العجفاء عند المؤلف برقم: 340
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، انبانا الجريري سعيد ، عن ابي نضرة ، عن ابي فراس ، قال: خطب عمر بن الخطاب ، فقال:" يا ايها الناس، الا إنا إنما كنا نعرفكم إذ بين ظهرينا النبي صلى الله عليه وسلم، وإذ ينزل الوحي، وإذ ينبئنا الله من اخباركم، الا وإن النبي صلى الله عليه وسلم قد انطلق، وقد انقطع الوحي، وإنما نعرفكم بما نقول لكم، من اظهر منكم خيرا، ظننا به خيرا واحببناه عليه، ومن اظهر منكم لنا شرا، ظننا به شرا، وابغضناه عليه، سرائركم بينكم وبين ربكم، الا إنه قد اتى علي حين وانا احسب ان من قرا القرآن يريد الله وما عنده، فقد خيل إلي بآخرة، الا إن رجالا قد قرءوه يريدون به ما عند الناس، فاريدوا الله بقراءتكم، واريدوه باعمالكم، الا إني والله ما ارسل عمالي إليكم ليضربوا ابشاركم، ولا لياخذوا اموالكم، ولكن ارسلهم إليكم ليعلموكم دينكم وسنتكم، فمن فعل به شيء سوى ذلك، فليرفعه إلي، فوالذي نفسي بيده، إذن لاقصنه منه، فوثب عمرو بن العاص، فقال: يا امير المؤمنين، اورايت إن كان رجل من المسلمين على رعية، فادب بعض رعيته، ائنك لمقتصه منه؟ قال: إي والذي نفس عمر بيده، إذن لاقصنه منه، وقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقص من نفسه؟ الا لا تضربوا المسلمين فتذلوهم، ولا تجمروهم فتفتنوهم، ولا تمنعوهم حقوقهم فتكفروهم، ولا تنزلوهم الغياض فتضيعوهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَنْبَأَنَا الْجُرَيْرِيُّ سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّا إِنَّمَا كُنَّا نَعْرِفُكُمْ إِذْ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذْ يَنْزِلُ الْوَحْيُ، وَإِذْ يُنْبِئُنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ، أَلَا وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ انْطَلَقَ، وَقَدْ انْقَطَعَ الْوَحْيُ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُكُمْ بِمَا نَقُولُ لَكُمْ، مَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ خَيْرًا، ظَنَنَّا بِهِ خَيْرًا وَأَحْبَبْنَاهُ عَلَيْهِ، وَمَنْ أَظْهَرَ مِنْكُمْ لَنَا شَرًّا، ظَنَنَّا بِهِ شَرًّا، وَأَبْغَضْنَاهُ عَلَيْهِ، سَرَائِرُكُمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رَبِّكُمْ، أَلَا إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيَّ حِينٌ وَأَنَا أَحْسِبُ أَنَّ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ يُرِيدُ اللَّهَ وَمَا عِنْدَهُ، فَقَدْ خُيِّلَ إِلَيَّ بِآخِرَةٍ، أَلَا إِنَّ رِجَالًا قَدْ قَرَءُوهُ يُرِيدُونَ بِهِ مَا عِنْدَ النَّاسِ، فَأَرِيدُوا اللَّهَ بِقِرَاءَتِكُمْ، وَأَرِيدُوهُ بِأَعْمَالِكُمْ، أَلَا إِنِّي وَاللَّهِ مَا أُرْسِلُ عُمَّالِي إِلَيْكُمْ لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ، وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، وَلَكِنْ أُرْسِلُهُمْ إِلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ شَيْءٌ سِوَى ذَلِكَ، فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَوَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَعِيَّةٍ، فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ، أَئِنَّكَ لَمُقْتَصُّهُ مِنْهُ؟ قَالَ: إِي وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ، إِذَنْ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ؟ أَلَا لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ فَتُذِلُّوهُمْ، وَلَا تُجَمِّرُوهُمْ فَتَفْتِنُوهُمْ، وَلَا تَمْنَعُوهُمْ حُقُوقَهُمْ فَتُكَفِّرُوهُمْ، وَلَا تُنْزِلُوهُمْ الْغِيَاضَ فَتُضَيِّعُوهُمْ".
ابوفراس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! جب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود رہے، وحی نازل ہوتی رہی اور اللہ ہمیں تمہارے حالات سے مطلع کرتا رہا اس وقت تک تو ہم تمہیں پہچانتے تھے، اب چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے ہیں اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اب ہم تمہیں ان چیزوں سے پہچانیں گے جو ہم تمہیں کہیں گے۔ تم میں سے جو شخص خیر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان رکھیں گے اور اس سے محبت کریں گے اور جو شر ظاہر کرے گا ہم اس کے متعلق اچھا گمان نہیں رکھیں گے اور اس بناء پر اس سے نفرت کریں گے، تمہارے پوشیدہ راز تمہارے رب اور تمہارے درمیان ہوں گے۔ یاد رکھو! مجھ پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے کہ جس میں، میں سمجھتا ہوں جو شخص قرآن کریم کو اللہ اور اس کی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے پڑھتا ہے وہ میرے سامنے آخرت کا تخیل پیش کرتا ہے، یاد رکھو! بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو قرآن کریم کی تلاوت سے لوگوں کے مال و دولت کا حصول چاہتے ہیں، تم اپنی قرأت سے اللہ کو حاصل کرو اپنے اعمال کے ذریعے اللہ کو حاصل کرو اور یاد رکھو! میں نے تمہارے پاس اپنے مقرر کردہ گورنروں کو اس لئے نہیں بھیجا کہ وہ تمہاری چمڑی ادھیڑ دیں اور تمہارے مال و دولت پر قبضہ کر لیں، میں نے تو انہیں تمہارے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ وہ تمہیں تمہارا دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتیں سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے علاوہ کوئی اور معاملہ ہوا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اسے میرے سامنے پیش کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں اسے بدلہ ضرور لے کر دوں گا، یہ سن کر سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کود کر سامنے آئے اور کہنے لگے امیر المؤمنین! اگر کسی آدمی کو رعایا پر ذمہ دار بنایا جائے اور وہ رعایا کو ادب سکھانے کے لئے کوئی سزا دے دے، تو کیا آپ اس سے بھی قصاص لیں گے؟ فرمایا: ہاں! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے میں اس سے بھی قصاص لوں گا، میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف سے قصاص دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ یاد رکھو! مسلمانوں کو مار پیٹ کر ذلیل مت کرو، انہیں انگاروں پر مت رکھو کہ انہیں آزمائش میں مبتلا کر دو، ان سے ان کے حقوق مت روکو کہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کر دو اور انہیں غصہ مت دلاؤ کہ انہیں ضائع کر دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى فراس، وهو النهدي، والشطر الأول من الحديث فى البخاري: 2641 مختصراً
حدثنا إسماعيل مرة اخرى، اخبرنا سلمة بن علقمة، عن محمد بن سيرين، قال: نبئت عن ابي العجفاء، قال: سمعت عمر، يقول: الا لا تغلوا صدق النساء... فذكر الحديث. قال إسماعيل: وذكر ايوب، وهشام، وابن عون، عن محمد، عن ابي العجفاء، عن عمر نحوا من حديث سلمة، إلا انهم قالوا: لم يقل محمد: نبئت عن ابي العجفاء.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً أُخْرَى، أَخْبَرَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ: نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: أَلَا لَا تُغْلُوا صُدُقَ النِّسَاءِ... فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. قَالَ إِسْمَاعِيلُ: وَذَكَرَ أَيُّوبُ، وَهِشَامٌ، وَابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ، عَنْ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ حَدِيثِ سَلَمَةَ، إِلَّا أَنَّهُمْ قَالُوا: لَمْ يَقُلْ مُحَمَّدٌ: نُبِّئْتُ عَنْ أَبِي الْعَجْفَاءِ.
مہر زیادہ مقرر نہ کرنے والی روایت جو عنقریب گزری ایک دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: كنت عند عبد الله بن عمر، ونحن ننتظر جنازة ام ابان ابنة عثمان بن عفان، وعنده عمرو بن عثمان، فجاء ابن عباس يقوده قائده، قال: فاراه اخبره بمكان ابن عمر، فجاء حتى جلس إلى جنبي وكنت بينهما، فإذا صوت من الدار، فقال ابن عمر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن الميت يعذب ببكاء اهله عليه"، فارسلها عبد الله مرسلة، قال ابن عباس : كنا مع امير المؤمنين عمر، حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو برجل نازل في ظل شجرة، فقال لي: انطلق، فاعلم من ذاك، فانطلقت، فإذا هو صهيب، فرجعت إليه، فقلت: إنك امرتني ان اعلم لك من ذلك، وإنه صهيب، فقال: مروه فليلحق بنا، فقلت: إن معه اهله، قال: وإن كان معه اهله، وربما قال ايوب مرة: فليلحق بنا، فلما بلغنا المدينة لم يلبث امير المؤمنين ان اصيب، فجاء صهيب، فقال: وا اخاه، وا صاحباه، فقال عمر : الم تعلم، اولم تسمع ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببعض بكاء اهله عليه"؟ فاما عبد الله فارسلها مرسلة، واما عمر، فقال:" ببعض بكاء"، فاتيت عائشة فذكرت لها قول عمر، فقالت: لا والله، ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان الميت يعذب ببكاء احد، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الكافر ليزيده الله عز وجل ببكاء اهله عذابا"، وإن الله لهو اضحك وابكى، ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164. قال ايوب ابن ابي تميمة السختياني ، وقال ابن ابي مليكة: حدثني القاسم ، قال: لما بلغ عائشة قول عمر، وابن عمر، قالت: إنكم لتحدثوني عن غير كاذبين ولا مكذبين، ولكن السمع يخطئ.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ ابْنَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُودُهُ قَائِدُهُ، قَالَ: فَأُرَاهُ أَخْبَرَهُ بِمَكَانِ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي وَكُنْتُ بَيْنَهُمَا، فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"، فَأَرْسَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ مُرْسَلَةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : كُنَّا مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ لِي: انْطَلِقْ، فَاعْلَمْ مَنْ ذَاكَ، فَانْطَلَقْتُ، فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَمَرْتَنِي أَنْ أَعْلَمَ لَكَ مَنْ ذَلكَ، وَإِنَّهُ صُهَيْبٌ، فَقَالَ: مُرُوهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَقُلْتُ: إِنَّ مَعَهُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَإِنْ كَانَ مَعَهُ أَهْلُهُ، وَرُبَّمَا قَالَ أَيُّوبُ مَرَّةً: فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَلَمَّا بَلَغْنَا الْمَدِينَةَ لَمْ يَلْبَثْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أُصِيبَ، فَجَاءَ صُهَيْبٌ، فَقَالَ: وَا أَخَاهُ، وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عمر : أَلَمْ تَعْلَمْ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ"؟ فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَأَرْسَلَهَا مُرْسَلَةً، وَأَمَّا عُمَرُ، فَقَالَ:" بِبَعْضِ بُكَاءِ"، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ فَذَكَرْتُ لَهَا قَوْلَ عُمَرَ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْكَافِرَ لَيَزِيدُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَذَابًا"، وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164. قَالَ أَيُّوبُ ابْنِ أَبِي تَِميمَة السختياني ، وَقَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ عَائِشَةَ قَوْلُ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَتْ: إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ وَلَا مُكَذَّبَيْنِ، وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ.
سیدنا عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام ابان کے جنازے کے انتظار میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہاں عمرو بن عثمان بھی تھے، اتنی دیر میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کا رہنما لے آیا، شاید اسی نے انہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نشست کا بتایا، چنانچہ وہ میرے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے اور میں ان دونوں کے درمیان ہو گیا، اچانک گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میت کو اس کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اہل خانہ کو یہ حدیث کہلوا بھیجی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ ایک مرتبہ ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام بیداء میں پہنچے تو ان کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو کسی درخت کے سائے میں کھڑا تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا: جا کر خبر لاؤ کہ یہ آدمی کون ہے؟ میں گیا تو وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ تھے، میں نے واپس آ کر عرض کیا کہ آپ نے مجھے فلاں آدمی کے بارے معلوم کرنے کا حکم دیا تھا، وہ صہیب ہیں، فرمایا: انہیں ہمارے پاس آنے کے لئے کہو، میں نے عرض کیا: ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہیں، فرمایا: اگرچہ اہل خانہ ہوں تب بھی انہیں بلا کر لاؤ۔ خیر! مدینہ منورہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی امیر المؤمنین پر قاتلانہ حملہ ہوا، سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو وہ آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی کہنے لگے ہائے! میرے بھائی، ہائے میرے دوست، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس کے رشتہ داروں کے رونے دھونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی ذکر کیا، انہوں نے فرمایا: بخدا! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نہیں فرمائی تھی کہ میت کو کسی کے رونے دھونے سے عذاب ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کافر کے اہل خانہ کے رونے دھونے کی وجہ سے اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتا ہے، اصل ہنسانے اور رلانے والا تو اللہ ہے اور یہ بھی اصول ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے سیدنا قاسم رحمہ اللہ نے بتایا کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے صاحبزادے کا یہ قول معلوم ہوا تو فرمایا کہ تم لوگ جن سے حدیث روایت کر رہے ہو، نہ تو وہ جھوٹے تھے اور نہ ان کی تکذیب کی جا سکتی ہے، البتہ بعض اوقات انسان سے سننے میں غلطی ہو جاتی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، انبانا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ... فذكر معنى حديث ايوب، إلا انه قال: فقال ابن عمر لعمرو بن عثمان، وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه".حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ... فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ أَيُّوبَ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ".
ایک دوسری سند سے بھی یہ روایت مروی ہے البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرو بن عثمان سے جو ان کے سامنے ہی تھے فرمایا کہ آپ ان رونے والیوں کو رونے سے روکتے کیوں نہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت پر اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔