(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا ابان ، عن قتادة ، عن ابى العالية ، عن ابن عباس ، قال: شهد عندي رجال مرضيون فيهم عمر ، وارضاهم عندي عمر: ان نبي الله صلى الله عليه وسلم، كان يقول:" لا صلاة بعد صلاة العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد صلاة الصبح حتى تطلع الشمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِى الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ فيهُمْ عُمَرُ ، وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" لَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے ایسے لوگوں نے اس بات کی شہادت دی ہے ”جن کی بات قابل اعتماد ہوتی ہے، ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں جو میری نظروں میں ان میں سب سے زیادہ قابل اعتماد ہیں“ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے اور فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
(حديث موقوف) حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا صفوان ، حدثنا عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن الحارث بن معاوية الكندي : انه ركب إلى عمر بن الخطاب يساله عن ثلاث خلال، قال: فقدم المدينة، فساله عمر: ما اقدمك؟ قال: لاسالك عن ثلاث خلال، قال: وما هن؟ قال:" ربما كنت انا والمراة في بناء ضيق، فتحضر الصلاة، فإن صليت انا وهي، كانت بحذائي، وإن صلت خلفي، خرجت من البناء، فقال عمر : تستر بينك وبينها بثوب، ثم تصلي بحذائك إن شئت. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وعن الركعتين بعد العصر، فقال:" نهاني عنهما رسول الله صلى الله عليه وسلم". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قال: وعن القصص، فإنهم ارادوني على القصص، فقال: ما شئت، كانه كره ان يمنعه، قال:" إنما اردت ان انتهي إلى قولك، قال: اخشى عليك ان تقص فترتفع عليهم في نفسك، ثم تقص فترتفع، حتى يخيل إليك انك فوقهم بمنزلة الثريا، فيضعك الله تحت اقدامهم يوم القيامة بقدر ذلك".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُعَاوِيَةَ الْكِنْدِيِّ : أَنَّهُ رَكِبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَسَأَلَهُ عُمَرُ: مَا أَقْدَمَكَ؟ قَالَ: لِأَسْأَلَكَ عَنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ، قَالَ: وَمَا هُنَّ؟ قَالَ:" رُبَّمَا كُنْتُ أَنَا وَالْمَرْأَةُ فِي بِنَاءٍ ضَيِّقٍ، فَتَحْضُرُ الصَّلَاةُ، فَإِنْ صَلَّيْتُ أَنَا وَهِيَ، كَانَتْ بِحِذَائِي، وَإِنْ صَلَّتْ خَلْفِي، خَرَجَتْ مِنَ الْبِنَاءِ، فَقَالَ عُمَرُ : تَسْتُرُ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بِثَوْبٍ، ثُمَّ تُصَلِّي بِحِذَائِكَ إِنْ شِئْتَ. (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَعَنْ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَ:" نَهَانِي عَنْهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ". (حديث موقوف) (حديث موقوف) قَالَ: وَعَنِ الْقَصَصِ، فَإِنَّهُمْ أَرَادُونِي عَلَى الْقَصَصِ، فَقَالَ: مَا شِئْتَ، كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَمْنَعَهُ، قَالَ:" إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَنْتَهِيَ إِلَى قَوْلِكَ، قَالَ: أَخْشَى عَلَيْكَ أَنْ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ عَلَيْهِمْ فِي نَفْسِكَ، ثُمَّ تَقُصَّ فَتَرْتَفِعَ، حَتَّى يُخَيَّلَ إِلَيْكَ أَنَّكَ فَوْقَهُمْ بِمَنْزِلَةِ الثُّرَيَّا، فَيَضَعَكَ اللَّهُ تَحْتَ أَقْدَامِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ ذَلِكَ".
حارث بن معاویہ کندی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں تین سوال پوچھنے کے لئے سواری پر سفر کر کے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوا، جب میں مدینہ منورہ پہنچا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے عرض کیا کہ تین باتوں کے متعلق پوچھنے کے لئے حاضر ہوا ہوں، فرمایا: وہ تین باتیں کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات میں اور میری بیوی ایک تنگ کمرے میں ہوتے ہیں، نماز کا وقت آ جاتا ہے، اگر ہم دونوں وہاں نماز پڑھتے ہوں تو وہ میرے بالکل ساتھ ہوتی ہے اور اگر وہ میرے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اب کیا کیا جائے؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنے اور اپنی بیوی کے درمیان ایک کپڑا لٹکا لیا کرو، پھر اگر تم چاہو تو وہ تمہارے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔ پھر میں نے عصر کے بعد دو نفل پڑھنے کے حوالے سے پوچھا: تو فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، پھر میں نے ان سے وعظ گوئی کے حوالے سے پوچھا کہ لوگ مجھ سے وعظ کہنے کا مطالبہ کرتے ہیں؟ فرمایا کہ آپ کی مرضی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جواب سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ براہ راست منع کرنے کو اچھا نہیں سمجھ رہے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی بات کو حرفِ آخر سمجھوں گا، فرمایا: مجھے یہ اندیشہ ہے کہ اگر تم نے قصہ گوئی یا وعظ شروع کر دیا تو تم اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں اونچا سمجھنے لگو گے، حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم وعظ کہتے وقت اپنے آپ کو ثریا پر پہنچا ہوا سمجھنے لگو گے، جس کے نتیجے میں قیامت کے دن اللہ تمہیں اسی قدر ان کے قدموں کے نیچے ڈال دے گا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں کھانے سے روکتا ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس کی ممانعت کا حکم سنا ہے، میں نے اس طرح کی کوئی قسم نہیں اٹھائی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات برسبیل تذکرہ یا کسی سے نقل کر کے کہی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن إسحاق ، انبانا عبد الله يعني ابن المبارك ، انبانا محمد بن سوقة ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابن عمر : ان عمر بن الخطاب خطب الناس بالجابية، فقال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل مقامي فيكم، فقال:" استوصوا باصحابي خيرا، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يفشو الكذب حتى إن الرجل ليبتدئ بالشهادة قبل ان يسالها، فمن اراد منكم بحبحة الجنة، فليلزم الجماعة، فإن الشيطان مع الواحد، وهو من الاثنين ابعد، لا يخلون احدكم بامراة، فإن الشيطان ثالثهما، ومن سرته حسنته وساءته سيئته، فهو مؤمن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ النَّاسَ بِالْجَابِيَةِ، فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ مَقَامِي فِيكُمْ، فَقَالَ:" اسْتَوْصُوا بِأَصْحَابِي خَيْرًا، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِبُ حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَبْتَدِئُ بِالشَّهَادَةِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا، فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ بَحْبَحَةَ الْجَنَّةِ، فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ، وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، لَا يَخْلُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ ثَالِثُهُمَا، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ، فَهُوَ مُؤْمِنٌ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ دوران سفر ”جابیہ“ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح خطبہ ارشاد فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے جیسے میں کھڑا ہوا ہوں اور فرمایا کہ میں تمہیں اپنے صحابہ کے ساتھ بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، یہی حکم ان کے بعد والوں اور ان کے بعد والوں کا بھی ہے، اس کے بعد جھوٹ اتنا عام ہو جائے گا کہ گواہی کی درخواست سے قبل ہی آدمی گواہی دینے کے لئے تیار ہو جائے گا، سو تم میں سے جو شخص جنت کا ٹھکانہ چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ ”جماعت“ کو لازم پکڑے، کیونکہ اکیلے آدمی کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور ہوتا ہے، یاد رکھو! تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان دو کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے اور جس شخص کو اپنی نیکی سے خوشی اور برائی سے غم ہو، وہ مومن ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، قال: حدثنا زائدة ، حدثنا سماك ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال عمر : كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ركب، فقال رجل: لا وابي، فقال رجل:" لا تحلفوا بآبائكم"، فالتفت، فإذا هو رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَكْبٍ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَا وَأَبِي، فَقَالَ رَجُلٌ:" لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ"، فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا هُوَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھے، ایک آدمی نے قسم کھاتے ہوئے کہا: «لَاوَأَبِي» تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا: کہ اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسمیں مت کھایا کرو، میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، رواية سماك عن عكرمة فيها اضطراب، خ: 6647، م: 1646
(حديث مرفوع) حدثنا عصام بن خالد ، وابو اليمان ، قالا: اخبرنا شعيب بن ابي حمزة ، عن الزهري ، قال: حدثنا عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، ان ابا هريرة ، قال: لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان ابو بكر بعده، وكفر من كفر من العرب، قال عمر : يا ابا بكر، كيف تقاتل الناس، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قال: لا إله إلا الله، فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله تعالى"؟ قال ابو بكر: والله لاقاتلن، قال ابو اليمان: لاقتلن من فرق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عناقا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، لقاتلتهم على منعها. قال عمر: فوالله ما هو إلا ان رايت ان الله عز وجل قد شرح صدر ابي بكر للقتال، فعرفت انه الحق.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، وَأَبُو الْيَمَانِ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ : يَا أَبَا بَكْرٍ، كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى"؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ، قَالَ أَبُو الْيَمَانِ: لَأَقْتُلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ، وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا. قَالَ عُمَرُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے اور ان کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے اور اہل عرب میں سے جو کافر ہو سکتے تھے، سو ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کر سکتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ ”لا الہ الا اللہ“ نہ کہہ لیں، جو شخص ”لا الہ الا اللہ“ کہہ لے، اس نے جان اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا، ہاں! اگر اسلام کا کوئی حق ہو تو الگ بات ہے اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کرتے ہیں، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے، بخدا! اگر انہوں نے ایک بکری کا بچہ ”جو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے“ بھی روکا تو میں ان سے قتال کروں گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سمجھ گیا، اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس معاملے میں شرح صدر کی دولت عطاء فرما دی ہے اور میں سمجھ گیا کہ ان کی رائے ہی برحق ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نفلی نماز نہ پڑھی جائے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضيعف لانقطاعه، عمرو بن شعيب لم يدرك عبدالله بن عمرو بن العاص