وعن عثمان بن عفان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من غش العرب لم يدخل في شفاعتي ولم تنله مودتي» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث حصين بن عمر وليس هو عند اهل الحديث بذاك القوي وَعَن عُثْمَان بن عَفَّان قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ غَشَّ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حُصَيْنِ بْنِ عُمَرَ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدَ أهل الحَدِيث بِذَاكَ الْقوي
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عربوں کو فریب دیا تو وہ میری شفاعت میں داخل ہو گا نہ اسے میری مودّت نصیب ہو گی۔ “ ترمذی، اور انہوں نے فرمایا: یہ حدیث غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف حصین بن عمر کے طریق سے پہچانتے ہیں، اور وہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں۔ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه الترمذي (3928) ٭ حصين بن عمر: متروک.»
وعن ام حرير مولاة طلحة بن مالك قالت: سمعت مولاي يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من اقتراب الساعة هلاك العرب» رواه الترمذي وَعَن أم حَرِير مولاة طَلْحَة بن مَالك قَالَتْ: سَمِعْتُ مَوْلَايَ يَقُولَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُول: «مِنِ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ هَلَاكُ الْعَرَبِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
طلحہ بن مالک کی آزاد کردہ لونڈی ام الحریر بیان کرتی ہیں، میں نے اپنے مالک کو بیان کرتے ہوئے سنا، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی علامت ہے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3929) ٭ فيه أم محمد بن أبي رزين: لم أجد من وثقھا.»
وعن ابي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الملك في قريش والقضاء في الانصار والاذان في الحبشة والامانة في الازد» يعني اليمن. وفي رواية موقوفا. رواه الترمذي وقال: هذا اصح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمُلْكُ فِي قُرَيْشٍ وَالْقَضَاءُ فِي الْأَنْصَارِ وَالْأَذَانُ فِي الْحَبَشَةِ وَالْأَمَانَةُ فِي الْأَزْدِ» يَعْنِي الْيَمَنَ. وَفِي رِوَايَةٍ مَوْقُوفًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا أصح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”خلافت قریش میں ہے، قضاء انصار میں، اذان حبشیوں میں اور امانت ازد یعنی یمن میں ہے۔ “ یہ روایت موقوف ہے، امام ترمذی نے اسے روایت کیا، اور فرمایا: اس کا موقوف ہونا زیادہ صحیح ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3936)»
عن عبد الله بن مطيع عن ابيه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يوم فتح مكة: «لا يقتل قرشي صبرا بعد هذا اليوم إلى يوم القيامة» . رواه مسلم عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: «لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة» . رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن مطیع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، میں نے فتح مکہ کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اس روز کے بعد روز قیامت تک کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہ کیا جائے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (88/ 1782)»
وعن ابي نوفل معاوية بن مسلم قال: رايت عبد الله بن الزبير على عقبة المدينة قال فجعلت قريش تمر عليه والناس حتى مر عليه عبد الله بن عمر فوقف عليه فقال: السلام عليك ابا خبيب السلام عليك ابا خبيب السلام عليك ابا خبيب اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله لقد كنت انهاك عن هذا اما والله إن كنت ما علمت صواما قواما وصولا للرحم اما والله لامة انت شرها لامة سوء-وفي رواية لامة خير-ثم نفذ عبد الله بن عمر فبلغ الحجاج موقف عبد الله وقوله فارسل إليه فانزل عن جذعه فالقي في قبور اليهود ثم ارسل إلى امه اسماء بنت ابي بكر فابت ان تاتيه فاعاد عليها الرسول لتاتيني او لابعثن إليك من يسحبك بقرونك. قال: فابت وقالت: والله لا آتيك حتى تبعث إلي من يسحبني بقروني. قال: فقال: اروني سبتي فاخذ نعليه ثم انطلق يتوذف حتى دخل عليها فقال: كيف رايتني صنعت بعدو الله؟ قالت: رايتك افسدت عليه دنياه وافسد عليك آخرتك بلغني انك تقول له: يا ابن ذات النطاقين انا والله ذات النطاقين اما احدهما فكنت ارفع به طعام رسول الله صلى الله عليه وسلم وطعام ابي بكر من الدواب واما الآخر فنطاق المراة التي لا تستغني عنه اما ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا: «ان في ثقيف كذابا ومبيرا» . فاما الكذاب فرايناه واما المبير فلا إخالك إلا إياه. قال فقام عنها ولم يراجعها. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي نَوْفَلٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ عَلَى عَقَبَةِ الْمَدِينَةِ قَالَ فَجَعَلَتْ قُرَيْشٌ تَمُرُّ عَلَيْهِ وَالنَّاسُ حَتَّى مَرَّ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَوقف عَلَيْهِ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا خُبَيْبٍ أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ هَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنْ كُنْتَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا وَصُولًا لِلرَّحِمِ أَمَا وَاللَّهِ لَأُمَّةٌ أَنْتَ شَرُّهَا لَأُمَّةُ سَوْءٍ-وَفِي رِوَايَةٍ لَأُمَّةُ خَيْرٍ-ثُمَّ نَفَذَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ مَوْقِفُ عَبْدِ اللَّهِ وَقَوْلُهُ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأُنْزِلَ عَنْ جِذْعِهِ فَأُلْقِيَ فِي قُبُورِ الْيَهُودِ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى أُمِّهِ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَأَبَتْ أَنْ تَأْتِيَهُ فَأَعَادَ عَلَيْهَا الرَّسُولَ لَتَأْتِيَنِّي أَوْ لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْكِ مَنْ يَسْحَبُكِ بِقُرُونِكِ. قَالَ: فَأَبَتْ وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا آتِيكَ حَتَّى تَبْعَثَ إِلَيَّ من يسحبُني بقروني. قَالَ: فَقَالَ: أَرُونِي سِبْتِيَّ فَأَخَذَ نَعْلَيْهِ ثُمَّ انْطَلَقَ يَتَوَذَّفُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهَا فَقَالَ: كَيْفَ رَأَيْتِنِي صَنَعْتُ بِعَدُوِّ اللَّهِ؟ قَالَتْ: رَأَيْتُكَ أَفْسَدْتَ عَلَيْهِ دُنْيَاهُ وَأَفْسَدَ عَلَيْكَ آخِرَتَكَ بَلَغَنِي أَنَّكَ تَقُولُ لَهُ: يَا ابْنَ ذَاتِ النِّطَاقَيْنِ أَنَا وَاللَّهِ ذَاتُ النِّطَاقَيْنِ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكُنْتُ أَرْفَعُ بِهِ طَعَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَعَامَ أَبِي بَكْرٍ مِنَ الدَّوَابِّ وَأَمَّا الْآخَرُ فنطاق المرأةِ الَّتِي لَا تَسْتَغْنِي عَنهُ أما أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثنَا: «أَن فِي ثَقِيف كذابا ومبيرا» . فَأَما الْكَذَّابُ فَرَأَيْنَاهُ وَأَمَّا الْمُبِيرُ فَلَا إِخَالُكَ إِلَّا إِيَّاه. قَالَ فَقَامَ عَنْهَا وَلم يُرَاجِعهَا. رَوَاهُ مُسلم
ابو نوفل معاویہ بن مسلم بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو مدینے کی گھاٹی پر (سولی پر لٹکتے ہوئے) دیکھا، قریشی اور دوسرے لوگ ان کے پاس سے گزرتے رہے حتیٰ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے اور وہاں ٹھہر کر فرمایا: ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، ابو خبیب! تم پر سلام، اللہ کی قسم! کیا میں تمہیں اس (خلافت کے معاملے) سے منع نہیں کرتا تھا، اللہ کی قسم! کیا میں نے تمہیں اس سے منع نہیں کیا تھا؟ اللہ کی قسم! میں تمہیں بہت روزے رکھنے والا، بہت زیادہ قیام کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا ہی جانتا ہوں، سن لو! اللہ کی قسم! جو لوگ تجھے برا خیال کرتے ہیں حقیقت میں وہ خود برے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں ہے، (جو تمہیں برا سمجھتے ہیں کیا) وہ لوگ اچھے ہیں؟ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ چلے گئے، حجاج کو عبداللہ کا مؤقف اور ان کی بات پہنچی تو اس نے انہیں بلا بھیجا، ان (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ) کو سولی سے اتار دیا گیا اور انہیں یہودیوں کے قبرستان میں ڈال دیا گیا۔ پھر حجاج نے ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا تو انہوں نے آنے سے انکار کر دیا، پھر اس نے دوبارہ پیغام بھیجا کہ آپ آ جائیں ورنہ میں ایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہیں بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ لائے گا، راوی بیان کرتے ہیں، انہوں نے انکار کیا اور کہا، اللہ کی قسم! میں تیرے پاس نہیں آؤں گی حتیٰ کہ تو اس شخص کو میرے پاس بھیجے جو میرے بالوں سے پکڑ کر مجھے گھسیٹے، راوی بیان کرتے ہیں، حجاج نے کہا: میرے جوتے مجھے دو، اس نے اپنے جوتے پہنے اور تیز تیز چلتا ہوا ان تک پہنچ گیا، اور کہا: بتاؤ! اللہ کے دشمن کے ساتھ میں نے کیسا سلوک کیا؟ اسماء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں سمجھتی ہوں کہ تو نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کی دنیا خراب کی اور اس نے تیری آخرت برباد کر دی۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ تو (توہین کے انداز میں) اسے ذات النطاقین (دو ازار والی) کا بیٹا کہتا ہے، اللہ کی قسم! میں ذات النطاقین ہوں، ان (ازار بندوں) میں سے ایک کے ساتھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کھانے کو چوپایوں سے بچانے کے لیے، اور رہا دوسرا تو اس سے کوئی بھی عورت بے نیاز نہیں ہو سکتی، سن لو! کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں حدیث بیان فرمائی کہ ”ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ظالم ہو گا۔ “ رہا کذاب تو ہم اسے دیکھ چکے، اور رہا ظالم تو میرا خیال ہے کہ وہ تم ہی ہو۔ راوی بیان کرتے ہیں، وہ ان کے پاس سے چلا گیا اور پھر ان کے پاس دوبارہ نہیں آیا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (229/ 2545)»
وعن نافع عن ابن عمر اتاه رجلان في فتنة ابن الزبير فقالا: إن الناس صنعوا ما ترى وانت ابن عمر وصاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فما يمنعك ان تخرج؟ فقال: يمنعني ان الله حرم دم اخي المسلم. قالا: الم يقل الله: [وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة] فقال ابن عمر: قد قاتلنا حتى لم تكن فتنة وكان الدين لله وانتم تريدون ان تقاتلوا حتى تكون فتنة ويكون الدين لغير الله. رواه البخاري وَعَن نَافِع عَن ابْنَ عُمَرَ أَتَاهُ رَجُلَانِ فِي فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فَقَالَا: إِنَّ النَّاسَ صَنَعُوا مَا تَرَى وَأَنْتَ ابْنُ عُمَرَ وَصَاحِبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَخْرُجَ؟ فَقَالَ: يَمْنعنِي أنَّ اللَّهَ حرم دَمَ أَخِي الْمُسْلِمِ. قَالَا: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: [وقاتلوهم حَتَّى لَا تكونَ فتْنَة] فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَمْ تَكُنْ فِتْنَةٌ وَكَانَ الدِّينُ لِلَّهِ وَأَنْتُمْ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لغيرِ اللَّهِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
نافع ؒ سے روایت ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے فتنے سے پہلے دو آدمی ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا: لوگوں نے جو کچھ کیا آپ اسے دیکھ رہے ہیں اور آپ عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں، آپ کو نکلنے سے کون سی چیز مانع ہے؟ انہوں نے فرمایا: میرے لیے یہ چیز مانع تھی کہ اللہ نے مسلمان کو قتل کرنا مجھ پر حرام قرار دیا ہے، ان دونوں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ”ان سے قتال کرو حتیٰ کہ فتنہ ختم ہو جائے۔ “ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے قتال کیا حتیٰ کہ فتنہ (شرک) ختم ہو گیا اور دین خالص اللہ کے لیے ہو گیا، اور تم چاہتے ہو کہ تم لڑو حتیٰ کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر اللہ کے لیے ہو جائے۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4513)»
وعن ابي هريرة قال: جاء الطفيل بن عمرو الدوسي إلى رسول الله صلى الله عليه وسل فقال: إن دوسا قد هلكت عصت وابت فادع الله عليهم فظن الناس انه يدعو عليهم فقال: «اللهم اهد دوسا وات بهم» . متفق عليه وَعَن أبي هريرةَ قَالَ: جَاءَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ إِلَى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وسل فَقَالَ: إِنَّ دَوْسًا قَدْ هَلَكَتْ عَصَتْ وَأَبَتْ فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ يَدْعُو عَلَيْهِمْ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، طفیل بن عمرو دوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا: دوس قبیلہ ہلاک ہو گیا، اس نے نافرمانی کی اور انکار کیا، آپ ان کے لیے بددعا کریں، لوگوں نے سمجھا کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں گے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! دوس کو ہدایت نصیب فرما اور انہیں (مسلمان بنا کر) لے آ۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6397) و مسلم (197 / 2524)»
وعن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: احبوا العرب لثلاث: لاني عربي والقرآن عربي وكلام اهل الجنة عربي «. رواه البيهقي في» شعب الإيمان وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلَاثٍ: لِأَنِّي عَرَبِيٌّ وَالْقُرْآنُ عَرَبِيٌّ وَكَلَامُ أَهْلِ الْجَنَّةِ عربيٌّ «. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي» شعب الْإِيمَان
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”عربوں کے ساتھ تین خصلتوں کی وجہ سے محبت کرو، کیونکہ میں عربی ہوں، قرآن عربی (زبان میں) ہے اور اہل جنت کا کلام عربی میں ہو گا۔ “ اسنادہ موضوع، رواہ البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده موضوع، رواه البيھقي في شعب الإيمان (1610، 1433، نسخة محققة: 1364، 1496) [والحاکم (4/ 87) والعقيلي في الضعفاء الکبير (3/ 348)] ٭ فيه العلاء بن عمرو الحنفي: کذاب، و علل أخري.»
عن ابي سعيد الخدري قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تسبوا اصحابي فلو ان احدكم انفق مثل احد ذهبا ما بلغ مد احدهم ولا نصيفه» . متفق عليه عَن أبي سعيدٍ الْخُدْرِيّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نصيفه» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے صحابہ کو برا مت کہو، کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر ڈالے تو وہ ان میں سے کسی ایک کے مد (تقریباً سوا چھ سو گرام) خرچ کرنے کو پہنچ سکتا ہے نہ اس کے نصف مد کو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3673) و مسلم (222/ 2541)»
وعن ابي بردة عن ابيه قال: رفع-يعني النبي صلى الله عليه وسلم-راسه إلى السماء وكان كثيرا ما يرفع راسه إلى السماء. فقال: «النجوم امنة للسماء فإذا ذهبت النجوم اتى السماء ما توعد وانا امنة لاصحابي فإذا ذهبت انا اتى اصحابي ما يوعدون واصحابي امنة لامتي فإذا ذهب اصحابي اتى امتي ما يوعدون» . رواه مسلم وَعَن أبي بردة عَن أَبيه قَالَ: رَفَعَ-يَعْنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم-رَأسه إِلَى السَّمَاء وَكَانَ كثيرا مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ. فَقَالَ: «النُّجُومُ أَمَنَةٌ لِلسَّمَاءِ فَإِذَا ذَهَبَتِ النُّجُومَ أَتَى السَّمَاءَ مَا توعَدُ وَأَنا أَمَنةٌ لِأَصْحَابِي فَإِذَا ذَهَبْتُ أَنَا أَتَى أَصْحَابِي مَا يُوعَدُونَ وَأَصْحَابِي أَمَنَةٌ لِأُمَّتِي فَإِذَا ذَهَبَ أَصْحَابِي أَتَى أُمتي مَا يُوعَدُون» . رَوَاهُ مُسلم
ابوبردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، آپ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا، اور آپ اکثر اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ستارے آسمان کی حفاظت کا باعث ہیں، جب ستارے جاتے رہیں گے تو آسمان وعدہ کے مطابق ٹوٹ پھوٹ جائے گا، اور میں اپنے صحابہ کی حفاظت کا باعث ہوں، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ کو ان فتنوں کا سامنا ہو گا جس کا ان سے وعدہ ہے، اور میرے صحابہ میری امت کی حفاظت کا باعث ہیں، جب میرے صحابہ جاتے رہیں گے تو میری امت میں وہ چیز��ں (بدعات وغیرہ) آ جائیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (207/ 2531)»