وعنه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح فقال: «من دخل دار ابي سفيان فهو آمن ومن القى السلاح فهو آمن» . فقالت الانصار: اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته. ونزل الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «قلتم اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته كلا إني عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله وإليكم فالمحيا محياكم والممات مماتكم» قالوا: والله ما قلنا إلا ضنا بالله ورسوله. قال: «فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ فَقَالَ: «مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ» . فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ. وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى الله وإليكم فالمحيا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ» قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا إِلَّا ضِنًّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ. قَالَ: «فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُوله يصدقانكم ويعذرانكم» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، فتح مکہ کے روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ابوسفیان کے گھر داخل ہو جائے تو وہ امن میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے وہ امن میں ہے۔ “ انصار نے کہا: اس آدمی کو اپنے رشتہ داروں سے رحمت اور اپنے شہر کی محبت نے پکڑ لیا، (ان کی اس بات کے متعلق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کہا ہے کہ اس آدمی کو اپنے کنبے سے شفقت اور اپنے شہر سے محبت نے پکڑ لیا ہے، سن لو، ایسے نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، میں نے اللہ اور تمہاری طرف ہجرت کی، میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے۔ “ انہوں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! ہم نے تو محض اللہ اور اس کے رسول کی رفاقت کے حصول کے لیے ایسے کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے رہیں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (86/ 1780)»
وعن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم راى صبيانا ونساء مقبلين من عرس فقام النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «اللهم انتم من احب الناس إلي اللهم انتم من احب الناس إلي» يعني الانصار. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى صِبْيَانًا وَنِسَاءً مُقْبِلِينَ مِنْ عُرْسٍ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ اللَّهُمَّ أَنْتُمْ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ» يَعْنِي الْأَنْصَار. مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (انصار کے) کچھ بچوں اور خواتین کو کسی شادی کی تقریب سے واپس آتے ہوئے دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ”اے اللہ! (تو جانتا ہے) تم تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو، اے اللہ! (تو جانتا ہے) تم یعنی انصار تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب ہو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3785) و مسلم (174 / 2508)»
وعنه قال: مر ابو بكر والعباس بمجلس من مجالس الانصار وهم يبكون فقال: ما يبكيكم؟ قالوا: ذكرنا مجلس النبي صلى الله عليه وسلم منا فدخل احدهما على النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره بذلك فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وقد عصب على راسه حاشية برد فصعد المنبر ولم يصعده بعد ذلك اليوم. فحمد الله واثنى عليه. ثم قال: «اوصيكم بالانصار فإنهم كرشي وعيبتي وقد قضوا الذي عليهم وبقي الذي لهم فاقبلوا من محسنهم وتجاوزوا عن مسيئهم» . رواه البخاري وَعَنْهُ قَالَ: مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ بِمَجْلِسٍ من مجَالِس الْأَنْصَار وهم يَبْكُونَ فَقَالَ: مَا يُبْكِيكُمْ؟ قَالُوا: ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَّا فَدَخَلَ أَحَدُهُمَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَصَّبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ فَصَعِدَ الْمِنْبَر وَلم يَصْعَدهُ بعد ذَلِك الْيَوْم. فَحَمدَ الله وَأَثْنَى عَلَيْهِ. ثُمَّ قَالَ: «أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوُا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مسيئهم» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوبکر اور عباس رضی اللہ عنہ انصار کی ایک مجلس کے پاس سے گزرے تو وہ اس وقت رو رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا: تم کیوں رو رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس کو یاد کیا جس میں ہم (بیٹھا کرتے) تھے، ان دونوں میں سے ایک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے اس کے متعلق آپ کو بتایا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سر مبارک پر کپڑے کی پٹی باندھے ہوئے باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اور اس روز کے بعد آپ منبر پر تشریف نہ لا سکے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”میں انصار کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں، وہ میرے جسم و جان (دست و بازو) ہیں، وہ اپنی ذمہ داریاں نبھا چکے، اب ان کے حقوق باقی ہیں، تم ان کے نیکوکاروں کی طرف سے (عذر) قبول کرنا اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرنا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3799)»
وعن ابن عباس قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه حتى جلس على المنبر فحمد الله واثنى عليه ثم قال: «اما بعد فإن الناس يكثرون ويقل الانصار حتى يكونوا في الناس بمنزلة الملح في الطعام فمن ولي منكم شيئا يضر فيه قوما وينفع فيه آخرين فليقبل عن محسنهم وليتجاوز عن مسيئهم» رواه البخاري وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ حَتَّى جَلَسَ عَلَى الْمِنْبَرَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ النَّاسَ يَكْثُرُونَ وَيَقِلُّ الْأَنْصَارُ حَتَّى يَكُونُوا فِي النَّاسِ بِمَنْزِلَةِ الْمِلْحِ فِي الطَّعَامِ فَمَنْ وَلِيَ مِنْكُمْ شَيْئًا يَضُرُّ فِيهِ قَوْمًا وَيَنْفَعُ فِيهِ آخَرين فليقبل عَن محسنهم وليتجاوز عَن مسيئهم» رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے، آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: ”امابعد! باقی لوگ تو بہت زیادہ ہو جائیں گے جبکہ انصار کم ہو جائیں گے حتیٰ کہ وہ لوگوں میں نمک کے تناسب سے ہو جائیں گے، تم میں سے جو شخص کسی ایسی چیز کا ذمہ دار و سرپرست ہو جس میں وہ کسی نقصان اور کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو تو وہ ان (انصار) کے نیکوکاروں کے نیک کاموں کو قبول کرے اور ان کے خطاکاروں سے درگزر کرے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3628)»
وعن زيد بن ارقم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الله اغفر للانصار ولابناء الانصار وابناء ابناء الانصار» . رواه مسلم وَعَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «الله اغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَلِأَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ وَأَبْنَاءِ أَبْنَاءِ الْأَنْصَارِ» . رَوَاهُ مُسلم
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! انصار، انصار کی اولاد اور انصار کی اولاد کی اولاد کی مغفرت فرما۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (172/ 2506)»
وعن ابي اسيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خير دور الانصار بنو النجار ثم بنو عبد الاشهل ثم بنو الحارث بن الخزرج ثم بنو ساعدة وفى كل دور الانصار خير» . متفق عليه وَعَنْ أَبِي أُسَيْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ دُورِ الْأَنْصَارِ بَنُو النَّجَّارِ ثُمَّ بَنُو عَبْدِ الْأَشْهَلِ ثُمَّ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ ثُمَّ بَنُو سَاعِدَةَ وَفَى كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ خَيْرٌ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
ابواُسید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”انصار کا سب سے بہترین قبیلہ بنو نجار کا قبیلہ ہے، پھر بنو عبدالاشہل، بنو حارث بن خزرج، پھر بنو ساعدہ اور انصار کے ہر قبیلے میں خیر ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3789) و مسلم (177/ 2511)»
وعن علي رضي الله عنه قال: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير والمقداد-وفي رواية: ابا مرثد بدل المقداد-فقال: «انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ فإن بها ظعينة معها كتاب فخذوا منها» فانطلقنا تتعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة قلنا لها: اخرجي الكتاب قالت: ما معي كتاب. فقلنا لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب فاخرجته من عقاصها فاتينا به النبي صلى الله عليه وسلم فإذا فيه: من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين من اهل مكة يخبرهم ببعض امر رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا حاطب ما هذا؟» فقال: يا رسول الله لا تعجل علي إني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسهم وكان من معك من المهاجرين من لهم قرابات يحمون بها اموالهم واهليهم بمكة فاحببت إذ فاتني ذلك من النسب فيهم يدا يحمون بها قرابتي وما فعلت كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضى بالكفر بعد الإسلام. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنه قد صدقكم» فقال عمر: دعني يا رسول الله اضرب عنق هذا المنافق. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنه قد شهد بدرا وما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم فقد وجبت لكم الجنة «وفي رواية فقد غفرت لكم» فانزل الله تعالى [يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء]. متفق عليه وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْر والمقداد-وَفِي رِوَايَة: أَبَا مَرْثَدٍ بَدَلَ الْمِقْدَادِ-فَقَالَ: «انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوا مِنْهَا» فَانْطَلَقْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَة فَإِذا نَحن بِالظَّعِينَةِ قُلْنَا لَهَا: أَخْرِجِي الْكتاب قَالَت: مَا معي كِتَابٍ. فَقُلْنَا لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا فَأَتَيْنَا بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا فِيهِ: مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا حَاطِبُ مَا هَذَا؟» فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَكَانَ مَنْ مَعَك من الْمُهَاجِرين من لَهُم قَرَابَات يحْمُونَ بهَا أَمْوَالهم وأهليهم بِمَكَّةَ فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنَ النَّسَبِ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي وَمَا فَعَلْتُ كفرا وَلَا ارْتِدَادًا عَن ديني وَلَا رضى بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكُمْ» فَقَالَ عُمَرُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوا مَا شِئْتُم فقد وَجَبت لكم الجنةُ «وَفِي رِوَايَة فقد غَفَرْتُ لَكُمْ» فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ]. مُتَّفق عَلَيْهِ
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہ کو، ایک دوسری روایت میں مقداد کے بجائے ابومرثد رضی اللہ عنہ کا نام ہے، کسی کام پر روانہ فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم چلتے جانا حتیٰ کہ تم روضہ خاخ پر پہنچ جاؤ، وہاں ایک عورت ہو گی اس کے پاس ایک خط ہو گا تم وہ اس سے لے لینا۔ “ ہم روانہ ہوئے، ہم اپنے گھوڑے دوڑاتے رہے حتیٰ کہ ہم روضہ خاخ پر پہنچ گئے، اور وہاں ہمیں وہ عورت مل گئی۔ ہم نے کہا: خط نکالو، اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں، ہم نے کہا: خط نکال دو ورنہ ہم تیرے کپڑے اتار دیں گے، چنانچہ اس نے وہ خط اپنی چوٹی سے نکال دیا، ہم وہ خط لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس میں لکھا ہوا تھا، حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے اہل مکہ کے چند مشرکین کے نام، انہوں نے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض امور کے متعلق انہیں خبر دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”حاطب یہ کیا (ماجرا) ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے متعلق جلدی نہ فرمانا، میں ایک ایسا شخص ہوں کہ میں قریش کا حلیف ہوں، میں ان کے خاندان میں سے نہیں ہوں، اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں، ان کی تو (ان سے) قرابت ہے جس کی وجہ سے وہ مکہ میں ان کے اموال اور اہل و عیال کی حفاظت کر رہے ہیں، میں نے ان سے نسبی رشتہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پسند کیا کہ میں ان سے کوئی احسان کروں، جس کی وجہ سے وہ میرے قرابت داروں کی حفاظت کریں گے۔ میں نے یہ کفر کی وجہ سے کیا ہے نہ اپنے دین سے ارتداد کی وجہ سے کیا ہے اور نہ ہی اسلام کے بعد کفر کو پسند کر کے کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے تم سے سچی بات کی ہے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مجھے اجازت فرمائیں میں اس منافق کی گردن اڑا دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے غزوۂ بدر میں شرکت کی ہے، اور تم نہیں جانتے کہ اللہ نے اہل بدر کے احوال پہلے سے جان لیے تھے، اس لیے اس نے فرمایا: ”جو چاہو سو کرو، تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”میں تمہیں معاف کر چکا۔ “ تب اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6259 والرواية الثانية: 4274) و مسلم (161/ 2494)»
وعن رفاعة بن رافع قال: جاء جبريل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ما تعدون اهل بدر فيكم» . قال: «من افضل المسلمين» او كلمة نحوها قال: «وكذلك من شهد بدرا من الملائكة» . رواه البخاري وَعَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ» . قَالَ: «مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِينَ» أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَ: «وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جبریل ؑ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ”تم اہل بدر کو اپنے ہاں کس درجہ میں شمار کرتے ہو؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں سے سب سے افضل۔ “ یا آپ نے اسی طرح کی بات فرمائی۔ “ انہوں (جبریل ؑ) نے فرمایا: ”اسی طرح جو فرشتے بدر میں شریک ہوئے ان کا بھی بلند درجہ ہے۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3992)»
وعن حفصة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني لارجو ان لا يدخل النار إن شاء الله احد شهد بدرا والحديبية» قلت: يا رسول الله اليس قد قال الله تعالى: [وإن منكم إلا واردها] قال: فلم تسمعيه يقول: [ثم ننجي الذين اتقوا] وفي رواية: «لا يدخل النار إن شاء الله من اصحاب الشجرة-احد-الذين بايعوا تحتها» . رواه مسلم وَعَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَدْخُلَ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَحَدٌ شَهِدَ بَدْرًا وَالْحُدَيْبِيَةَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: [وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا واردها] قَالَ: فَلَمْ تَسْمَعِيهِ يَقُولُ: [ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتقَوا] وَفِي رِوَايَةٍ: «لَا يَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ-أَحَدُ-الَّذِينَ بَايَعُوا تحتهَا» . رَوَاهُ مُسلم
حفصہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ غزوۂ بدر اور صلح حدیبیہ میں شرکت کرنے والا کوئی شخص جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ “ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے: ”تم میں سے ہر شخص نے اس پر وارد ہونا ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے سنا نہیں، وہ فرماتا ہے: پھر وہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو بچا لے گا۔ “ ایک دوسری روایت میں ہے: ”ان شاء اللہ اصحاب شجرہ جنہوں نے اس (درخت) کے نیچے بیعت کی تھی جہنم میں داخل نہیں ہوں گے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (163/ 2496)»
وعن جابر قال: كنا يوم الحديبية الفا واربعمائة. قال لنا النبي صلى الله عليه وسلم: «انتم اليوم خير اهل الارض» . متفق عليه وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَمِائَةٍ. قَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْيَوْمَ خَيْرُ أَهْلِ الأَرْض» . مُتَّفق عَلَيْهِ
جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صلح حدیبیہ کے موقع پر ہم چودہ سو افراد تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ”آج زمین والوں میں سے تم سب سے بہتر ہو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (4154) و مسلم (71/ 1856)»