وعن جابر بن سمرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد شمط مقدم راسه ولحيته وكان إذا ادهن لم يتبين وإذا شعث راسه تبين وكان كثير شعر اللحية فقال رجل: وجهه مثل السيف؟ قال: لا بل كان مثل الشمس والقمر وكان مستديرا ورايت الخاتم عند كتفه مثل بيضة الحمامة يشبه جسده. رواه مسلم وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ فَقَالَ رَجُلٌ: وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ؟ قَالَ: لَا بَلْ كَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَكَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَة الْحَمَامَة يشبه جسده. رَوَاهُ مُسلم
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک اور داڑھی کے اگلے حصے کے کچھ بال سفید ہو چکے تھے، جب آپ تیل لگاتے تھے تو وہ نظر نہیں آتے تھے، اور جب آپ کے سر کے بالوں میں کنگھی نہیں کی ہوتی تھی تو وہ نظر آ جاتے تھے، آپ کی داڑھی کے بال گھنے تھے، کسی آدمی نے کہا: آپ کا چہرہ مبارک (چمک کے لحاظ سے) تلوار کی طرح تھا، جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، بلکہ سورج اور چاند کی طرح چمکتا تھا، رخ انور گول تھا، میں نے آپ کے کندھے کے پاس مہر نبوت دیکھی جو کہ کبوتری کے انڈے کی طرح تھی اور وہ آپ کے جسم اطہر (کے رنگ) کے مشابہ تھی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (109/ 2344)»
وعن عبد الله بن سرجس قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم واكلت معه خبزا ولحما-او قال: ثريدا-ثم درت خلفه فنظرت إلى خاتم النبوة بين كتفيه عند ناغض كتفه اليسرى جمعا عليه خيلال كامثال الثآليل. رواه مسلم وَعَن عبدِ الله بن سرجسٍ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَكَلْتُ مَعَهُ خُبْزًا وَلَحْمًا-أَوْ قَالَ: ثَرِيدًا-ثُمَّ دُرْتُ خَلْفَهُ فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ عِنْدَ نَاغِضِ كَتِفِهِ الْيُسْرَى جُمْعًا عَلَيْهِ خيلال كأمثال الثآليل. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا اور آپ کے ساتھ گوشت روٹی کھائی، یا کہا: ثرید کھائی، پھر میں گھوم کر آپ کے پچھلی جانب گیا اور میں نے آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان بائیں کندھے کی نرم ہڈی کے پاس مہر نبوت دیکھی، وہ بند مٹھی کی طرح تھی اس پر دو تل تھے، جیسے مسّے ہوں۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (112/ 2346)»
وعن ام خالد بنت خالد بن سعيد قالت: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بثياب فيها خميصة سوداء صغيرة فقال: «ائتوني بام خالد» فاتي بها تحمل فاخذ الخميصة بيده فالبسها. قال: «ابلي واخلقي ثم ابلي واخلقي» وكان فيها علم اخضر او اصفر. فقال: «يا ام خالد هذا سناه» وهي بالحبشية حسنة. قالت: فذهبت العب بخاتم النبوة فز برني ابي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «دعها» . رواه البخاري وَعَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَتْ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثِيَابٍ فِيهَا خَمِيصَةٌ سَوْدَاءُ صَغِيرَةٌ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِأُمِّ خَالِدٍ» فَأُتِيَ بِهَا تُحْمَلُ فَأَخَذَ الْخَمِيصَةَ بِيَدِهِ فَأَلْبَسَهَا. قَالَ: «أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي» وَكَانَ فِيهَا عَلَمٌ أَخْضَرُ أَوْ أَصْفَرُ. فَقَالَ: «يَا أُمَّ خَالِدٍ هَذَا سِنَاهْ» وَهِيَ بالحبشيَّةِ حسنَة. قَالَت: فذهبتُ أَلعبُ بخاتمِ النبوَّةِ فز برني أُبَيٍّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دعها» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے لائے گئے ان میں ایک چھوٹی سی کالی چادر تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ام خالد کو میرے پاس لاؤ، اسے اٹھا کر لایا گیا، آپ نے اپنے دست مبارک سے وہ چادر پکڑی اور اسے پہنا دی، اور فرمایا: ”تم اسے بوسیدہ کرو اور تم اسے پرانا کرو (دیر تک جیتی رہو)، تم اسے بوسیدہ کرو اور اسے پرانا کرو۔ “ اس (چادر) میں سبز یا زرد رنگ کے نشانات تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ام خالد! یہ ”سناہ“ ہے۔ “ اور یہ (سناہ) حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی خوبصورت؟ وہ بیان کرتی ہیں، میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3071)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس بالطويل البائن ولا بالقصير وليس بالابيض الامهق ولا بالآدم وليس بالجعد القطط ولا بالسبط بعثه الله على راس اربعين سنة فاقام بمكة عشر سنين وبالمدينة عشر سنين وتوفاه الله على راس ستين سنة وليس في راسه ولحيته عشرون شعرة بيضاء وفي رواية يصف النبي صلى الله عليه وسلم قال: كان ربعة من القوم ليس بالطويل ولا بالقصير ازهر اللون. وقال: كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى انصاف اذنيه وفي رواية: بين اذنيه وعاتقه. متفق عليه وفي رواية للبخاري قال: كان ضخم الراس والقدمين لم ار بعده ولا قبله مثله وكان سبط الكفين. وفي اخرى له قال: كان شئن القدمين والكفين وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيرِ وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبْطِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ وبالمدينة عشر سِنِين وتوفَّاه الله على رَأس سِتِّينَ سَنَةً وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ وَفِي رِوَايَةٍ يَصِفُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ أَزْهَرَ اللَّوْنِ. وَقَالَ: كَانَ شَعْرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ: بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَعَاتِقِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: كَانَ ضَخْمَ الرَّأْسِ وَالْقَدَمَيْنِ لَمْ أَرَ بَعْدَهُ وَلَا قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَكَانَ سَبْطَ الكفَّينِ. وَفِي أُخْرَى لَهُ قَالَ: كَانَ شئن الْقَدَمَيْنِ وَالْكَفَّيْنِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ لمبے قد کے تھے نہ چھوٹے قد کے نہ بالکل سفید تھے اور نہ گندمی رنگ کے، آپ کے بال نہ بہت زیادہ گھنگریالے تھے نہ سیدھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس سال کی عمر میں مبعوث فرمایا، آپ نے مکہ میں دس سال قیام فرمایا اور مدینہ میں بھی دس سال قیام فرمایا، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ساٹھ سال کی عمر میں وفات دی اور (اس وقت) آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں تھے۔ ایک دوسری روایت میں انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: آپ کا قد درمیانہ تھا نہ لمبا تھا اور نہ چھوٹا، کھلتا اور چمکتا ہوا رنگ تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال کانوں کے نصف تک تھے، ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر اور پاؤں ضخیم تھے، میں نے آپ کے بعد یا پہلے آپ جیسا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں، صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں اور ہاتھ موٹے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3548. 5900) و مسلم (113/ 2347) الرواية الثانية ا، رواھا البخاري (3547) والثانيةب، رواھا مسلم (2338/96) والثالثة، رواھا البخاري (5905) و مسلم (94/ 2338) والرابعة، رواھا البخاري (5910)»
وعن البراء قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مربوعا بعيد ما بين المنكبين له شعر بلغ شحمة اذنيه رايته في حلة حمراء لم ار شيئا قط احسن منه. متفق عليه وفي رواية لمسلم قال: ما رايت من ذي لمة احسن في حلة حمراء من رسول الله صلى الله عليه وسلم شعره يضرب منكبيه بعيد ما بين المنكبين ليس بالطويل ولا بالقصير وَعَنِ الْبَرَّاءِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْبُوعًا بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَهُ شَعْرٌ بَلَغَ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعْرُهُ يَضْرِبُ مَنْكِبَيْهِ بَعِيدٌ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلَا بِالْقَصِيرِ
براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درمیانے قد کے تھے، آپ کی چھاتی کشادہ تھی، آپ کے سر کے بال کانوں کی لو تک تھے، میں نے آپ کو سرخ جوڑے میں دیکھا، میں نے آپ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے، میں نے کانوں کی لو تک بالوں والے اور سرخ جوڑے میں ملبوس کسی شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا آپ کے بال آپ کے کندھوں پر پڑتے تھے، آپ کی چھاتی کشادہ تھی، اور آپ نہ زیادہ لمبے تھے اور نہ چھوٹے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3551) و مسلم (92، 91 / 2337 و الرواية الثانية له)»
وعن سماك بن حرب عن جابر بن سمرة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ضليع الفم اشكل العينين منهوش العقبين قيل لسماك: ما ضليع الفم؟ قال: عظيم الفم. قيل: ما اشكل العينين؟ قال: طويل شق العين. قيل: ما منهوش العقبين؟ قال: قليل لحم العقب. رواه مسلم وَعَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَلِيعَ الْفَمِ أَشْكَلَ الْعَيْنَيْنِ مَنْهُوشَ الْعَقِبَيْنِ قِيلَ لَسِمَاكٍ: مَا ضَلِيعُ الْفَمِ؟ قَالَ: عَظِيمُ الْفَمِ. قِيلَ: مَا أَشْكَلُ الْعَيْنَيْنِ؟ قَالَ: طَوِيلُ شَقِّ الْعَيْنِ. قِيلَ: مَا مَنْهُوشُ الْعَقِبَيْنِ؟ قَالَ: قليلُ لحم الْعقب. رَوَاهُ مُسلم
سماک بن حرب، جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضلیع الفم، اشکل العین اور منھوش العقبین تھے۔ سماک ؒ سے پوچھا گیا، ضلیع الفم سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: کشادہ چہرے والے، پوچھا گیا، اشکل العین سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں بڑی اور طویل تھیں، پھر پوچھا گیا: منھوش العقبین سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایڑھیاں پتلی تھیں۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (97/ 2339)»
وعن ابي الطفيل قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ابيض مليحا مقصدا. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْيَضَ مَلِيحًا مقصدا. رَوَاهُ مُسلم
ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے آپ کی رنگت سرخی مائل سفید تھی اور آپ کا قد درمیانہ تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (99/ 2340)»
وعن ثابت قال: سئل انس عن خضاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إنه لم يبلغ ما يخضب لو شئت ان اعد شمطاته في لحيته-وفي رواية: لو شئت ان اعد شمطات كن في راسه-فعلت. متفق عليه وَعَنْ ثَابِتٍ قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ خِضَابِ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَبْلُغْ مَا يُخْضَبُ لَوْ شِئْتُ أَنْ أَعُدَّ شَمَطَاتِهِ فِي لِحْيَتِهِ-وَفِي رِوَايَةٍ: لَوْ شِئْتُ أَنْ أَعُدَّ شَمَطَاتٍ كُنَّ فِي رَأسه-فعلت. مُتَّفق عَلَيْهِ
ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خضاب کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: آپ کے بال اس قدر سفید نہیں تھے کہ انہیں خضاب کیا جاتا، اگر میں آپ کی داڑھی کے سفید بال گننا چاہتا، تو گن سکتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے سفید بال گننا چاہتا تو گن سکتا تھا۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنفقہ (نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان) میں، آپ کی کن پٹیوں میں اور آپ کے سر میں چند سفید بال تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (5895) و مسلم (104، 103 / 2341)»
وعن انس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ازهر اللون كان عرقه اللؤلؤ إذا مشى تكفا وما مسست ديباجة ولا حريرا الين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا شممت مسكا ولا عنبرة اطيب من رائحة النبي صلى الله عليه وسلم. متفق عليه وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْهَرَ اللَّوْنِ كَانَ عَرَقُهُ اللُّؤْلُؤُ إِذَا مَشَى تَكَفَّأَ وَمَا مَسَسْتُ دِيبَاجَةً وَلَا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا شمَمتُ مسكاً وَلَا عَنْبَرَةً أَطْيَبَ مِنْ رَائِحَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رنگت میں چمک دمک تھی آپ کے پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح تھے، جب آپ چلتے تو آگے کی طرف جھک کر چلتے تھے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم، دیباج اور ریشم کو بھی نہیں پایا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بدن اطہر سے زیادہ معطر، کستوری یا عنبر کی خوشبو نہیں سونگھی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3561) و مسلم (82/ 2330)»
وعن ام سليم ان النبي صلى الله عليه وسلم كان ياتيها فيقيل عندها فتبسط نطعا فيقيل عليه وكان كثير العرق فكانت تجمع عرقه فتجعله في الطيب. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «يا ام سليم ما هذا؟» قالت: عرقك نجعله في طيبنا وهو من اطيب الطيب وفي رواية قالت: يا رسول الله نرجو بركته لصبياننا قال: «اصبت» . متفق عليه وَعَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْتِيهَا فَيَقِيلُ عِنْدَهَا فَتَبْسُطُ نِطْعًا فَيَقِيلُ عَلَيْهِ وَكَانَ كَثِيرَ الْعَرَقِ فَكَانَتْ تَجْمَعُ عَرَقَهُ فَتَجْعَلُهُ فِي الطِّيبِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا هَذَا؟» قَالَتْ: عَرَقُكَ نَجْعَلُهُ فِي طِيبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطِّيبِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَرْجُو بَرَكَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ: «أصبت» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ام سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہا�� تشریف لایا کرتے اور وہیں قیلولہ فرمایا کرتے تھے، وہ چمڑے کی چٹائی بچھا دیتیں اور آپ اس پر قیلولہ فرماتے، آپ کو پسینہ بہت آتا تھا، وہ آپ کا پسینہ جمع کر لیتیں اور پھر اسے خوشبو میں شامل کر لیتیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ام سلیم! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: آپ کا پسینہ ہے، ہم اسے اپنی خوشبو کے ساتھ ملا لیتے ہیں، آپ کا پسینہ ایک بہترین خوشبو ہے، ایک دوسری روایت میں ہے۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اس کے ذریعے اپنے بچوں کے لیے برکت حاصل کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ٹھیک کیا۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6281) و مسلم (85. 83 / 2331)»