وعن عبد الله بن عمرو ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم بدر في ثلاثمائة وخمسة عشر قال: «اللهم إنهم حفاة فاحملهم اللهم إنهم عراة فاكسهم اللهم إنهم جياع فاشبعهم» ففتح الله له فانقلبوا وما منهم رجل إلا وقد رجع بجمل او جملين واكتسوا وشبعوا. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلَاثِمِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ» فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ فَانْقَلَبُوا وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کے روز تین سو پندرہ صحابہ کرام کے ساتھ روانہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! یہ ننگے پاؤں ہیں تو انہیں سواری عطا فرما، اے اللہ! یہ ننگے بدن ہیں تو انہیں لباس عطا فرما، اے اللہ! یہ بھوک کا شکار ہیں تو انہیں شکم سیر فرما۔ “ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح عطا فرمائی، آپ واپس آئے تو ان میں سے ہر آدمی کے پاس ایک یا دو اونٹ تھے، ان کے پاس لباس بھی تھا اور وہ شکم سیر بھی تھے۔ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2747)»
وعن ابن مسعود عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قا ل: «إنكم منصورون ومصيبون ومفتوح لكم فمن ادرك ذلك منكم فليتق الله وليامر بالمعروف ولينه عن المنكر» . رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قا ل: «إِنَّكُمْ مَنْصُورُونَ وَمُصِيبُونَ وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيَنْهَ عَن الْمُنكر» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری (دشمن کے خلاف) مدد کی جائے گی، تم مال غنیمت حاصل کرو گے، تم (بہت سے ملک) فتح کرو گے، تم میں سے جو شخص یہ مذکورہ چیزیں پا لے تو وہ اللہ سے ڈرے، نیکی کا حکم کرے اور برائی سے منع کرے۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (5118 مختصرًا جدًا و لم يذکر ھذا اللفظ و سنده صحيح) [و أبو داود الطيالسي (337) والترمذي (2257)]»
وعن جابر بان يهودية من اهل خيبر سمت شاة مصلية ثم اهدتها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فاخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الذ راع فاكل منها واكل رهط من اصحابه معه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ارفعوا ايديكم وارسل إلى اليهودية فدعاها فقال سممت هذه الشاة فقالت من اخبرك قال اخبرتني هذه في يدي للذراع قالت نعم قالت قلت إن كان نبيا فلن يضره وإن لم يكن نبيا استرحنا منه فعفا عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم يعاقبها وتوفي بعض اصحابه الذين اكلوا من الشاة واحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم على كاهله من اجل الذي اكل من الشاة حجمه ابو هند بالقرن والشفرة وهو مولى لبني بياضة من الانصار. رواه ابو داود والدارمي وَعَن جَابر بِأَن يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذ ِرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ وَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ سممتِ هَذِهِ الشَّاةَ فَقَالَتْ مَنْ أَخْبَرَكَ قَالَ أَخْبَرَتْنِي هَذِه فِي يَدي للذِّراع قَالَت نعم قَالَت قلت إِن كَانَ نَبيا فَلَنْ يضرّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُعَاقِبهَا وَتُوفِّي بعض أَصْحَابُهُ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ وَاحْتَجَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنَ الْأَنْصَارِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری میں زہر ملا دی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر بھیج دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستی لی اور اس سے کھایا، اور آپ کے چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے ساتھ کھایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ہاتھ (کھانے سے) اٹھا لو۔ “ آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا: ”کیا تو نے اس بکری میں زہر ملائی تھی؟“ اس نے کہا: آپ کو کس نے بتایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ہاتھ میں یہ جو دستی ہے اس نے مجھے بتایا ہے۔ “ اس نے عرض کیا: جی ہاں، میں نے کہا: اگر تو وہ سچے نبی ہوئے تو یہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گی، اور اگر وہ سچے نبی نہ ہوئے تو ہم اس سے آرام پا جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو معاف فرما دیا اور اسے سزا نہ دی، اور آپ کے جن صحابہ کرام نے بکری کا گوشت کھایا تھا وہ فوت ہو گئے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بکری کا گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے کندھوں کے درمیان پچھنے لگوائے، ابوہند جو کہ انصار قبیلے بنو بیاضہ کے آزاد کردہ غلام تھے، انہوں نے سینگ اور چھری کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پچھنے لگائے تھے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4510) و الدارمي (1/ 33 ح 69) ٭ الزھري عن جابر: منقطع ’’لم يسمع منه‘‘ انظر تحفة الأشراف (2/ 356)»
وعن سهل ابن الحنظلية انهم ساروا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين فاطنبوا السير حتى كانت عشية فجاء فارس فقال يا رسول الله إني طلعت على جبل كذا وكذا فإذا انا بهوازن على بكرة ابيهم بظعنهم ونعمهم اجتمعوا إلى حنين فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال تلك غنيمة المسلمين غدا إن شاء الله ثم قال من يحرسنا الليلة قال انس بن ابي مرثد الغنوي انا يا رسول الله قال اركب فركب فرسا له فقال: «استقبل هذا الشعب حتى تكون في اعلاه» . فلما اصبحنا خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مصلاه فركع ركعتين ثم قال هل حسستم فارسكم قالوا يا رسول الله ما حسسنا فثوب بالصلاة فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وهو يلتفت إلى الشعب حتى إذا قضى الصلاة قال ابشروا فقد جاء فارسكم فجعلنا ننظر إلى خلال الشجر في الشعب فإذا هو قد جاء حتى وقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم فقال إني انطلقت حتى كنت في اعلى هذا الشعب حيث امرني رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما اصبحت اطلعت الشعبين كليهما فلم ار احدا فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم هل نزلت الليلة قال لا إلا مصليا او قاضي حاجة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فلا عليك ان لا تعمل بعدها» . رواه ابو داود وَعَن سهل ابْن الْحَنْظَلِيَّةِ أَنَّهُمْ سَارُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَأَطْنَبُوا السَّيْرَ حَتَّى كَانَت عَشِيَّةً فَجَاءَ فَارِسٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي طَلِعْتُ عَلَى جَبَلِ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا أَنَا بِهَوَازِنَ عَلَى بَكْرَةِ أَبِيهِمْ بِظُعُنِهِمْ وَنَعَمِهِمُ اجْتَمَعُوا إِلَى حُنَيْنٍ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ تِلْكَ غَنِيمَةٌ الْمُسْلِمِينَ غَدا إِن شَاءَ الله ثمَّ قَالَ مَنْ يَحْرُسُنَا اللَّيْلَةَ قَالَ أَنَسُ بْنُ أَبِي مَرْثَدٍ الْغَنَوِيُّ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ ارْكَبْ فَرَكِبَ فَرَسًا لَهُ فَقَالَ: «اسْتَقْبِلْ هَذَا الشِّعْبَ حَتَّى تَكُونَ فِي أَعْلَاهُ» . فَلَمَّا أَصْبَحْنَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مُصَلَّاهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ قَالَ هَلْ حسستم فارسكم قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَسِسْنَا فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَهُوَ يَلْتَفِتُ إِلَى الشِّعْبِ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ أَبْشِرُوا فَقَدْ جَاءَ فَارِسُكُمْ فَجَعَلْنَا نَنْظُرُ إِلَى خِلَالِ الشَّجَرِ فِي الشِّعْبِ فَإِذَا هُوَ قَدْ جَاءَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسلم فَقَالَ إِنِّي انْطَلَقْتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى هَذَا الشِّعْبِ حَيْثُ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصبَحت اطَّلَعت الشِّعْبَيْنِ كِلَيْهِمَا فَلَمْ أَرَ أَحَدًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ نَزَلْتَ اللَّيْلَةَ قَالَ لَا إِلَّا مُصَلِّيَا أَوْ قَاضِيَ حَاجَةٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا عَلَيْكَ أَنْ لَا تَعْمَلَ بعدَها» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ حنین کے موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر کیا، انہوں نے سفر جاری رکھا حتیٰ کہ پچھلا پہر ہو گیا، ایک گھڑ سوار آیا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں فلاں فلاں پہاڑ کے اوپر چڑھا ہوں اور میں نے اچانک ہوازن قبیلے کو دیکھا ہے کہ وہ سب کے سب اپنے مویشیوں اور اپنے اموال کے ساتھ حنین کی طرف اکٹھے ہو رہے ہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”ان شاء اللہ تعالیٰ کل وہ مسلمانوں کا مال غنیمت ہو گا۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات ہمارا پہرہ کون دے گا؟“ انس بن ابی مرثد الغنوی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”سوار ہو جاؤ۔ “ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس گھاٹی کی طرف جاؤ حتیٰ کہ تم اس کی چوٹی پر پہنچ جاؤ۔ “ جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جائے نماز پر تشریف لے گئے اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر فرمایا: ”کیا تم نے اپنے گھڑ سوار کو محسوس کیا؟“ ایک آدمی نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم نے محسوس نہیں کیا، نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوران نماز اس گھاٹی کی طرف التفات فرماتے رہے حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھ چکے تو فرمایا: ”خوش ہو جاؤ، تمہارا گھڑ سوار آ گیا ہے۔ “ ہم بھی درختوں کے درمیان اس گھاٹی کی طرف دیکھنے لگے تو وہ اچانک آ گیا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا تو اس نے عرض کیا، میں چلتا گیا حتیٰ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس گھاٹی کے بلند ترین حصے پر تھا، جب صبح ہوئی تو میں ان دونوں گھاٹیوں کے اطراف سے ہو آیا ہوں، لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”کیا رات کے وقت تم (اپنے گھوڑے سے) نیچے اترے تھے؟“ انہوں نے عرض کیا: نماز پڑھنے یا قضائے حاجت کے علاوہ میں نہیں اترا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اس (رات) کے بعد کوئی بھی نیک عمل نہ کرو تو تم پر کوئی مؤاخذہ نہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه أبو داود (2501)»
وعن ابي هريرة قال اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بتمرات فقلت يا رسول الله ادع الله فيهن بالبركة فضمهن ثم دعا لي فيهن بالبركة فقال خذهن واجعلهن في مزودك كلما اردت ان تاخذ منه شيئا فادخل فيه يدك فخذه ولا تنثره نثرا فقد حملت من ذلك التمر كذا وكذا من وسق في سبيل الله فكنا ناكل منه ونطعم وكان لا يفارق حقوي حتى كان يوم قتل عثمان فإنه انقطع. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمَرَاتٍ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ فِيهِنَّ بِالْبَرَكَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لي فِيهِنَّ بِالْبركَةِ فَقَالَ خذهن واجعلهن فِي مِزْوَدِكَ كُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيهِ يَدَكَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِكَ التَّمْرِ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَكُنَّا نَأْكُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ وَكَانَ لَا يُفَارِقُ حَقْوِي حَتَّى كَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں کچھ کھجوریں لے کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ان میں برکت کے لیے دعا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لیے ان میں برکت کی دعا فرمائی، اور فرمایا: ”انہیں لے لو اور انہیں اپنے توشہ دان میں رکھ لو، جب بھی تم ان میں سے کچھ لینا چاہو تو اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر لے لینا اور انہیں مکمل طور پر باہر نہ نکالنا۔ “ میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجور اللہ کی راہ میں عطا کیے، ہم خود بھی اس میں سے کھاتے تھے اور کھلاتے بھی تھے، اور وہ میری کمر سے الگ نہیں ہوتا تھا حتیٰ کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے روز وہ منقطع ہو کر گر پڑا۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (3839 وقال: حسن غريب)»
وعن ابن عباس قال تشاورت قريش ليلة بمكة فقال بعضهم إذا اصبح فاثبتوه بالوثاق يريدون النبي صلى الله عليه وسلم وقال بعضهم بل اقتلوه وقال بعضهم بل اخرجوه فاطلع الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم على ذلك فبات علي على فراش النبي صلى الله عليه وسلم تلك الليلة وخرج النبي صلى الله عليه وسلم حتى لحق بالغار وبات المشركون يحرسون عليا يحسبونه النبي صلى الله عليه وسلم فلما اصبحوا ثاروا إليه فلما راوا عليا رد الله مكرهم فقالوا اين صاحبك هذا قال لا ادري فاقتصوا اثره فلما بلغوا الجبل اختلط عليهم فصعدوا في الجبل فمروا بالغار فراوا على بابه نسج العنكبوت فقالوا لو دخل هاهنا لم يكن نسج العنكبوت على بابه فمكث فيه ثلاث ليال. رواه احمد وَعَن ابْن عبَّاس قَالَ تَشَاوَرَتْ قُرَيْشٌ لَيْلَةً بِمَكَّةَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا أَصْبَحَ فَأَثْبِتُوهُ بِالْوِثَاقِ يُرِيدُونَ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلِ اقْتُلُوهُ وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ أَخْرِجُوهُ فَأطلع الله عز وَجل نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ذَلِكَ فَبَاتَ عَليّ عَلَى فِرَاشِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَحِقَ بِالْغَارِ وَبَاتَ الْمُشْرِكُونَ يَحْرُسُونَ عَلِيًّا يَحْسَبُونَهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبحُوا ثَارُوا إِلَيْهِ فَلَمَّا رَأَوْا عَلِيًّا رَدَّ اللَّهُ مَكْرَهُمْ فَقَالُوا أَيْنَ صَاحِبُكَ هَذَا قَالَ لَا أَدْرِي فَاقْتَصُّوا أَثَرَهُ فَلَمَّا بَلَغُوا الْجَبَلَ اخْتَلَطَ عَلَيْهِمْ فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلَ فَمَرُّوا بِالْغَارِ فَرَأَوْا عَلَى بَابِهِ نَسْجَ الْعَنْكَبُوتِ فَقَالُوا لَوْ دَخَلَ هَاهُنَا لَمْ يَكُنْ نَسْجُ الْعَنْكَبُوتِ عَلَى بَابِهِ فَمَكَثَ فِيهِ ثَلَاثَ لَيَال. رَوَاهُ أَحْمد
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، قریش نے ایک رات مکہ میں (دار الندوہ میں) مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے کہا جب صبح ہو تو اس کو قید کر دو، ان کی مراد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، کسی نے کہا: نہیں، بلکہ اسے قتل کر دو، اور کسی نے کہا، نہیں بلکہ اسے (مکہ سے) نکال باہر کرو، اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس (منصوبے) پر مطلع کر دیا، اس رات علی رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر رات بسر کی اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چل دیئے حتیٰ کہ آپ غار میں پہنچ گئے، جبکہ مشرکین پوری رات علی رضی اللہ عنہ پر پہرہ دیتے رہے اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ جب صبح ہوئی تو وہ ان پر حملہ آور ہوئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو علی رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا، انہوں نے پوچھا: تمہارا ساتھی کہا�� ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں نہیں جانتا۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے نشانات کا کھوج لگایا، جب وہ پہاڑ پر پہنچے تو ان پر معاملہ مشتبہ ہو گیا، وہ پہاڑ پر چڑھ گئے اور غار کے پاس سے گزرے، انہوں نے اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا دیکھا، اور انہوں نے کہا: اگر وہ اس میں داخل ہوئے ہوتے تو اس کے دروازے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں تین روز قیام فرمایا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (1/ 348 ح 3251) ٭ فيه عثمان الجزري بن عمرو بن ساج: فيه ضعف.»
وعن ابي هريرة انه قال لما فتحت خيبر اهديت لرسول الله صلى الله عليه وسلم شاة فيها سم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اجمعوا لي من كان ها هنا من اليهود فجمعوا له فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم إني سائلكم عن شيء فهل انتم صادقي عنه فقالوا نعم يا ابا القاسم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من ابوكم قالوا فلان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كذبتم بل ابوكم فلان فقالوا صدقت وبررت قال: «هل انتم مصدقي عن شيء إن سالتكم عنه» قالوا نعم يا ابا القاسم وإن كذبناك عرفت كما عرفته في ابينا قال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من اهل النار قالوا نكون فيها يسيرا ثم تخلفوننا فيها فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم اخسئوا فيها والله لا نخلفكم فيها ابدا ثم قال لهم فهل انتم مصدقي عن شيء إن سالتكم عنه قالوا نعم يا ابا القاسم قال: «هل جعلتم في هذه الشاة سما» . قالوا نعم فقال ما حملكم على ذلك فقالوا اردنا إن كنت كذابا نستريح منك وإن كنت نبيا لم يضرك. رواه البخاري وَعَن أبي هُرَيْرَة أَنه قَالَ لَمَّا فُتِحَتْ خَيْبَرُ أُهْدِيَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةٌ فِيهَا سُمٌّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْمَعُوا لي من كَانَ هَا هُنَا من الْيَهُود فَجمعُوا لَهُ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي سَائِلُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَهَلْ أَنْتُمْ صادقي عَنهُ فَقَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَبُوكُمْ قَالُوا فلَان فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذبْتُمْ بل أبوكم فلَان فَقَالُوا صدقت وبررت قَالَ: «هَلْ أَنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنْهُ» قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ وَإِنْ كَذَبْنَاكَ عَرَفْتَ كَمَا عَرَفْتَهُ فِي أَبِينَا قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهْلُ النَّارِ قَالُوا نَكُونُ فِيهَا يَسِيرًا ثمَّ تخلفوننا فِيهَا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْسَئُوا فِيهَا وَاللَّهِ لَا نَخْلُفُكُمْ فِيهَا أبدا ثمَّ قَالَ لَهُم فَهَلْ أَنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ عَنْ شَيْءٍ إِنْ سَأَلْتُكُمْ عَنهُ قَالُوا نَعَمْ يَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ: «هَلْ جَعَلْتُمْ فِي هَذِه الشَّاة سما» . قَالُوا نعم فَقَالَ مَا حملكم على ذَلِك فَقَالُوا أردنَا إِن كنت كذابا نستريح مِنْك وَإِن كنت نَبيا لم يَضرك. رَوَاهُ البُخَارِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بکری کا ہدیہ پیش کیا گیا جس میں زہر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی موجود ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو۔ “ چنانچہ وہ سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیئے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: ”میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنے لگا ہوں کیا تم اس کے متعلق مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! ابوالقاسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تمہارا باپ کون تھے؟“ انہوں نے بتایا: فلاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم جھوٹ بولتے ہو، بلکہ تمہارا باپ تو فلاں ہے۔ “ انہوں نے کہا: آپ نے سچ فرمایا اور اچھا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں تم سے کسی چیز کے متعلق دریافت کروں تو تم مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، ابوالقاسم! اگر ہم نے آپ سے جھوٹ بولا تو آپ سمجھ جائیں گے جس طرح آپ نے ہمارے باپ کے بارے میں (ہمارا جھوٹ) جان لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جہنمی کون ہیں؟“ انہوں نے کہا: کچھ مدت کے لیے ہم اس میں جائیں گے، پھر ہماری جگہ تم وہاں آ جاؤ گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم ہی اس میں ذلیل ہو کر رہو گے، کیونکہ ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی بھی داخل نہیں ہوں گے۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم سے ایک چیز کے بارے میں سوال کرتا ہوں کیا تم مجھے سچ سچ جواب دو گے؟“ انہوں نے کہا: ہاں، ابوالقاسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے اس بکری (کے گوشت) میں زہر ملایا ہے؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا؟“ انہوں نے کہا: ہم نے اس لیے کیا کہ اگر آپ جھوٹے ہوئے تو ہمیں آپ سے آرام مل جائے گا اور اگر آپ سچے ہوئے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (3169)»
وعن عمرو بن اخطب الانصاري قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الفجر وصعد المنبر فخطبنا حتى حضرت الظهر فنزل فصلى ثم صعد المنبر فخطبنا حتى حضرت العصر ثم نزل فصلى ثم صعد المنبر حتى غربت الشمس فاخبرنا بما هو كائن إلى يوم القيامة فاعلمنا احفظنا. رواه مسلم وَعَن عَمْرو بن أخطَب الْأنْصَارِيّ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا الْفجْر وَصعد الْمِنْبَرِ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّهْرُ فَنَزَلَ فَصَلَّى ثمَّ صعِد الْمِنْبَر فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَأَخْبَرَنَا بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَأَعْلَمُنَا أحفظنا. رَوَاهُ مُسلم
عمر بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فجر کی نماز پڑھائی اور منبر پر تشریف لے گئے، ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ ظہر کا وقت ہو گیا پھر آپ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف لے گئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتیٰ کہ نماز عصر کا وقت ہو گیا، پھر آپ نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور (خطاب فرمایا) حتیٰ کہ سورج غروب ہو گیا آپ نے قیامت تک ہونے والے واقعات کے متعلق ہمیں بیان فرمایا، راوی بیان کرتے ہیں، ہم میں سے زیادہ عالم وہ ہے جو اس خطبے کو ہم میں سے زیادہ یاد رکھنے والا ہے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (25/ 2892)»
وعن معن بن عبد الرحمن قال سمعت ابي قال: سالت مسروقا: من آذن النبي صلى الله عليه وسلم بالجن ليلة استمعوا القرآن؟ قال حدثني ابوك يعني عبد الله ابن مسعود انه قال: آذنت بهم شجرة. متفق عليه وَعَنْ مَعْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ: سَأَلْتُ مَسْرُوقًا: مَنْ آذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِنِّ لَيْلَةَ اسْتَمَعُوا الْقُرْآنَ؟ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُوكَ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ ابْن مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: آذَنَتْ بِهِمْ شَجَرَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
معن بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے مسروق سے دریافت کیا جس رات جنوں نے قرآن سنا تھا اس کی خبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کس نے دی تھی؟ انہوں نے بتایا: مجھے تمہارے والد یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے متعلق ایک درخت نے اطلاع دی تھی۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3859) و مسلم (153/ 450)»
وعن انس قال كنا مع عمر بين مكة والمدينة فتراءينا الهلال وكنت رجلا حديد البصر فرايته وليس احد يزعم انه رآه غيري قال فجعلت اقول لعمر اما تراه فجعل لا يراه قال يقول عمر ساراه وانا مستلق على فراشي ثم انشا يحدثنا عن اهل بدر فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرينا مصارع اهل بدر بالامس يقول هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله قال فقال عمر فوالذي بعثه بالحق ما اخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فجعلوا في بئر بعضهم على بعض فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتهى إليهم فقال يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا قال عمر يا رسول الله كيف تكلم اجسادا لا ارواح فيها قال ما انتم باسمع لما اقول منهم غير انهم لا يستطيعون ان يردوا علي شيئا. رواه مسلم وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ كُنَّا مَعَ عُمَرَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَتَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ وَكُنْتُ رَجُلًا حَدِيدَ الْبَصَرِ فَرَأَيْتُهُ وَلَيْسَ أَحَدٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ رَآهُ غَيْرِي قَالَ فجعلتُ أقولُ لعُمر أما ترَاهُ فَجعل لَا يَرَاهُ قَالَ يَقُولُ عُمَرُ سَأَرَاهُ وَأَنَا مُسْتَلْقٍ عَلَى فِرَاشِي ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا عَنْ أَهْلِ بدر فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرِينَا مَصَارِعَ أَهْلِ بَدْرٍ بِالْأَمْسِ يَقُولُ هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ غَدًا إِنْ شَاءَ الله قَالَ فَقَالَ عمر فوالذي بَعثه بِالْحَقِّ مَا أخطئوا الْحُدُود الَّتِي حد رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ فَجُعِلُوا فِي بِئْرٍ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ فَانْطَلَقَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِمْ فَقَالَ يَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ حَقًّا فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَني الله حَقًا قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تُكَلِّمُ أَجْسَادًا لَا أَرْوَاحَ فِيهَا قَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَن يَردُّوا عليَّ شَيْئا. رَوَاهُ مُسلم
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہم نے چاند دیکھنے کا اہتمام کیا، میری نظر تیز تھی، لہذا میں نے اسے دیکھ لیا، اور میرے سوا کسی نے نہ کہا کہ اس نے اسے دیکھا ہے، میں عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا: کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے؟ وہ اسے نہیں دیکھ پا رہے تھے، راوی بیان کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے، میں عنقریب اسے دیکھ لوں گا۔ میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا، پھر انہوں نے اہل بدر کے متعلق ہمیں بتانا شروع کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر کے موقع پر کفار کے قتل گاہوں کے متعلق ایک روز پہلے ہی بتا رہے تھے: ”کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا، اور کل ان شاء اللہ یہاں فلاں قتل ہو گا۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس جس جگہ کی نشان دہی فرمائی تھی اس میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا (وہ وہیں وہیں قتل ہوئے تھے) راوی بیان کرتے ہیں، ان سب کو ایک دوسرے پر کنویں میں ڈال دیا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لائے اور فرمایا: ”اے فلاں بن فلاں!، اے فلاں بن فلاں! اللہ اور اس کے رسول نے تم سے جو وعدہ فرمایا تھا کیا تم نے اسے سچا پایا، کیونکہ اللہ نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا تھا میں نے تو اسے سچا پایا ہے؟“ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ بے روح جسموں سے کیسے کلام فرما رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں ان سے جو کہہ رہا ہوں وہ اسے تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن وہ مجھے کسی چیز کا جواب نہیں دے سکتے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (76/ 2873)»