وعنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «بعثت بجوامع الكلم ونصرت بالرعب وبينا انا نائم رايتني اوتيت بمفاتيح خزائن الارض فوضعت في يدي» متفق عليه. وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بُعِثْتُ بِجَوَامِعِ الْكَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وبَينا أَنا نائمٌ رأيتُني أُوتيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأَرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے جوامع الکلم کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے، رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے، اور اس دوران کے میں سویا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، اور انہیں میرے ہاتھ میں رکھ دیا گیا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (122) و مسلم (6/ 523)»
وعن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله زوى لي الارض فرايت مشارقها ومغاربها وإن امتي سيبلغ ملكها ما زوي لي منها واعطيت الكنزين: الاحمر والابيض وإني سالت ربي لامتي ان لا يهلكها بسنة عامة وان لا يسلط عليهم عدوا من سوى انفسهم فيستبيح بيضتهم وإن ربي قال: يا محمد إذا قضيت قضاء فإنه لا يرد وإني اعطيتك لامتك ان لا اهلكهم بسنة عامة وان لا اسلط عليهم عدوا سوى انفسهم فيستبيح بيضتهم ولو اجتمع عليهم من باقطارها حتى يكون بعضهم يهلك بعضا ويسبي بعضهم بعضا. رواه مسلم وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِيَ الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ: الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وَأَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وإنَّ ربِّي قَالَ: يَا محمَّدُ إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَإِنِّي أَعْطَيْتُكَ لِأُمَّتِكَ أَنْ لَا أُهْلِكَهُمْ بِسَنَةٍ عَامَّةٍ وأنْ لَا أُسلطَ عَلَيْهِم عدُوّاً سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا وَيَسْبِي بَعضهم بَعْضًا. رَوَاهُ مُسلم
ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا، اور جس قدر زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی وہاں تک میری امت کی حکومت پہنچے گی، مجھے دو خزانے عطا کیے گئے، سرخ اور سفید، میں نے اپنے رب سے درخواست کی کہ وہ عام قحط سالی کے ذریعے اسے ہلاک نہ کرے، ان کے باہمی دشمنوں کے سوا کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہ کرے کہ وہ ان کا مرکز (صدر مقام) تباہ کر دے اور بلا شبہ میرے رب نے فرمایا: اے محمد! میں جب کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ ٹل نہیں سکتا، میں نے آپ کو آپ کی امت کے بارے میں یہ عہد دے دیا کہ میں اسے قحط سالی میں مبتلا کر کے تباہ نہیں کروں گا، یہ بھی عہد دے دیا کہ ان پر ان کے باہمی دشمن کے علاوہ کوئی ایسا دشمن اس پر مسلط نہیں کروں گا جو ان کے مرکز کو تباہ کر دے، اگرچہ ان کے تمام دشمن متحد ہو کر ان پر حملہ کر دیں، البتہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے اور قیدی بنائیں گے۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (19/ 2889)»
وعن سعد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بمسجد بني معاوية دخل فركع فيه ركعتين وصلينا معه ودعا ربه طويلا ثم انصرف فقال: «سالت ربي ثلاثا فاعطاني ثنتين ومنعني واحدة سالت ربي ان لا يهلك امتي بالسنة فاعطانيها وسالته ان لا يهلك امتي بالغرق فاعطانيها وسالته ان لا يجعل باسهم بينهم فمنعنيها» . رواه مسلم وَعَنْ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَسْجِدِ بَنِي مُعَاوِيَةَ دَخَلَ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ وَدَعَا رَبَّهُ طَوِيلًا ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ: «سَأَلْتُ رَبِّي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي ثِنْتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُ رَبِّي أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالسَّنَةِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِالْغَرَقِ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بأسهم بَينهم فَمَنَعَنِيهَا» . رَوَاهُ مُسلم
سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرے تو آپ اس میں تشریف لے گئے، آپ نے وہاں دو رکعتیں پڑھیں اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ (دو رکعتیں) پڑھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب سے طویل دعا کی، اور جب اس سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگی تھیں، اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے مجھے روک دیا، میں نے اپنے رب سے سوال کیا تھا کہ وہ میری امت کو قحط کے ساتھ ہلاک نہ کرے، اس نے یہ چیز مجھے عطا فرما دی، میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ وہ میری امت کو غرق کے ذریعے ہلاک نہ کرے، تو اس نے یہ بھی مجھے عطا کر دی، اور میں نے اس سے سوال کیا کہ وہ ان میں باہم لڑائی پیدا نہ کرے تو اس سے مجھے روک دیا گیا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (20/ 2890)»
وعن عطاء بن يسار قال: لقيت عبد الله بن عمرو بن العاص قلت: اخبرني عن صفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في التوراة قال: اجل والله إنه لموصوف ببعض صفته في القرآن: (يا ايها النبي إنا ارسلناك شاهدا ومبشرا ونذيرا) وحرزا للاميين انت بعدي ورسولي سميتك المتوكل ليس بفظ ولا غليظ ولا سخاب في الاسواق ولا يدفع بالسيئة السيئة ولكن يعفو ويغفر ولن يقبضه الله حتى يقيم به الملة العوجاء بان يقولوا: لا إله إلا الله ويفتح بها اعينا عميا وآذانا صما وقلوبا غلفا. رواه البخاريوَعَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ: لَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ صِفَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي التَّوْرَاةِ قَالَ: أَجَلْ وَاللَّهِ إِنَّهُ لموصوف بِبَعْض صفتِه فِي القرآنِ: (يَا أيُّها النبيُّ إِنَّا أرسلناكَ شَاهدا ومُبشِّراً وَنَذِيرا) وحِرْزا للاُمِّيّينَ أَنْت بعدِي وَرَسُولِي سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّلَ لَيْسَ بِفَظٍّ وَلَا غَلِيظٍ وَلَا سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ وَلَا يَدْفَعُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَةَ وَلَكِنْ يَعْفُو وَيَغْفِرُ وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللَّهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ بِأَنْ يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَيَفْتَحُ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا وَآذَانًا صُمًّا وَقُلُوبًا غُلْفًا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عطا بن یسار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، میں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس صفت کے متعلق بتائیں جو تورات میں مذکور ہے، انہوں نے فرمایا: ٹھیک ہے، اللہ کی قسم! آپ کی جو صفات قرآن کریم میں ہیں، ان میں سے بعض تورات میں مذکور ہیں، جیسا کہ: ”اے نبی! ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا، ڈرانے والا اور اَن پڑھوں (عربوں) کی حفاظت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، آپ میرے بندے اور میرے رسول ہیں، میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے، آپ نہ تو بد اخلاق ہیں اور نہ سخت دل ہیں، آپ بازاروں میں شور و غل کرنے والے ہیں نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں، بلکہ آپ درگزر کرتے ہیں، معاف کرتے ہیں، اور اللہ ان کی روح قبض نہیں کرے گا حتی کہ وہ ان کے ذریعے ٹیڑھی ملت کو سیدھا کرا لے، اور وہ ”لا الہ الا اللہ“ کا اقرار کر لیں اور وہ اس (کلمے) کے ذریعے اندھی آنکھوں کو قوت بینائی، بہرے کانوں کو قوت سماعت اور غلاف میں بند دلوں کو کھول دے گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2125)»
وكذا الدارمي عن عطاء عن ابن سلام نحوه وذكر حديث ابي هريرة: «نحن الآخرون» في «باب الجمعة» وَكَذَا الدَّارِمِيُّ عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ سَلَامٍ نَحْوَهُ وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي هُرَيْرَةَ: «نَحْنُ الْآخَرُونَ» فِي «بَاب الْجُمُعَة»
اور اسی طرح دارمی نے عطاء عن ابن سلام کی سند سے اسی مثل روایت کیا ہے، اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ((نحن الآخرون .....))”باب الجمعۃ“ میں ذکر کی گئی ہے۔ صحیح، رواہ الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الدارمي (1/ 5 ح 6) حديث ’’نحن الآخرون‘‘ تقدم (1354)»
عن خباب بن الارت قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة فاطالها. قالوا: يا رسول الله صليت صلاة لم تكن تصليها قال: «اجل إنها صلاة رغبة ورهبة وإني سالت الله فيها ثلاثا فاعطاني اثنتين ومنعني واحدة سالته ان لا يهلك امتي بسنة فاعطانيها وسالته ان لا يسلط عليهم عدوا من غيرهم فاعطانيها وسالته ان لا يذيق بعضهم باس بعض فمنعنيها» . رواه الترمذي والنسائي عَن خبَّابِ بنِ الأرتِّ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ فَأَطَالَهَا. قَالُوا: يَا رَسُولَ الله صلَّيتَ صَلَاةً لَمْ تَكُنْ تُصَلِّيهَا قَالَ: «أَجَلْ إِنَّهَا صَلَاةُ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ وَإِنِّي سَأَلْتُ اللَّهَ فِيهَا ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُهْلِكَ أُمَّتِي بِسَنَةٍ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ فمنعَنيها» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ
خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو اسے طویل کیا، صحابہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، جبکہ آپ نے ایسی نماز (پہلے کبھی) نہیں پڑھائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، یہ امید اور خوف والی نماز ہے، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین چیزوں کی درخواست کی: اس نے مجھے دو عطا فرما دیں اور ایک سے روک دیا، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ قحط کے ذریعے میری امت کو ہلاک نہیں کرے گا اس نے اسے شرف قبولیت بخشا، میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے علاوہ کسی اور دشمن کو ان پر مسلط نہیں کرے گا، اس نے یہ بھی پوری فرما دی اور میں نے اس سے یہ بھی درخواست کی کہ ان کی آپس میں لڑائی (خانہ جنگی) نہ ہو تو اس نے اس سے مجھے روک دیا۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (2175 وقال: حسن صحيح) و النسائي (3/ 216. 217 ح 1639)»
وعن ابي مالك الاشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل اجاركم من ثلاث خلال: ان لا يدعو عليكم نبيكم فتهلكوا جميعا وان لا يظهر اهل الباطل على اهل الحق وان لا تجتمعوا على ضلالة. رواه ابو داود وَعَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَجَارَكُمْ مِنْ ثَلَاثِ خِلَالٍ: أَنْ لَا يَدْعُوَ عَلَيْكُمْ نَبِيُّكُمْ فَتَهْلَكُوا جَمِيعًا وَأَنْ لَا يُظْهِرَ أَهْلَ الْبَاطِلِ على أهلِ الحقِّ وَأَن لَا تجتمِعوا على ضَلَالَة. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے تمہیں تین چیزوں سے محفوظ رکھا ہے، تمہارا نبی تمہارے لیے یہ بددعا نہیں کرے گا کہ تم سب ہلاک ہو جاؤ، اہل باطل، اہل حق پر غالب نہیں ہوں گے، اور تم گمراہی پر اکٹھے نہیں ہو گے۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4253) ٭ فيه شريح عن أبي مالک رضي الله عنه، و قال أبو حاتم الرازي: ’’شريح بن عبيد عن أبي مالک الأشعري: مرسل‘‘ (المراسيل ص90ت 327ب)»
وعن عوف بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لن يجمع الله على هذه الامة سيفين: سيفا منها وسيفا من عدوها رواه ابو داود وَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَنْ يَجْمَعَ اللَّهُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ سَيْفَيْنِ: سَيْفًا مِنْهَا وسَيفاً منْ عدُوِّها رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عوف بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اس امت پر دو تلواریں جمع نہیں کرے گا، ایک ان کی اپنی تلوار اور ایک اس کے دشمن کی تلوار (یعنی ایسا نہیں ہو گا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بھی ہو اور دشمن بھی ان پر حملہ آور ہو)۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (4301) ٭ يحيي بن جابر: لم يلق عوف بن مالک رضي الله عنه فالسند منقطع.»
وعن العباس انه جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فكانه سمع شيئا فقام النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر فقال: «من انا؟» فقالوا: انت رسول الله. فقال: «انا محمد بن عبد الله بن عبد المطلب إن الله خلق الخلق فجعلني في خيرهم ثم جعلهم فرقتين فجعلني في خير فرقة ثم جعلهم قبائل فجعلني في خيرهم قبيلة ثم جعله بيوتا فجعلني في خيرهم بيتا فانا خيرهم نفسا وخيرهم بيتا» . رواه الترمذي وَعَن الْعَبَّاس أَنَّهُ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: «مَنْ أَنَا؟» فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ. فَقَالَ: «أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ ثمَّ جعلهم فرقتَيْن فجعلني فِي خير فِرْقَةً ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبيلَة ثمَّ جعله بُيُوتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا فَأَنَا خَيْرُهُمْ نفسا وَخَيرهمْ بَيْتا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (غصے کی حالت میں) نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے گویا انہوں نے کچھ (نسب میں طعن) سنا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے تو فرمایا: ”میں کون ہوں؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے ان میں سے بہتر گروہ میں پیدا فرمایا، پھر اس نے ان کے قبیلے بنائے تو مجھے ان سب سے بہتر قبیلے میں پیدا فرمایا، پھر ان کو گھرانے گھرانے بنایا تو مجھے ان میں سے بہترین گھرانے میں پیدا فرمایا، میں ان سے نفس و حسب کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں اور ان کے گھرانے کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔ “ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3607. 3608 وقال: حسن) ٭ فيه يزيد بن أبي زياد: ضعيف مشھور.»
وعن ابي هريرة قال: قالوا: يا رسول الله متى وجبت لك النبوة؟ قال: «وآدم بين الروح والجسد» . رواه الترمذي وَعَن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! آپ نبوت کے منصب سے کب نوازے گئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدم ؑ روح اور جسم کے مابین تھے۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (3609 وقال: حسن صحيح غريب) [والفريابي في کتاب القدر (14)] ٭ يعني أنه ﷺ کان نبيًا في التقدير قبل خلق آدم عليه السلام فالحديث متعلق بالتقدير، لا بخلق رسول الله ﷺ فافھمه فإنه مھم والحديث الآتي يؤيد ھذا التفسير.»