وعن ابي ايوب قا ل: خرج النبي صلى الله عليه وسلم وقد وجبت الشمس فسمع صوتا فقال: «يهود تعذب في قبورها» . متفق عليه وَعَن أبي أَيُّوب قا ل: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتِ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ: «يَهُودُ تُعَذَّبَ فِي قبورها» . مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوایوب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا، آپ نے ایک آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہودیوں کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1375) و مسلم (69/ 2869)»
وعن جابر قا ل: قدم النبي صلى الله عليه وسلم من سفر فلما كان قرب المدينة هاجت ريح تكاد ان تدفن الراكب فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بعثت هذه الريح لموت منافق» . فقدم المدينة فإذا عظيم من المنافقين قد مات. رواه مسلم وَعَن جَابر قا ل: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَفَرٍ فَلَمَّا كَانَ قُرْبَ الْمَدِينَةِ هَاجَتْ رِيحٌ تَكَادُ أَنْ تَدْفِنَ الرَّاكِبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بُعِثَتْ هَذِهِ الرِّيحُ لِمَوْتِ مُنَافِقٍ» . فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا عَظِيمٌ مِنَ الْمُنَافِقين قد مَاتَ. رَوَاهُ مُسلم
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر سے واپس تشریف لائے، جب آ پ مدینہ کے قریب پہنچے تو ایسی تند ہوا چلی، قریب تھا کہ وہ سوار کو چھپا دیتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہوا کسی منافق کی موت کے وقت چلائی گئی ہے۔ “ آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں کا ایک بڑا آدمی فوت ہو چکا تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (15/ 2782)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى قدمنا عسفان فاقام بها ليالي فقال الناس: ما نحن ههنا في شيء وإن عيالنا لخلوف ما نامن عليهم فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «والذي نفسي بيده ما في المدينة شعب ولا نقب إلا عليه ملكان يحرسانها حتى تقدموا إليها» ثم قال: «ارتحلوا» فارتحلنا واقبلنا إلى المدينة فوالذي يحلف به ما وضعنا رحالنا حين دخلنا المدينة حتى اغار علينا بنو عبد الله بن غطفان وما يهيجهم قبل ذلك شيء. رواه مسلم وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ فَقَالَ النَّاس: مَا نَحن هَهُنَا فِي شَيْءٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا فِي الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا» ثُمَّ قَالَ: «ارْتَحِلُوا» فَارْتَحَلْنَا وَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ فَوَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ مَا وَضَعْنَا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ وَمَا يُهَيِّجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ ہم عسفان پہنچے تو آپ نے چند روز وہاں قیام فرمایا، تو بعض (منافق) لوگوں نے کہا: یہاں تو ہم بلا مقصد ٹھہرے ہیں، ہمارے اہل و عیال پیچھے ہیں، ہمیں ان کا خطرہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مدینہ کی ہر گھاٹی اور ہر درے پر دو فرشتے پہرہ دے رہے ہیں حتیٰ کہ تم وہاں واپس چلے جاؤ۔ “ پھر فرمایا: ”کوچ کرو۔ “ ہم نے کوچ کیا اور مدینہ کی طرف واپس پلٹے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب ہم مدینہ میں داخل ہوئے تو ہم نے ابھی اپنا سامان نہیں اتارا تھا کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر حملہ کر دیا، اس سے پہلے کوئی چیز انہیں آمادہ نہیں کرتی تھی۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (475/ 1374)»
وعن انس قال اصابت الناس سنة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فبينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب في يوم جمعة قام اعرابي فقال يا رسول الله هلك المال وجاع العيال فادع الله لنا فرفع يديه وما نرى في السماء قزعة فوالذي نفسي بيده ما وضعها حتى ثار السحاب امثال الجبال ثم لم ينزل عن منبره حتى رايت المطر يتحادر على لحيته صلى الله عليه وسلم فمطرنا يومنا ذلك ومن الغد وبعد الغد والذي يليه حتى الجمعة الاخرى وقام ذلك الاعرابي او قال غيره فقال يا رسول الله تهدم البناء وغرق المال فادع الله لنا فرفع يديه فقال اللهم حوالينا ولا علينا فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت وصارت المدينة مثل الجوبة وسال الوادي قناة شهرا ولم يجئ احد من ناحية إلا حدث بالجود وفي رواية قال: «اللهم حوالينا ولا علينا اللهم على الآكام والظراب وبطون الاودية ومنابت الشجر» . قال: فاقلعت وخرجنا نمشي في الشمس متفق عليه وَعَن أنسٍ قَالَ أَصَابَت النَّاس سنَةٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسلم يخْطب فِي يَوْم جُمُعَة قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا وَضَعَهَا حَتَّى ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْت الْمَطَر يتحادر على لحيته صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فمطرنا يَوْمنَا ذَلِك وَمن الْغَد وَبعد الْغَد وَالَّذِي يَلِيهِ حَتَّى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِينَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ» . قَالَ: فَأَقْلَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشّمسِ مُتَّفق عَلَيْهِ
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں لوگ قحط سالی کا شکار ہو گئے، اس دوران کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے، ایک اعرابی کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مال مویشی ہلاک ہو گئے، بال بچے بھوک کا شکار ہو گئے، اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، آپ نے ہاتھ بلند فرمائے، اس وقت ہم آسمان پر بادل کا ٹکڑا تک نہیں دیکھ رہے تھے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! آپ نے ابھی انہیں نیچے نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح بادل چھا گئے، پھر آپ اپنے منبر سے نیچے نہیں اترے تھے کہ میں نے بارش کے قطرے آپ کی داڑھی مبارک پر گرتے ہوئے دیکھے، اس روز اگلے روز یہاں تک کہ دوسرے جمعے تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو وہی اعرابی یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا، اللہ کے رسول! مکان گر گئے، مال ڈوب گیا، آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے آس پاس بارش برسا، ہم پر نہ برسا۔ “ آپ بادلوں کے جس کونے کی طرف اشارہ فرماتے تو ادھر سے بادل چھٹ جاتا اور مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا، جبکہ وادی قناۃ کا نالہ مہینہ بھر بہتا رہا، اور مدینہ کے آس پاس سے جو بھی آتا وہ خوب سیرابی کی بات کرتا۔ ایک دوسری روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ ہمارے آس پاس بارش برسا، ہم پر نہ برسا، اے اللہ! ٹیلوں پر، پہاڑوں پر، وادیوں میں اور درختوں کے اگنے کی جگہوں پر بارش برسا۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، بارش تھم گئی اور ہم نکلے تو ہم دھوپ میں چل رہے تھے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (933) و مسلم (8، 9 / 897)»
وعن جابر قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خطب استند إلى جذع نخلة من سواري المسجد فلما صنع له المنبر فاستوى عليه صاحت النخلة التي كان يخطب عندها حتى كادت تنشق فنزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى اخذها فضمها إليه فجعلت تئن انين الصبي الذي يسكت حتى استقرت قال بكت على ما كانت تسمع من الذكر. رواه البخاري وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ اسْتَنَدَ إِلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَلَمَّا صُنِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ فَاسْتَوَى عَلَيْهِ صَاحَتِ النَّخْلَةُ الَّتِي كَانَ يَخْطُبُ عِنْدَهَا حَتَّى كَادَت تَنْشَقَّ فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهَا فَضَمَّهَا إِلَيْهِ فَجَعَلَتْ تَئِنُّ أَنِينَ الصَّبِيِّ الَّذِي يُسَكَّتُ حَتَّى اسْتَقَرَّتْ قَالَ بَكَتْ عَلَى مَا كَانَتْ تَسْمَعُ مِنَ الذِّكْرِ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے تنے کے ساتھ ٹیک لگایا کرتے تھے، جب آپ کے لیے منبر بنا دیا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہو گئے، چنانچہ آپ جس کھجور کے تنے کے پاس خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے وہ چیخنے چلانے لگا: حتیٰ کہ قریب تھا کہ وہ پھٹ جاتا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (منبر سے) نیچے اترے، اسے پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ملایا تو وہ اس بچے کی طرح رونے لگا جسے خاموش کرایا جاتا ہے، حتیٰ کہ وہ خاموش ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جو ذکر سنا کرتا تھا اب وہ اس سے محروم ہو گیا ہے اس لیے وہ رویا تھا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2095)»
وعن سلمة بن الاكوع ان رجلا اكل عند رسول الله صلى الله عليه وسلم بشماله فقال: «كل بيمينك» قال: لااستطيع. قال «لا استطعت» . ما منعه إلا الكبر قا ل: فما رفعها إلى فيه. رواه مسلم وَعَن سَلمَة بن الْأَكْوَع أَنَّ رَجُلًا أَكَلَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَمَالِهِ فَقَالَ: «كُلْ بِيَمِينِكَ» قَالَ: لاأستطيع. قَالَ «لَا اسْتَطَعْتَ» . مَا مَنَعَهُ إِلَّا الْكِبْرُ قا ل: فَمَا رَفعهَا إِلَى فِيهِ. رَوَاهُ مُسلم
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بائیں ہاتھ سے کھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔ “ اس نے کہا: میں طاقت نہیں رکھتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تو استطاعت ن�� رکھے۔ “ اس شخص کو تکبر ہی نے روکا تھا، راوی بیان کرتے ہیں، وہ پھر اس (دائیں ہاتھ) کو اپنے منہ تک نہیں اٹھا سکتا تھا۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (107/ 2021)»
وعن انس ان اهل المدينة فزعوا مرة فركب النبي صلى الله عليه وسلم فرسا لابي طلحة بطيئا وكان يقطف فلما رجع قال: «وجدنا فرسكم هذا بحرا» . فكان بعد ذلك لا يجارى وفي رواية: فما سبق بعد ذلك اليوم. رواه البخاري وَعَن أنسٍ أَنَّ أَهْلَ الْمَدِينَةِ فَزِعُوا مَرَّةً فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَسًا لِأَبِي طَلْحَةَ بَطِيئًا وَكَانَ يَقْطِفُ فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ: «وَجَدْنَا فَرَسَكُمْ هَذَا بَحْرًا» . فَكَانَ بَعْدَ ذَلِكَ لَا يُجَارَى وَفِي رِوَايَةٍ: فَمَا سُبِقَ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْم. رَوَاهُ البُخَارِيّ
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ والے گھبراہٹ کا شکار ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطلحہ کے گھوڑے پر، جس پر زین نہیں تھی، سوار ہو گئے، وہ سست رفتار تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو فرمایا: ”ہم نے تمہارے اس گھوڑے کو دریا (یعنی تیز رفتار) پایا۔ “ پھر اس کے بعد یہ گھوڑا کسی دوسرے گھوڑے کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا تھا، ایک دوسری روایت میں ہے: اس روز کے بعد کوئی گھوڑا اس کے آگے نہیں بڑھ سکا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «[متفق عليه]، رواه البخاري (2867 و الرواية الثانية: 2969) و مسلم (48/ 2307)»
وعن جابر قال: توفي ابي وعليه دين فعرضت على غرمائه ان ياخذو االتمر بما عليه فابوا فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: قد علمت ان والدي استشهد يوم احد وترك عليه دينا كثيرا وإني احب ان يراك الغرماء فقال لي: اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كانهم اغروا بي تلك الساعة فلما راى ما يصنعون طاف حول اعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال: «ادع لي اصحابك» . فما زال يكيل لهم حتى ادى الله عن والدي امانته وانا ارضى ان يؤدي الله امانة والدي ولا ارجع إلى اخواتي بتمرة فسلم الله البيادر كلها وحتى إني انظر إلى البيدر الذي كان عليه النبي صلى الله عليه وسلم كانها لم تنقص تمرة واحدة. رواه البخاري وَعَن جابرٍ قَالَ: تُوُفِّيَ أَبِي وَعَلَيْهِ دَيْنٌ فَعَرَضْتُ عَلَى غُرَمَائه أَن يأخذو االتمر بِمَا عَلَيْهِ فَأَبَوْا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: قَدْ عَلِمْتَ أَنَّ وَالِدِي استُشهدَ يَوْم أحد وَترك عَلَيْهِ دَيْنًا كَثِيرًا وَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ يَرَاكَ الْغُرَمَاءُ فَقَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَبَيْدِرْ كُلَّ تَمْرٍ عَلَى نَاحِيَةٍ فَفَعَلْتُ ثُمَّ دَعَوْتُهُ فَلَمَّا نَظَرُوا إِلَيْهِ كَأَنَّهُمْ أُغْرُوا بِي تِلْكَ السَّاعَةَ فَلَمَّا رَأَى مَا يَصْنَعُونَ طَافَ حَوْلَ أَعْظَمِهَا بَيْدَرًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ جَلَسَ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «ادْعُ لِي أَصْحَابَكَ» . فَمَا زَالَ يَكِيلُ لَهُمْ حَتَّى أَدَّى اللَّهُ عَنْ وَالِدِي أَمَانَتَهُ وَأَنَا أَرْضَى أَن يُؤدِّي الله أَمَانَة وَالِدي وَلَا أرجع إِلَى أَخَوَاتِي بِتَمْرَةٍ فَسَلَّمَ اللَّهُ الْبَيَادِرَ كُلَّهَا وَحَتَّى إِني أنظر إِلى البيدر الَّذِي كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّهَا لم تنقصُ تَمْرَة وَاحِدَة. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت میرے والد فوت ہوئے تو وہ مقروض تھے، میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیش کش کی کہ وہ اس کے قرض کے برابر کھجوریں لے لیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا، آپ جانتے ہی ہیں کہ میرے والد غزوۂ احد میں شہید کر دیے گئے تھے، اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ وہ قرض خواہ آپ کو (میرے ہاں) دیکھ لیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”جاؤ ہر قسم کی کھجور الگ الگ جمع کرو۔ “ میں نے ایسے ہی کیا، پھر آپ کو دعوت دی، جب قرض خواہوں نے آپ کی طرف دیکھا تو مجھ پر سخت ناراض ہوئے، جب آپ نے ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے، پھر فرمایا: ”اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں ناپ کر ادا فرماتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرے والد کا سارا قرض ادا کر دیا اور میں خوش تھا کہ اللہ نے میرے والد کا قرض ادا فرما دیا، اور (میرا خیال تھا کہ) میں اپنی بہنوں کے لیے ایک کھجور بھی لے کر نہ جا سکوں گا، لیکن اللہ نے سارے ڈھیر بچا دیے حتیٰ کہ میں اس ڈھیر کی طرف، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، دیکھ رہا ہوں کہ وہ اسی طرح ہے کہ جس طرح اس سے ایک کھجور بھی کم نہیں ہوئی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (2781)»
وعنه قال: إن ام مالك كانت تهدي للنبي صلى الله عليه وسلم في عكة لها سمنا فياتيها بنوها فيسالون الادم وليس عندهم شيء فتعمد إلى الذي كانت تهدي فيه للنبي صلى الله عليه وسلم فتجد فيه سمنا فما زال يقيم لها ادم بيتها حتى عصرته فاتت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «عصرتيها» قالت نعم قال: «لو تركتيها ما زال قائما» . رواه مسلم وَعَنْهُ قَالَ: إِنَّ أُمَّ مَالِكٍ كَانَتْ تُهْدِي لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُكَّةٍ لَهَا سَمْنًا فَيَأْتِيهَا بَنُوهَا فَيَسْأَلُونَ الْأُدُمَ وَلَيْسَ عِنْدَهُمْ شَيْءٌ فَتَعْمِدُ إِلَى الَّذِي كَانَتْ تُهْدِي فِيهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَجِدُ فِيهِ سَمْنًا فَمَا زَالَ يُقِيمُ لَهَا أُدُمَ بَيْتِهَا حَتَّى عَصَرَتْهُ فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «عَصَرْتِيهَا» قَالَتْ نَعَمْ قَالَ: «لَوْ تَرَكْتِيهَا مَا زَالَ قَائِمًا» . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ام مالک رضی اللہ عنہ اپنے ایک مشکیزے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گھی کا ہدیہ پیش کیا کرتی تھیں، ان کے بیٹے ان کے پاس آتے اور سالن مانگتے اور ان کے پاس کچھ نہ ہوتا تو وہ اس مشکیزے کا قصد کرتیں جس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدیہ بھیجا کرتی تھیں، وہ اس میں گھی پاتیں، اور ان کے گھر میں ہمیشہ ہی سالن رہا حتیٰ کہ اس نے اس (مشکیزے) کو نچوڑ لیا، وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اسے نچوڑ لیا ہے؟“ ام مالک رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسے چھوڑ دیتیں تو وہ ویسے ہی رہتا۔ “ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (8/ 2280)»
وعن انس قال: قال ابو طلحة لام سليم لقد سمعت صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم ضعيفا اعرف فيه الجوع فهل عندك من شيء؟ فاخرجت اقراصا من شعير ثم اخرجت خمارا لها فلفت الخبز ببعضه ثم دسته تحت يدي ولاثتني ببعضه ثم ارسلتني إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فذهبت به فوجدت رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد ومعه الناس فقمت عليهم فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ارسلك ابو طلحة؟» قلت نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن معه قوموا فانطلق وانطلقت بين ايديهم حتى جئت ابا طلحة فقال ابو طلحة يا ام سليم قد جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس وليس عندنا ما نطعمهم فقالت الله ورسوله اعلم قال فانطلق ابو طلحة حتى لقي رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو طلحة معه فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هلمي يا ام سليم ما عندك فاتت بذلك الخبز فامر به ففت وعصرت ام سليم عكة لها فادمته ثم قال فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم ما شاء الله ان يقول ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة فاذن لهم فاكلوا حتى شبعوا ثم خرجوا ثم اذن لعشرة فاكل القوم كلهم وشبعوا والقوم سبعون او ثمانون رجلا. متفق عليه وفي رواية لمسلم انه قال: «اذن لعشرة» فدخلوا فقال: «كلوا وسموا الله» . فاكلوا حتى فعل ذلك بثمانين رجلا ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم واهل البيت وترك سؤرا وفي رواية للبخاري قال: «ادخل علي عشرة» . حتى عد اربعين ثم اكل النبي صلى الله عليه وسلم فجعلت انظر هل نقص منها شيء؟ وفي رواية لمسلم: ثم اخذ ما بقي فجمعه ثم دعا فيه با لبركة فعاد كما كان فقال: «دونكم هذا» وَعَن أنسٍ قَالَ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ من شَيْء؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟» قُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْت أَبَا طَلْحَة فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُوله أعلم قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بذلك الْخبز فَأمر بِهِ ففت وعصرت أم سليم عكة لَهَا فأدمته ثمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثمَّ خَرجُوا ثمَّ أذن لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لمُسلم أَنه قَالَ: «أذن لِعَشَرَةٍ» فَدَخَلُوا فَقَالَ: «كُلُوا وَسَمُّوا اللَّهَ» . فَأَكَلُوا حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ بِثَمَانِينَ رَجُلًا ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُ الْبَيْتِ وَتَرَكَ سُؤْرًا وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ قَالَ: «أَدْخِلْ عَلَيَّ عَشَرَةً» . حَتَّى عَدَّ أَرْبَعِينَ ثُمَّ أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ هَلْ نَقَصَ مِنْهَا شَيْءٌ؟ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: ثُمَّ أَخَذَ مَا بَقِيَ فَجَمَعَهُ ثُمَّ دَعَا فِيهِ با لبركة فَعَاد كَمَا كَانَ فَقَالَ: «دونكم هَذَا»
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم رضی اللہ عنہ سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز کمزور سی سنی ہے، جس سے میں نے بھوک کا اندازہ لگایا ہے، کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور روٹیوں کو لپیٹ کر چادر کے ایک کونے میں باندھ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا، میں وہ لے کر چلا گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد میں پایا اور آپ کے ساتھ کچھ لوگ بھی تھے، میں نے انہیں سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”تجھے ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: ”کھانا دے کر؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاضرین سے فرمایا: ”کھڑے ہو جاؤ۔ “ آپ چلے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا حتیٰ کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر انہیں بتایا تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ام سُلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے ہیں، جبکہ ہمارے پاس تو ایسی کوئی چیز نہیں جو انہیں کھلانے کے لیے پیش کر سکیں، انہوں نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گئے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ام سلیم! تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ لے آؤ۔ “ وہ وہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان پر ان روٹیوں کو چورا کیا گیا اور ام سلیم رضی اللہ عنہ نے ان پر گھی کا مشکیزہ نچوڑا اور اسے سالن بنایا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کھانے کے بارے میں وہ دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے چاہی پھر فرمایا: ”دس آدمیوں کو بلاؤ، انہیں بلایا گیا انہوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر وہ چلے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دس کو بلاؤ، اس طرح سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا، وہ ستر یا اسّی افراد تھے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دس افراد کو بلاؤ۔ ‘��� وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ “ انہوں نے کھایا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسّی افراد سے ایسے ہی فرمایا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور گھر والوں نے کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس دس آدمی بھیجو، حتیٰ کہ آپ نے چالیس افراد گنے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا کھایا، میں دیکھنے لگا کہ کیا اس میں کوئی کمی آتی ہے؟ اور صحیح مسلم کی روایات میں، پھر جو کھانا بچ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اکٹھا کیا، پھر اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی تو وہ جتنا تھا اتنا ہی ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے لو۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (3578) و مسلم (142/ 2040) الرواية الثانية، رواھا مسلم (143/ 2040) و الرواية الثالثة، رواھا البخاري (5450) و الرواية الرابعة، رواھا مسلم (143/ 2040)»